• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ، نابینا افراد کی چُھٹی/ثاقب لقمان قریشی

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ، نابینا افراد کی چُھٹی/ثاقب لقمان قریشی

میں بصارت سے محروم چند افراد کے انٹرویوز کرچکا ہوں۔ بصارت سے محرومی کی وجہ سب نے ایک ہی بتائی، وہ ہے کزن میرج۔ ہمارے جسم میں مختلف بیماریوں کے جراثیم پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ جن سے ہمارا مدافعتی نظام لڑ رہا ہوتا ہے۔ مختلف علاقوں، رنگ و نسل کے لوگوں میں مختلف اقسام کی بیماریوں کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ جب ہم خاندان سے باہر شادی کرتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ ہمارے شریک حیات اور ہمارے جسم میں پائے جانے والے جراثیم مختلف نوعیت کے ہوں۔ اسکے برعکس خاندان میں شادی کی صورت میں ایک ہی قسم کی بیماریوں کے جراثیم جب آپس میں مل کر گروپ بندی کرتے ہیں تو مزید طاقتور ہو جاتے ہیں۔ اسطرح موروثی بیماریاں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جبکہ ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے ساری زندگی معذوری کی حالت میں گزارتے ہیں۔ کزن میرج کی وجہ سے کروڑوں لوگ معذوری کا شکار ہیں۔ ایک طرف معاشرہ انھیں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تو دوسری طرف حکومت انھیں انکے جائز انسانی حقوق دینے کیلئے تیار نہیں۔
بصارت سے محروم افراد سے میری محبت دیگر کمیونٹیز سے کہیں ذیادہ ہے۔ جسکا اظہار میں اپنی تحریروں میں کرتا رہتا ہوں۔ بصارت سے محروم افراد کے پاس حصول علم کیلئے بریل موجود ہے۔ اسکے علاوہ آڈیو کتابیں اور ایسے ایسے سافٹ ویئر آگئے ہیں کہ یہ بالکل عام لوگوں کی طرح نہ صرف تعلیم حاصل کر سکتے ہیں بلکہ نارمل لوگوں والی نوکریاں بھی کرسکتے ہیں۔
میں نے نابینا کرکٹ ٹیم کے کیپٹن سے لے کر نابینا صحافیوں، شاعروں، آئی-ٹی کے ایکسپرٹس اور طالب علموں تک کے انٹرویوز کیئے ہیں۔ سب نے میٹرک خصوصی تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔ اسکے بعد نارمل کالجوں اور یونیورسٹیوں سے بقیہ تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھایا۔ نابینا افراد کیلئے مخصوص کالج نہ ہونے کی وجہ سے انھیں نارمل بچوں کے ساتھ پڑھنا پڑتا ہے۔ کچھ مشکلات کے بعد ان سب نے نارمل بچوں کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ معاشرے میں مقام حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔
نابینا افراد کی آسانی کیلئے ایسے جدید سافٹ ویئر متعارف کروائے جا چکے ہیں جن کی مدد سے باآسانی پڑھا اور لکھا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ کتابیں پڑھتے ہیں اور فلموں کے مزے بھی لیتے ہیں۔
چند برس قبل میں نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ایک نابینا لیکچرار روبینہ شاد کا انٹرویو کیا۔ روبینہ اس وقت ایم-فل کر رہی تھیں۔ انکے اعزازت کو میں نے اسطرح ترتیب دیا تھا 1۔ اول پوزیشن : آل پاکستان بین الجامعات مقابلہ شاعری 2۔ صائمہ عمار ایوارڈ 3۔ ینگ وومن رائٹرز فورم کی جانب سے دو ایوارڈ حاصل کیئے 4۔ “آپ” کمیونیکیشن اور یوایس کی جانب سے چیمپئین ایوارڈ 5۔ سٹریٹ چیمپئین پاکستان کی جانب سے “دا بیسٹ ایوارڈ 6۔ ورلڈ بینک کی جانب سے بیسٹ رائٹر ایوارڈ 7۔ پی-ایف-ایف-ایوارڈ 8۔ “دیا” ایوارڈ
سال قبل میں نے روبینہ کے چھوٹے بھائی کا انٹرویو کیا جو انگریزی میں بی-ایس کر رہے ہیں۔ نزاکت بھی نابینا ہیں۔ میوزک سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں بارہ زبانوں میں گانے گا سکتے ہیں۔ ان بارہ زبانوں میں اردو، انگریزی، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، کشمیری، سرائیکی، بنگالی، مراٹھی، تامل اور تلوگو شامل ہیں۔ نزاکت بھی متعدد ایوارڈز اپنے نام کرچکے ہیں۔
اسی طرح میرپور آزاد کشمیر کے دو نابینا بھائیوں کے انٹرویوز کا موقع ملا۔ اویس احمد اس وقت پی-ایچ-ڈی کر رہے تھے۔ آجکل کالج میں پڑھا رہے ہیں۔ اویس کا بھائی جنید یونیورسٹی آف گجرات سے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں بی-ایس کر رہا تھا۔ جنید کی باتیں بڑی ہی غیر معمولی تھیں۔ سال قبل اسے امریکہ کی یونیورسٹی سے سکالر شپ آفر ہوئی۔ جنید امریکہ میں اپنی ڈگری مکمل کر رہا ہے اور بڑے بڑے فورمز پر لیکچرز دے کر ملک کا نام بھی روشن کر رہا ہے۔
میری بیگم صاحبہ کراچی سے ہیں۔ سکول میں پڑھاتی تھیں۔ ایک روز انکی ملاقات قاری عبدالعزیز گردیزی صاحب سے ہوئی۔ قاری صاحب بھی نابینا ہیں اپنے علاقے میں مدرسہ چلا رہے ہیں۔ بیگم صاحبہ قاری صاحب کی شخصیت سے اتنی متاثر ہوئیں۔ کہ دنیاوی تعلیم ترک کرکے دین کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ بیگم کراچی میں جامعہ حفصہ کے نام سے مدرسہ چلاتی رہی ہیں۔ شادی کے بعد بھی یہ سلسلہ ختم نہ ہوا۔ بیگم صاحبہ راولپنڈی میں بھی کافی عرصے سے مدرسہ چلا رہی ہیں۔
میں نابینا افراد کی کرکٹ ٹیم کے کیپٹن اور کھلاڑیوں کے بھی انٹرویوز کر چکا ہوں۔ ہماری بلائنڈ کرکٹ ٹیم متعدد بار بلائنڈ کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر ملک کا نام روشن کر چکی ہے۔ ہماری بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی تعلیمی کارکردگی دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ مجھے کوئی کھلاڑی گریجویشن سے کم نہیں ملا۔
ہمارے پیارے دوست سید سردار احمد پیرزادہ صاحب وطن عزیز کے پہلے نابینا صحافی ہیں۔ جن کے کالمز اور وی-لاگز اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔
نابینا افراد کی قابلیت کے حوالے سے میں ایسی بے شمار مثالیں دے سکتا ہوں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نابینا افراد کی تعلیم اور روزگار کے حوالے سے ہمارے بوسیدہ تعلیمی نظام اور دفاتر کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی نوکریوں کیلئے احتجاج پر مجبور ہیں۔
مسلم لیگ نون کے سابقہ دور حکومت میں انیس سال بعد ملک میں مردم شماری کی گئی۔ جس میں مردم شماری کے فارم سے معذور افراد کا خانہ ہی اڑا دیا گیا۔ تاکہ نہ تو معذور افراد کا ڈیٹا سامنے آئے اور نہ ہی بیرون دنیا سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے۔
اسی دور میں نوکریوں کیلئے احتجاج کرنے والے نابینا افراد پر بے رحمی سے ڈنڈے برسائے گئے۔ یہاں تک کے کچھ لوگ بے ہوش تک ہوگئے۔
چند روز قبل مظفرگڑھ کے خصوصی تعلیمی اور دیگر اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجر نابینا افراد کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ چار ماہ سے تنخواہیں بھی نہیں ادا کی گئیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ملازمت سے فارغ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔
بجٹ میں ایک طرف سرکاری ملازمین کی تنخوائیں 30٪ بڑھائی جا رہی ہیں تو دوسری طرف نابینا افراد کو ملازمتوں سے فارغ کیا جا رہا ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے؟ اور کیسا انصاف ہے؟
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اپنی 50٪ خواتین، 20٪ معذور افراد، خواجہ سراء کمیونٹی اور اقلیتی برادری کو برابری کے حقوق دیئے بغیر آگئے نہیں بڑھ سکتا۔ مسلم لیگ کی حکومت کو اپنی معذور دشمن پالیسیز پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔ اس قسم کے اقدامات کو انسانی حقوق کی تاریخ میں بدترین الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply