پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر ۔ ایک الگ تجزیہ۔۔۔علی اختر

انسان جب اس دنیا میں آیا تو اس کی پہلی ضرورت غذا کی تھی، سو شکار کیا۔ دوسری ضرورت لباس کی تھی سو پتوں سے بدن ڈھانپ لیا ۔ پھر اسے کسی ایسے ٹھکانے  کی ضرورت محسوس ہوئی جہاں دھوپ، بارش ، سردیوں غیرہ سے بچا جا سکے تو مکان وجود میں آئے۔

ان بنیادی ضروریات کے بعد انسان کی مزید تعمیری صلاحیتیں سامنے آئیں اور کہا جاتا ہے کہ  پہلی ایجاد پہیے کی تھی جو آگے چل کر جانوروں کے ذریعے کھینچے جانے والی گاڑی بھاپ کا انجن اور پھر بلٹ ٹرینوں تک پہنچی۔ پتھر پھینکنے والی منجنیق آگے چل کر بارودی توپ اور بعد ازاں بر اعظمی میزائل بن گئی، لکڑی کی کشتیوں نے کروز اور بحری بیڑوں کا روپ دھارلیا۔

وہ چھوٹی سی مخلوق جسے خالق نے دنیا میں اپنا نائب بنا کر اتارا،اس نے کائنات کو  مسخر کر کے اپنے انتخاب کا حق واقعی ادا کر کے دکھا دیا ۔ دنیا کو اپنی مٹھی میں سمٹ جانے والے آلات میں بند کردیا۔

چلیے  تو پھر چلتے ہیں ابتدا کی طرف، انسان کو پیٹ بھر کھانے کی، کپڑے کی اور ایک ایسے ٹھکا نے کی ضرورت ہے جہاں وہ محفوظ رہے اور یہ سب مل جانے کے بعد وہ آگے کی سوچتا ہے کہ  اب کیا کروں۔ اور فرض کریں کہ  دنیا میں بھوک ہوتی پر کھانہ کبھی ملتا اور کبھی نہ ملتا یا ملتا تو اتنی مشکل سے کہ انسان اسی کے حصول میں اپنی تمام تر صلاحیتیں لگا دیتا اور مزید تعمیری کام کھٹائی میں پڑ جاتے۔ تو ثابت ہوا کہ تعمیری ذہن بھی اس وقت پوری صلاحیت سے کام کرنے کے قابل ہوتا ہے جب آپ اسکو بنیادی ضروریات کے حصول کی کشمکش سے مکمل نہیں تو کچھ حد تک آزاد کر دیتے ہیں۔

دنیا کے ہر ہر خطے میں جہاں انسان بستا ہے سب سے پہلے گھر ہی بناتا ہے اور گھر میں ضرورت و آسائش کی تمام سہولیات و اشیا بھی جمع کر رکھتا ہے۔ یہ انسان کی نفسیات میں  موجود ہے جو بغیر کسی خطے و نسل کے فرق کے ساتھ موجود ہے۔

ہم تاریخی طور پر دیکھیں تو پرانے زمانے سے انسانی بستیاں دریاؤں کے کنارے بنائی  جاتی تھیں کہ پانی منجملہ غذائی  ضروریات کی بنیاد ہے۔ دریائے سندھ ہو  یا  نیل ‘آپکو قدیم ترین تہذیب یہیں ملے گی نا کہ  خشک جگہوں پر۔ اور اگر کہیں ملے بھی تو دریا کے راستہ بدل دینے سے  آبادی کی نقل مکانی کے ثبوت بھی مل جائیں گے ۔

ان سب باتوں کو بتانے کی وجہ موجودہ حکومت کا خوبصورت سا اعلان ہے جسمیں   پاکستان میں پچاس لاکھ نئے گھر بنانے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ بیشک بہت بہترین قدم ہے اور اسکی جتنی بھی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے۔

اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ  اب تک کے تعمیر شدہ شیروں کو دیکھیے ۔ کراچی ہی کی آبادیوں پر نظر ڈالیں ۔ آپ کو یہ شہر زمین پر نہیں آسمان کی جانب پھیلتا ملے گا ۔ 120 گز پر جہاں ایک فیملی رہتی تھی اب پورشن بنا کر کم از کم سات فیملیوں کی رہائش کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ نہ پانی و سیوریج کا نظام ، اور نہ ہی سڑکیں و پارکنگ اس  آبادی کے سمندر کی ضروریات کے مطابق ہیں ۔  اور نہ ہی بلڈنگ کنٹرول کا ادارہ ، پرائس کنٹرول، یا اور اداروں کی طرح صرف کرسیاں توڑ کر یا حاضری لگا کر تنخواہ و رشوت سے مطلب رکھتے ہیں۔

گلستان جوہر اور سرجانی کے علاقے جو ہمارے سامنے ہی ڈویلپ ہوئے کا ایک چکر لگا لیں ۔ پلاننگ کی ساری قلعی کھل کے سامنے آ جائے گی ۔ وہاں کی سڑکیں، گلیاں، پانی کی لائنز، سیوریج سسٹم ، صفائی  پر ایک نظر ڈالیں اور پھر دیکھیں کہ ہم اس قابل ہیں  یا نہیں کہ  بستیاں بسا سکیں  ۔ چلیں پرانا شہر تو بغیر ماسٹر پلان کے بنا تھا پر نیا تو آپ نے خود بسایا پر افسوس آپ بچوں کے کھیلنے کو پارک تک صحیح طرح فراہم نہ کرسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے یہ فکر نہیں کہ پچاس لاکھ گھر کیسے بنیں گے یا بنیں گے بھی کہ  نہیں ۔ نہ ہی یہ کہ فنڈ کہاں سے آئے گا، یہ حقیقت ہے یاسراب ، صرف ایک نعرہ تو نہیں ۔ ان سب سے قطع نظر یہ پراجیکٹ کمپلیٹ ہو اور ہماری سابقہ نااہلی و سستی و کرپشن کی بدولت وہی تصویر پیش کرے جو کہ ہماری پرانی بستیوں کا خاصہ ہے۔ آپ ایک گندے ڈھابے پر کالی دیواروں کے درمیان بیٹھ کر بھی ڈنر کرسکتے ہیں جہاں پلاسٹک کی چھکیر میں ویٹر روٹی ٹیبل پر پٹخ دیتا ہے اور صاف ٹیبل پر میز پوش پر رکھی کانچ کی پلیٹ میں بھی چھری کانٹے کی مدد سے کھا سکتے ہیں ۔ پیٹ دونوں صورتوں ہی میں بھر جائے گا ۔ اب فیصلہ آپکا ہے کہ آپ کس طرح کھاتے ہیں ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply