مجھے یاد ہے۔۔(قسط نمبر 10)۔۔۔۔حامدیزدانی

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
( 10   قسط )

قائم نقوی صاحب کی ادارت میں ماہنامہ ’’ماہِ نو‘‘ میں گوشہءِ یزدانی جالندھری شائع ہوا ہے جس میں والد صاحب کی تصاویر بھی شامل ہیں اور ان کی نعتیں اور غزلیں بھی۔ اس گوشہ میں میرزا ادیب، عارف عبدالمتین، حفیظ تائب، جعفر بلوچ، سعادت سعید اور قائم نقوی کے مضامین بھی شامل ہیں۔یہ مضامین قائم  نقوی صاحب نے والد صاحب کے ساتھ منعقدہ ادبی شام کے موقع پر لکھاریوں سے جمع کیے تھے۔

٭٭٭

خالد احمد صاحب روزنامہ’’ امروز‘‘ کے ادبی صفحہ کے لیے والد صاحب کا انٹرویو کرنے آئے ہوئے ہیں۔ میں  چائے لیے کمرے میں داخل ہوتا ہوں۔ دروازے کا پردہ ہٹتے ہی کمرے میں قید  سگریٹوں کا دھواں تیزی سے فرار ہونے لگتا ہے۔ اس انٹرویو پر والدصاحب کو آمادہ کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ طے کرنا تھا جوبالآخر طے ہوگیا۔خالد صاحب چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے میری طرف دیکھتے ہیں اور نوٹس لینے کا اشارہ کرتے ہیں۔ میں کاغذقلم تھامے مستعدی سے کونے والی کرسی پر بیٹھا ہوں۔خالد صاحب گفتگو کا آغاز والد صاحب کے ادبی سفر کے آغاز،اُن دنوں کی ادبی فضا،شاعری کے لوازمات کے بارے میں سوالات سے کرتے ہیں۔پھر پوچھتے ہیں ’’ اردو کے کن کن اساتذہ نے آپ کا متاثر کیا؟

والد صاحب جواب میں فرماتے ہیں:”متقدمین میں سے میر،مصحفی اور غالب نے اور متاخرین میں سے حسرت موہانی،اصغر گونڈوی،سیماب, جگر اور اقبال نے متاثر کیا۔‘‘خالد صاحب پوچھتے ہیں: ’’اور ہم۔ عصر شعرا میں سے؟تو والد صاحب کا جواب ہے: ’’ اختر شیرانی،عدم،دانش،ساحر،مجاز، جاں نثار اختر اور فیض نے۔مخدوم محی الدین کا نام بھی شامل کیا جا سکتا ہے مگر ان کی شاعری ان کی سیاست میں دب گئی۔”اب خالد صاحب شاعری کی چھاپ اور شعری آہنگ پر سوال پوچھتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا سوال والد صاحب کے اساتذہ کے بارے میں ہے۔ والد صاحب جواباً کہتے ہیں:

”انیس سو تینتیس میں سلسلہِ مصحفی کے ایک نام ور استاد مولانا افسر صدیقی امروہو ی کے حلقہِ تلمذ میں داخل ہوا جو اُن دنوں انجمنِ ترقیِ اردو سندھ کےروح و رواں تھے۔انیس سو چھتیس میں انھوں نے مجھے فارغِ اصلاح قرار دےدیا۔ اس کے بعد انیس سو سینتیس میں مولانا تاجور نجیب آبادی کے ادبی جریدہ ’’شاہکار‘‘ کی ادارت سے منسلک ہوا تو جب کوئی چیز کہتا انھیں دکھا لیتا۔ یہ سلسلہ انیس سو پینتالیس تک جاری رہا۔‘‘خالد صاحب کا اگلا سوال: ’’ پہلی تخلیق کب اور کہاں شائع ہوئی؟‘‘والد صاحب بتاتے ہیں: ’’ پہلی غزل مولانا افقر موہانی کے رسالہ ’’جہاں نُما‘‘ لکھنو میں انیس سو چونتیس میں شائع ہوئی جس کا مطلع تھا:

بہار آئی ہے پھر اہلِ نوا ہیں جمع گلشن میں

جو تُو کہہ دے تو گُل چیں ہم بھی عُرسِ آشیاں کر لیں

اور نظم ’’افسانہِ دوراں‘‘ ’’ادبِ لطیف‘‘ کے افسانہ   نمبر میں انیس سو سینتیس میں چھپی تھی۔یہ نظم قلعہِ لاہور کو دیکھ کر لکھی گئی تھی۔‘‘

اب خالد صاحب  تصانیف و تالیفات کے بارے میں استفسار کرتے ہیں۔ والد صاحب کہتے ہیں:

“میرا پہلا شعری مجموعہ ’’ساغرِ انقلاب‘‘ جو سیاسی اور قومی رباعیات پر مشتمل تھا انیس سو اڑتیس میں شائع ہوا۔ نثری تالیفات میں ’’قیدی کے خطوط‘‘ اور ’’حُسن پرست اور دوسرے افسانے‘‘ جنگِ عظیم دوم کے زمانے میں شائع ہوئیں۔ان کے علاوہ ناولوں اور افسانوں کے تراجم بھی اسی عرصہ یعنی انیس سو انتالیس سے پینتالیس کے درمیان شائع ہوئے جن میں ’’ٹالسٹائی کی کہانیاں‘‘، شرت چندر چیٹر جی کا ’’ اتیاچاراور دوسر افسانے‘‘، ٹیگور کے افسانے‘‘،ان کے ناول ’’چوکھیربالی‘‘ کا ترجمہ، ان کے ایک ناولٹ اک ترجمہ ’’الجھن‘‘ کےنام سے،ٹالسٹائی کی کہانیاں اور افسانے اور ان کے ایک ناولٹ کا ترجمہ ’’گناہِ غربت‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔

شرت چندر چیٹر جی کے ناولوں کے تراجم بھی میرے حصے میں آئے جن میں ’’دیوداس‘‘۔ ’’آوارہ‘‘،’’ منزل‘‘، ’’دیہاتی سماج‘‘، ’’بڑی دیدی‘‘اور ’’چھٹکارا‘‘ شامل ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اب تک ایک نعتیہ مثنوی ’’صبحِ سعادت‘‘ کتابی صورت میں شائع ہوئی ہے۔‘‘

اب خالداحمد صاحب ادبی دوستوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

والد صاحب کا جواب: ’’میرے ابتدائی دوستوں میں احسان دانش، عبدالحمید عدم ، ضمیر جعفری اور میرزا ادیب کے نام شامل ہیں۔بعد میں خاطر غزنوی،آغا شورش کاشمیری، سی۔ایل کاوش،سید الطاف مشہدی،جگن ناتھ آزاد،مجید لاہوری اور ساحر لدھیانوی بھی اس حلقہ میں شامل ہوگئے۔ شورش، کاوش اور ساحر کے ساتھ اکثر محفلیں جمتی تھیں۔ جب کبھی سیف الدین سیف بھی امرتسر سے ملنے آجاتے تو  ’’اداکار‘‘ کے دفتر کے نیچے واقع مولا داد کے چائے خانے میں رات گئے تک محفل گرم رہتی۔

ابنِ انشا سے میری تعارفی ملاقات ساحر کی وساطت سے ہوئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ شیر محمد قیصر سے نئے نئے ابنِ انشا بنے تھے اور پھر یہ تعارفی ملاقات  دوستی میں تبدیل ہو گئی۔یہاں ایک بات ذکر کردوں اسرارالحق مجاز، جاں نثار اختر، بنّے بھائی یعنی سجاد ظہیر،مجروح سلطان پوری،عصمت چغتائی،علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی سے  میری ملاقاتوں کا ذریعہ انجمنِ ترقی پسند مصنفین بمبئی کے اجلاس تھے۔‘‘

خالد احمد ان دنوں اور لوگوں کے ذکر سے خوب مسحور دکھائی دیتے ہیں۔ پوچھتے ہیں:

“یزدانی صاحب،زمانہَ طالب علمی میں آپ  کی آئیڈیل کیا کوئی مسلمان شخصیت بھی رہی؟‘‘

والد صاحب صوفے پر تقریباً نیم دراز ہوتے ہوئے فرماتے ہیں:

“جی ہاں، مولانا ظفر علی خان میرے آئیڈیل تھے۔وہ ایک بے باک صحافی اور دبنگ شاعر تھے۔اسلامیہ کالج لاہور میں ہمارے اردو اور فارسی کے استاد مولانا علم الدین سالک کہا کرتے تھے کہ بی۔ اے میں اردو کا مضمون پاس کرنے کے لیے مولانا ظفر علی خاں کا اداریہ پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ اس کے بعد کسی نصابی کتاب کے مطالعے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ پھر ہم نے مولانا ظفر علی خاں کو سٹیج پر سیاسی تقریریں کرتے بھی دیکھا اور سنا لیکن اُن سے بالمشافہ ملاقات کا واقعہ مجھے آج بھی یاد ہے۔‘‘

خالد صاحب اس واقعہ کی تفصیلات جاننے کے بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ والد صاحب بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں:

“آغا شورش کاشمیری کی شادی سے چند روز قبل فیصلہ ہوا کہ مولانا ظفر علی خاں کو بھی شادی میں شمولیت اور برات کے ساتھ چلنے کی دعوت دی جائے۔ چناں چہ میں، شورش، ساحر، رام پرکاش اشک، اور کاوش سرحدی میکلوڈ روڈ پر واقع ’’ زمیندار‘‘ کے دفتر پہنچے۔مولانا برآمدے میں آرام کرسی پر نِیم دراز حقّہ گڑگڑارہے تھے۔ شادی میں شرکت سے تو انھوں نے کسی مجبوری کے باعث معذرت کی جس پر شورش نے سہرے کے چند اشعار کے لیے اصرار کیا۔ مولانا نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور پھر کہا:

اچھا، لکھو۔ہم نے دیکھا کہ مولانا حقے کا ایک کش لگاتے اور ایک مصرعہ ارشاد کردیتے۔چناں چہ چند لمحوں میں ایک مصرعہ ’فی کش‘ کے حساب سے یہ قطعہ کہہ دیا:

گجر دم لے لے ہاتف یہ نویدِجاں فزا، آیا

کہ انبالے سے شورش ایک پھندنا سی دلہن لایا

مِرے دل سے دعا نکلی کہ ان دونوں کے سر پر ہو

نبیؐ کی رحمتوں کا اور خدا کے فضل کا سایا

خالد صاحب کا اشتیاق اب اور بھی بڑھ گیا ہے۔ وہ مزید پوچھتے ہیں کہ کیا اس دور میں اور بھی کسی عظیم ہستی سے ملاقات ہوئی جیسے علامہ اقبال۔ تو والد صاحب چائے کا کپ میز پر رکھ کر سگریٹ کا یاک لمبا کش کھینچتے ہوئے اور آنکھیں موندتے ہوئے کچھ یادکرتے ہیں۔پھر کہتے ہیں:

“ہم ایک مشاعرہ کی صدارت کی دعوت دینے علامہ اقبال کی خدمت میں جاوید منزل حاضر ہوئے۔ میرے ساتھ میرے دو دوست سید نذیر ترمذی اور منصور صدیقی بھی تھے۔حضرتِ اقبال ان دنوں گلے کی شدید تکلیف میں مبتلا تھے لیکن انھوں نے ہمیں اندر بلا لیا۔صدارت کی تجویز پر انھوں نے معذرت کی اور ہمیں بھی مشورہ دیا کہ ہمیں مشاعروں کے انعقاد کی جگہ کسی ٹھوس عملی کام میں شرکت کرنا چاہیئے۔یہی باتیں اور یادیں میری زندگی کا سرما یہ   ہیں۔‘‘

خالد صاحب بولے: ’’اچھا، کوئی ہلکا پھلکا دل چسپ ادبی  واقعہ جو آپ کو یاد آرہا ہو؟‘‘

والد صاحب مسکراتے ہوئے اپنی یادوں کی بیاض  میں سے ایک واقعہ سنانا شروع  کرتے ہیں:

“یہ بات دوسری جنگِ عظیم کے دنوں کی ہے۔ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں جنگی پراپیگنڈے کے سلسلے میں مشاعرے منعقد کیے جارہے تھے۔ رُوس کے اتحادیوں کے  ساتھ مل جانے کے باعث  ترقی پسند مصنفین بھی ان مشاعروں میں حصہ لینے لگے تھے۔چناں چہ مجھے اور ساحر کو بھی دلّی اور امرتسر کے مشاعروں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ امرتسر کے مشاعرہ میں یہ ہوا کہ شعرا کو ایک بڑے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔کمرے کم پڑگئے تو لان میں خیمے لگا کربہت سے شعراء کو ان میں ٹھہرا دیا گیا۔ مشاعرہ شام کو ایک مقامی سنیما ہال میں منعقد ہونا تھا۔مشاعرہ گاہ پہنچنے کے لیےجوش، ساغر نظامی اور دوسرے شعراء بھی ہوٹل لاؤنج میں اکٹھا ہوئے۔اب صرف جگر صاحب کا انتظار تھا جو اپنے کمرے میں نمازِ مغرب ادا کررہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جب جگر صاحب نمودار ہوئے تو انھیں دیکھ کر ان کے بے تکلف دوست جوش کی رگِ طنزو ظرافت پھڑکی اور انھوں نے جگر صاحب جن  کی جلد کی رنگت  سیاہی مائل تھی ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :

“جب سے تم نے شراب چھوڑ کر نماز شروع  کی ہے، چہرے پر گھٹا ٹوپ سیاہی چھا گئی ہے۔‘‘

جگر صاحب نے جھٹ کہا:”میرا تو چہرا ہی سیاہ ہوا ہے تمھاری طرح دل نہیں۔‘‘

اس پر ہوٹل لاؤنج میں جو قہقہہ بلند ہوا اس کی محبت بھری گونج اب تک سنائی دیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خالد احمد بھی  کھلکھلا کرہنس رہے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply