ترک مصنفہ بنام Elif shafak کا ناول Forty Rules of Love ہے۔۔جس میں مولانا روم اور شمس تبریزی کی ملاقات اور دونوں شخصیات پر اسکے اثرات کو عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ چالیس اصول دراصل شمس تبریزی کے اقوال ہیں سارے کے سارے اصول ان دونوں ہستیوں کے باہمی مکالمے پر مشتمل نہیں ہیں۔۔۔ناول نگار نے اقوال کو ناول کے بعض دوسرے کرداروں کے ساتھ بھی شمس تبریز کی ہونے والی گفتگو میں پرویا ہے (ترجمہ محمود احمد غزنوی )
1- ہم خدا کے بارے میں جو گمان رکھتے ہیں، وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہمارے گمان کا ایک عکس ہوتا ہے۔اگر خدا کے ذکر سے ذہن میں محض الزام اور خوف ہی ابھرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوف اور الزام تراشی ہمارے اپنے سینے کی گھٹن میں پنپ رہی ہے۔ اور اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے، تو یقیناّ ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔
2- سچائی کا راستہ دراصل دل کا راستہ ہے دماغ کا نہیں۔ اپنے دل کو اپنا اولین مرشد بناؤ، عقل کو نہیں۔ اپنے نفس کا سامنا اور مقابلہ کرنے کیلئے دل کی مدد لو کیونکہ تمہاری روح پر ہی خدا کی معرفت کا نزول ہوتا ہے۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے
عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں، بتکدہِ تصورات
3- قرآن پڑھنے والا ہر شخص، قرآن کو اپنے فہم و ادراک کی گہرائی کے مطابق ہی سمجھ پاتا ہے۔ قرآن کی فہم کے چار درجات ہیں۔ پہلا درجہ ظاہری معانی ہیں اور زیادہ تر اکثریت اسی پر قناعت کئے ہوئے ہے۔ دوسرا درجہ باطنی معانی کا ہے۔ تیسرا درجہ ان باطنی معنوں کا بطن ہے۔ اور چوتھا درجہ اس قدر عمیق معنوں کا حامل ہے کہ زبان انکے بیان پر قادر نہیں ہوسکتی چنانچہ یہ ناقابلِ بیان ہیں۔ علما و فقہاء جو شریعت کے احکامات پر غوروخوض کرتے رہتے ہیں، یہ پہلے درجے پر ہیں۔ دوسرا درجہ صوفیہ کا ہے، تیسرا درجہ اولیاء کا ہے۔ چوتھا درجہ صرف انبیاء مرسلین اور انکے ربانی وارثین کا ہے۔ پس تم کسی انسان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس تعلق کی نوعیت کو اپنے قیاس سے جاننے کی فکر نہ کیا کرو۔ ہر شخص کا اپنا اپنا راستہ ہے اور اظہارِ بندگی کی ایک اپنی نوعیت ہے۔ خدا بھی ہمارے الفاظ و اعمال کو نہیں بلکہ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ یہ مذہبی رسوم و رواج بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں۔ اصل چیز تو دل کی پاکیزگی ہے۔
4- تم کائنات کی ہر شئے اور ہرشخص میں خدا کی نشانیاں دیکھ سکتے ہو کیونکہ خدا صرف کسی مسجد، مندر یا کسی گرجے اور صومعے تک محدود نہیں ہے۔ لیکن اگر پھر بھی تمہاری تسلی نہ ہو تو خدا کو کسی عاشقِ صادق کے دل میں ڈھونڈھو۔
5- عقل اور دل، دو مختلف چیزیں ہیں۔ عقل لوگوں کو کسی نہ کسی بندھن میں جکڑتی ہے اور کسی چیز کو داؤ پر نہیں لگاتی، لیکن دل ہر بندھن سے آزاد ہوکر اپنا آپ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ عقل ہمیشہ محتاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے کہ دیکھو کسی کیفیت کا زیادہ اثر مت لینا۔ لیکن دل کہتا ہے کہ مت گھبراؤ، ہمت کرو اور ڈوب جاؤ کیفیت میں۔ عقل آسانی سے اپنا آپ فراموش نہیں کرتی جبکہ عشق تو بکھرجانے اور فنا ہوجانے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ اور خزانے بھی تو ویرانوں میں ملبے تلے ملتے ہیں۔ ایک شکستہ دل میں ہی تو خزانہ مدفون ہوتا ہے۔
6- دنیا کے زیادہ تر مسائل الفاظ اور زبان کی کوتاہیوں اور غلط معانی اخذ کرنے سے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ کبھی بھی الفاظ کی ظاہری سطح تک خود کو محدود مت کرو۔ جب محبت اور عشق کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو الفاظ بیان اور زبان و اظہار اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ جو کسی لفظ سے بیان نہ ہوسکے، اسکو صرف خاموشی سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
7- تنہائی اور خلوت ، دو مختلف چیزیں ہیں۔ جب ہم تنہا اور اکیلے ہوتے ہیں تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجانا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ ہم سیدھے رستے پر ہیں۔ لیکن خلوت یہی ہے کہ آدمی تنہا ہوتے ہوئے بھی تنہا نہ ہو۔ بہتر ہے کہ ہماری تنہائی کسی ایسے شخص کے دم قدم سے آباد ہو جو ہمارے لئے ایک بہترین آئینے کی حیثیت رکھتا ہو۔ یاد رکھو کہ صرف کسی دوسرے انسان کے دل میں ہی تم اپنا درست عکس دیکھ سکتے ہو اور تمہاری شخصیت میں خدا کے جس مخصوص جلوے کا ظہور ہورہا ہے، وہ صرف کسی دوسرے انسان کے آئینہِ قلب میں تمہیں دکھائی دے گا۔
8- زندگی میں کچھ بھی ہوجائے، زندگی کتنی ہی دشوار کیوں نہ لگنے لگے، مایوس کبھی مت ہونا۔ یقین رکھو کہ جب ہر دروازہ بند ہوجائے تب بھی خداوندِ کریم اپنے بندے کیلئے کوئی نہ کوئی نئی راہ ضرور کھول دیتا ہے۔ ہر حال میں شُکر کرو۔ جب سب کچھ اچھا جارہا ہو، اس وقت شکر کرنا بہت آسان ہے لیکن ایک صوفی نہ صرف ان باتوں پر شکر گذار ہوتا ہے جن میں اسکے ساتھ عطا اور بخشش کا معاملہ گذرے، بلکہ ان تمام باتوں پر بھی شکر ادا کرتا ہے جن سے اسے محروم رکھا گیا۔ عطا ہو یا منع، ہر حال میں شُکر۔
9- صبر اس بات کانام نہیں ہے کہ انسان عضوِ معطل ہوکر بے بسی کے ہاتھوں برداشت کے عمل سے گذرتا رہے۔ بلکہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اتنا دور اندیش اور وسیع نگاہ کا حامل ہو کہ معاملات کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے رب پر بھروسہ رکھے۔ صبر کیا ہے؟ صبر یہ ہے کہ جب تم کانٹے کو دیکھو تو تمہیں پھول بھی دکھائی دے۔ جب رات کے گُھپ اندھیرے پر نظر پڑے تو اس میں صبحِ صادق کا اجالا بھی دکھائی دے۔ بے صبری یہ ہے کہ انسان اتنا کوتاہ بین اور کم نظر ہو کہ معاملے کے انجام پر نظر ڈالنے سے قاصر رہ جائے۔ عاشقانِ الٰہی صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلی کے باریک چاند کو ماہِ کامل میں تبدیل ہونے کیلئے کچھ وقت ضرور گذارنا پڑتا ہے۔
10- مشرق، مغرب، شمال ، جنوب۔۔۔ان سب سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تمہارے سفر کی سمت کوئی بھی ہو، بس یہ دھیان ضرور رہے کہ ہر سفر، ذات کا داخلی سفر ضرور بنے۔ اگر تم اپنی ذات کے اندرون میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک کا باطنی سفر کرو تو تمہارے ساتھ یہ پوری کائنات اور جو کچھ اس سے ماوراء ہے، وہ بھی شریکِ سفر ہوجاتے ہیں۔
11- جس طرح ایک ماں کو بچے کی پیدائش کیلئے درد و کرب کے مرحلے سے گذرنا پڑتا ہے، اسی طرح ایک نئی شخصیت کو جنم دینے کیلئے تکالیف سے ضرور اٹھانی پڑتی ہیں۔ جس طرح ایک دن کو اپنی روشنی پوری شدت کے ساتھ بکھیرنے کیلئے، شدیدگرمی اور حدت برداشت کرنی پڑتی ہے، اسی طرح محبت بھی دکھ اور درد کے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔
12- محبت کی تلاش ہمیں تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے۔ راہِ عشق میں ایسا کوئی مسافر نہیں گذرا جسے اس راہ نے کچھ نہ کچھ پختگی نہ عطا کی ہو۔ جس لمحے تم محبت کی تلاش کا سفر شروع کرتے ہو، تمہارا ظاہر اور باطن تبدیلی کے عمل سے گذرنا شروع ہوجاتا ہے۔
13- آسمان پر شائد اتنے ستارے نہ ہوں جتنے دنیا میں جھوٹے اور ناقص شیوخ پائے جاتے ہیں۔ تم کبھی بھی کسی سچے مرشد کو کسی ایسے مرشد سے مت ملانا جو نفس کا پجاری ہو اور اپنی ذات کا اسیر ہو۔ ایک سچا مرشد کبھی بھی تمہیں اپنی ذات کا اسیر بنانے کی کوشش نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے نفس کیلئے تم سے تابعداری اور تعریف و تو صیف کا تقاضا کرے گا۔ بلکہ اسکے برعکس وہ تمہیں تمہاری اصل اور حقیقی شخصیت سے متارف کروائے گا۔ سچے اور کامل مرشد تو کسی شیشے کی مانند شفا ف ہوتے ہیں تاکہ خدا کا نور ان میں سے کامل طور پر چِھن کر تم تک پہنچ سکے۔
14- زندگی میں جو بھی تبدیلی تمہارے راستے میں آئے، اسکے استقبال کیلئے تیار رہو، اسکی مزاحمت مت کرو بلکہ زندگی کو اس بات کا موقع دو کہ تم میں سے گذر کر اپنا راستہ بناسکے۔ اس بات کی فکر مت کرو کہ زندگی میں نشیب و فراز آرہے ہیں۔ تمہیں کیا پتہ کہ آنے والی تبدیلی تمہارے حق میں بہتر ہے یا موجودہ حالت؟
15- ہر انسان ایک تشنہءِ تکمیل فن پارہ ہے۔جسکی تکمیل کیلئے خدا ہر انسان کے ساتھ داخلی اور خارجی طور پر مصروفِ کار ہے ۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ خدا ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ انفرادی سطح پر معاملہ کرتا ہے کیونکہ انسانیت ایک بیحد لطیف اور نفیس مصوری کا شہکار ہے جس پر ثبت کیا جانے والا ہر ایک نقطہ پوری تصویر کیلئے یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
16- ایک بلند و برتر ذات اور ہر طرح کے نقص سے پاک خدا سے محبت کرنا بظاہر تو آسان سی بات معلوم ہوتی ہے۔، لیکن اس سے کہیں زیادہ مشکل بات یہ ہے کہ انسان اپنے ابنائے جنس سے محبت کرے جن میں ہر طرح کی کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔ یاد رکھو کہ انسان اسی کو جان سکتا ہے جس سے وہ محبت کرنے پر قادر ہو۔ محبت کے بغیر کوئی معرفت معرفت نہیں ہوتی۔ جب تک ہم اللہ کی تخلیق سے محبت کرنا نہیں سیکھتے، تب تک ہم اس قابل نہیں ہوسکتے کہ اللہ سے حقیقی طور پر محبت کرسکیں اور اسکو جان پائیں۔
17- اصل ناپاکی تو اندر کی ناپاکی ہے۔ باقی سب تو آسانی سے دُھل جاتا ہے۔ گرد و غبار کی بس ایک ہی قسم ہے جو پاکیزہ پانی سے صاف نہیں ہوپاتی، اور وہ ہے نفرت اور تعصب کے دھبے، جو روح کو آلودہ کردیتے ہیں۔ تم ترکِ دنیا سے اور روزے رکھنے سے اپنے بدن کا تزکیہ تو حاصل کرسکتے ہو، لیکن قلب کا تزکیہ صرف محبت سے ہی ہوگا۔
18- پوری کی پوری کائنات ایک انسان کے اندر موجود ہے۔ تم اور تمہارے ارد گرد جو کچھ تمہیں دکھائی دیتا ہے، تمام چیزیں خواہ تمہیں پسند ہوں یا ناپسن، تمام لوگ خواہ تم ان کیلئےرغبت رمحسوس کرتے ہو یا کراہت، یہ سب کے سب تمہارے اپنے اندر کسی نہ کسی درجے میں ملیں گے۔ چنانچہ، شیطان کو باہر مت دیکھو، بلکہ اپنے اندر تلاش کرو۔ شیطان کو ئی ایسی غیر معمولی قوت نہیں جو تم پر باہر سے حملہ آور ہوتی ہے ، بلکہ تمہارے اندر سے ابھرنے والی ایک معمولی سی آواز کا نام ہے۔ اگر تم پوری محنت اور دیانت سے کبھی اپنی ذات کے روشن اور تاریک گوشوں کو دیکھنے کے قابل ہوجاؤ تو تم پر ایک عظیم اور برتر شعور کا دریچہ کھلے گا۔ جب کوئی شخص اپنے آپ کو جان لیتا ہے تو وہ اپنے رب کو بھی جان لیتا ہے۔
19- اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ اپنے برتاؤ کو اور رویے کو تبدیل کردیں، تو اسکے لئے پہلے تمہیں اس رویے کو تبدیل کرنا ہوگا جو تم اپنے آپ کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہو۔ جب تک تم اپنے آپ سے پورے خلوص سے اور پوری طرح محبت کرنا نہیں سیکھتے، بہت مشکل ہے کہ تمہیں محبت نصیب ہو۔ اورجب یہ مرتبہ حاصل ہوجائے تو پھر ہر اُس کانٹے کیلئے بھی شکر گذار رہو جو تمہارے راستے میں پھینکا جائے۔ کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ تم پر عنقریب پھول بھی نچھاور ہونگے۔
20- اس بات پر پریشان مت ہو کہ راستہ کہاں لیکر جائے گا، بلکہ اپنی توجہ اپنے پہلے قدم پر رکھو۔ یہی تمہاری زمہ داری ہے اور یہی سب سےمشکل کام ہے۔ جب پہلا قدم اٹھالیا، تو پھر اسکے بعد ہر شئے کو اپنے قدرتی انداز میں کام کرنے دو اور تم دیکھو گے کہ راستہ خودبخود کھلتا جائے گا۔ بہاؤ کے ساتھ مت بہو، بلکہ خود ایک لہر بن جاؤ جسکا اپنا ایک بہاؤ ہوتا ہے۔
بشکریہ فیس بک
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں