انتخابی اصلاحات بل اور مذہبی لوگ۔حصہ اول

لوگ فون کرکے پوچھ رہے ہیں کہ کل سے بار بار آپ کی وال کا چکر لگانے کے باوجود اس ایشو پر آپ کی پوسٹ نظر نہیں آئی۔ بات یہ ہے کہ معاملہ چونکہ بہت سنجیدہ اور نازک تھا، سیاسی وابستگیوں کی اس میں کوئی گنجائش نہیں تھی، اس لیے کچھ عرض کرنے کی بجائےاب تک دونوں طرف کی پوسٹیں اور دیگر کچھ چیزیں بہت غور سے پڑھتا رہا اور سچ مچ یہ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ اثر کہاں مرتب ہوا ہے۔ بہت شرح صدر کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس معاملے میں ہمارے پاکیزہ دینی جذبات کو روایتی طریقے سے استعمال کیا گیا ہے اور ہم بسہولت پورے خلوص کے ساتھ استعمال ہونے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ اب حسب توقع اتنی گرد اڑادی گئی ہے اور ایسا ماحول بنادیا گیا ہے کہ کوئی جماعت یا لیڈر اگر یہ رائے  رکھتا بھی ہو کہ اس بل سے کوئی فرق نہیں پڑا تب بھی وہ یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ ہر چھوٹا بڑا لیڈر خود کو مومن کامل ثابت کرنے کے چکر میں ہے۔ اب تو بظاہر “غلطی” درست کرنے کا ڈرامہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔

جو حوصلے سے سننے کے لیے تیار ہیں ان کے لیے چند گزارشات پیش خدمت ہیں (کسی سے سینگ اڑانے اور متھا لگانے کی فرصت نہیں ہے)۔
(1) اس طرح کے بل اچانک نازل نہیں ہوجاتے، خاص طور پر یہ بل تو سالوں سے تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی میں زیر بحث رہا اور اس پر درجنوں اجلاس ہوئے، قومی اسمبلی میں پیش ہوکر منظور ہوا، سینٹ میں زیر بحث آیا اور بعض دیگر تبدیلیوں کے ساتھ منظور ہوا، دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش ہوکر منظور ہوا، چلو حکومتی جماعتیں تو بد نیتی پر تلی بیٹھی تھیں پی ٹی آئی اور شیخ رشید کو کیوں پتا نہیں چلا اور عطاء اللہ شاہ بخاری کی روح نے شیخ رشید پر نزول فرمانے میں اتنی تاخیر کیوں فرمائی اور وہ اس موقع کے انتظار میں کیوں رہے  کہ بل تیاری کے تمام مراحل طے کرلے۔

(2) اگر تو یہ صورت حال ہوتی کہ ایک غلط بل منظور ہونے جا رہا ہے اسے فوری روکنا ہے تو جلد بازی میں شور شرابا کرنے کی تک بنتی تھی یہاں تو یہ صورت حال نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں دو اصولوں کی شدید پامالی ہوئی ایک تو سورہ حجرات کی آیت 6 میں اللہ کا ارشاد کہ “کسی خبر پر ایکشن سے پہلے پوری طرح تحقیق کر لو”۔ جب ایشو کو اتنے جذباتی لیول پر لے جائیں گے تو میرے جیسا طالب علم تو شاید اپنی رائے  کا اظہار کرسکے ۔کسی بھی سطح کا مذہبی لیڈر اسے افورڈ کرہی نہیں سکتا۔ دوسرے سورہ النساء کی آیت 83 جس کے مطابق “شور مچانے کی بجائے معاملہ ذمہ داروں کے سامنے پیش کرنا چاہیے تھا”، لیکن پھر وہی بات کہ پیشگی ایسا ماحول بننے کے بعد مذہبی دینی قیادت کے پاس “غلطی” کی تصحیح کا ڈرامہ  کرنے کے علاوہ کوئی آپشن بچا ہی نہیں ہے۔

(3) جیساکہ عرض کیا کل سے بہت غور کے ساتھ اور پوری دیانت داری کے ساتھ ہر طرح کی سیاست سے بالا تر ہو کر چیزوں کو دیکھنے کے بعد پورے وثوق کے ساتھ عرض کرسکتا ہوں کہ اب تک سامنے آنے والے اعتراضات کی روشنی میں موجودہ ترمیم کے بعد ختم نبوت کے مسئلے پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا۔ کوئی ایسی چیز جس سے قادیانیوں کو روکنا شرعاً  مطلوب ہو اور پہلے قانون میں اس پر کوئی رکاوٹ موجود ہو اور اب وہ رکاوٹ ختم ہوگئی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ باقی بات کو الجھانا ہی ہو تو لفظوں اور جملوں کے بے تحاشا خزانے موجود ہیں۔

(4) جس طرح قرآن کو زمین پر پٹخ دینا اس کی توہین ہے اسی طرح کسی کے ساتھ لڑائی میں قرآن کا نسخہ کسی کے سر پر دے مارنا بھی اس کی توہین ہے۔ ختم نبوت کا مسئلہ بھی مقدس ہے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کہیں اس مسئلے کی کسی کے سر دے مارنےوالی توہین تو نہیں ہوئی اور ہم نادانی میں اس کا حصہ تو نہیں بن گئے۔ یہ توہین ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور کن کن “با برکت” ہاتھوں ہوتی رہی ہے اس کی تفصیل الگ موضوع ہے۔ اپنے عقیدے پر پہرے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ دنیا کو ہم باور کرادیں کہ ہمارا عقیدہ ہمارے جذبات ہمارا اثاثہ ہیں کسی کے استعمال کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے )

Facebook Comments

مفتی محمد زاہد
محترم مفتی محمد زاہد معروف عالم دین اور جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتم ہیں۔ آپ جدید و قدیم کا حسین امتزاج اور استاد الاساتذہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply