ہم میں سے اکثر نے فرانز کافکا کا نام تو یقیناً سن رکھا ہے اور بیشتر نے انکا کام بھی پڑھا ہو گا، آپ 3 جولائی 1883 کو پیراگوئے میں پیدا ہوئے اور محض 39 سال کی عمر میں 3 جون 1924 کو کیرلنگ میں انتقال کر گئے، آپ ناول اور شارٹ سٹوری کی دنیا میں ایک دیو قامت شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، آپ کا کام ناول کے بے تاج بادشاہ دوستو وسکی اور دی گریٹ فڈریک نطشے سے متاثر ہے، آپکے مشہور فن پاروں میں میٹا مارفوسس، دی ٹرائل، امریکا، دی کاسل، انویسٹیگیشن آف اے ڈوگ سمیت درجنوں شاہکار ہیں جن کی گرفت سے آج ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی علمی و ادبی اشرافیہ باہر نہیں نکل سکی۔
دی ٹرائل آپکا ایک مشہور ناول ہے جو کافکا نے 1914 اور 1915 میں لکھا اور 1925 میں اسکی اشاعت کافکا کی موت کے بعد ہوئی، یہ ناول بظاہر دوستو وسکی کے دو ناولز “کرائم اینڈ پنشمنٹ” اور ہمارے استاد خالد سعید کے انتہائی پسندیدہ “برادرز کراما زوف” سے متاثر لگتا ہے، اسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کافکا نے اس کا اختتام نہیں لکھا تھا جو کہ بعد میں عجلت میں لکھا گیا، اس کو کافکا کے ابسرڈ ترین کاموں میں گنا جاتا ہے۔
یہ ایک (جوزف کے) نامی ایسے شخص کی کہانی ہے کہ جو ایک بینک میں ملازم ہے، جس دن سے اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے اس دن اسکی تیسویں سالگرہ ہے (یہ کہانی اسکی تیسویں سالگرہ کے دن سے شروع ہو کر اکتیسویں سالگرہ پر ختم ہو جاتی ہے)…. اس دن اسکو دو لوگ گرفتار کرنے اس کے گھر پہنچتے ہیں کہ جن کی ایجنسی نامعلوم ہے، جس مقدمے میں اسکو گرفتار کیا جاتا ہے اس کے بارے میں نا اسکو معلوم ہے نہ ہی کافکا نے اپنے پڑھنے والے کو اس سے آگاہ کیا ہے، اس مقدمے سے متعلق اس ناول میں کچھ واضح نہیں ہے، اسکو جس بلڈنگ میں پہلی عدالتی پیشی کے لیے بلایا گیا اس کا ایڈریس اور اس عمارت کے کس حصے میں کمرہ عدالت واقع ہے یہ تک اسے معلوم نہیں ہے، لہٰذا اسکو کمرہ عدالت ڈھونڈنے کے لیے بھی جہدوجہد کرنی پرتی ہے، جبکہ دوسری پیشی پر وہی کمرہ عدالت جو کہ پہلی پیشی پر سائلین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ایسے ویران تھا کہ جیسے مدت سے یہاں کسی انسان کا گذر نہیں ہوا، اسکے ایک انکل اس کو شہر کے مشہور ہلڈ نامی ایک وکیل سے ملواتے ہیں ہلڈ صاحبِ فراش ہے، ہلڈ کے گھر میں موجود ایک خوبرو حسینہ سے جوزف کا لزت آمیز معاشقہ شروع ہو جاتا ہے، اور وہ اس وکیل سے زیادہ اس خوبرو کے چکر میں اس کے گھر آنا جانا شروع کر دیتا ہے، لیکن کچھ دن بعد اسکو معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی اس وکیل کا موکل ہے اس کے ساتھ اس خوبرو کا یہی تعلق ہے۔
دی ٹرائل بنیادی طور پر جوڈیشل اور بیوروکریٹک سسٹم پر چوٹ کرتا ہے کہ کس طرح یہ دونوں سسٹم عام آدمی کی انصاف تک رسائی کو مشکل اور نا ممکن بناتے ہیں، یہ بات اسکو ایک مصور بتاتا ہے کہ جو ہے تو مصور لیکن وہ کورٹ کے کچھ معاملات میں شریک رہتا ہے وہ اسکو سمجھاتا ہے کہ مکمل رہائی وہ بھی اس الزام سے جو تمہیں بتایا بھی نہیں گیا ممکن نہیں ہے، کیونکہ آج تک کورٹ نے ایسا فیصلہ کسی کے حق میں نہیں دیا ہاں جو صورت ہے وہ یہ کہ تمہیں آزاد کر دیا جائے جبکہ تم بدستور قید میں رہو اور جب چاہے تمہیں سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکے اگر اس قسم کی کسی صورتحال پر تم راضی ہو تو میں تمہاری مدد کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں۔
یہاں میرا مقصد دی ٹرائل کا ریوو لکھنا نہیں ہے نہ ہی میری علمی استطاعت مجھے اسکی اجازت دیتی ہے، لیکن ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ کافکا کا ناول دی ٹرائل ضرور پڑھے کیونکہ جب آپ دی ٹرائل پڑھیں گے تو آپ کو پاکستان میں موجود ہر شخص (جوزف کے) معلوم ہوگا اور یہ ریاست وہ عدالت کہ جہاں (جوزف کے) کی پیشی لگتی تھی اور ریاستی کارندے وہ دو نامعلوم ایجنسی کے لوگ کہ جنہوں نے اسکو عین اسکی سالگرہ کے دن اس الزام میں گرفتار کیا کہ جس کا ملزم اور الزام لگانے والوں کو خود بھی معلوم نہیں تھا، تو کیا ہم میں سے ننانوے فیصد وہ نہیں ہیں کہ جن کو یہ نہیں معلوم کہ وہ کس کس جرم کی کون کون سی سزا نہیں معلوم کتنے عرصے سے کاٹ رہے ہیں؟؟
نہ انکو انکا جرم بتایا جاتا ہے نہ یہ کہ وہ کون سی جگہ ہے کہ جہاں پیش ہونے کے لیے انہیں ہر وقت تیار رہنا ہے؟؟
نہیں معلوم کے کل جہاں پیش ہوئے تھے وہ جگہ آج موجود بھی ہے یا منہدم ہو چکی؟
یہ بھی معلوم کرنے والی بات ہے کہ کل تک جو عزت مآب تھے، جن کا نام لینا محال تھا کہیں آج گالی تو نہیں بن چکے ؟؟؟
اس ناول میں تیسویں سالگرہ کا تذکرہ ہے، کیا ہی عجب ہے کہ یہ ملک 1947 میں بنا اور جب یہ تیس سال کا ہونے کو تھا تو اس کی سالگرہ سے فقط ایک ماہ نو دن پہلے ایک آدمی نے 5 جولائی 1977 کو اسٌے اغوا کر لیا، (کاش کے جوزف کی طرح اسکی گرفتاری ہی ہوئی ہوتی) اس شخص نے اسکو کبھی ایک لمحے کو آزاد نہ چھوڑا اور گیارہ سال یہ ملک یرغمال رہا، یہاں کے لوگوں کو ناول کے بر عکس اسکی ایجنسی کا نام بھی معلوم تھا لیکن وہ نام زبان پر نہیں آ پاتا تھا، دی ٹرائل ناول اگر آپ پڑھیں تو ایک جگہ پر عدالت کا ایک گارڈین جوزف کو عدالت کا دورہ کراتا ہے اسکو اسکے برآمدے اور کمرے دکھائے جاتے ہیں جن کو دیکھنے کے بعد اسکا سانس گھٹتا ہے اور وہ بیہوش ہونے ہی والا ہوتا ہے کہ اسکو کھلی فضا میں لے جایا جاتا ہے اور یوں وہ بحال ہو جاتا ہے، یہ ملک گیارہ سال حبس بے جا میں رہا ایک مسلسل بیہوشی اس پر طاری رہی لیکن ایک بار بھی اسکو کھلی فضا میں نہیں لے جایا گیا، ہمارا ہر انصاف دینے والا مدتوں سے ہلڈ کی طرح صاحبِ فراش ہے، اور اسکے پہلو میں کھڑی حسینہ ہر سائل کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے، ہماری عدالتوں کے باہر منصفوں کے بیوپاری ریٹ لسٹ لے کر کھڑے ہوئے ہیں، جبکہ منصف ان پر نظر جمائے رکھتے ہیں کہ جس کی طرف وہ اشارہ کریں تو وہ اسکو انصاف دیں ورنہ ہر سائل جوزف کی طرح کمرہ عدالت ہی ڈھونڈتا رہ جاتا ہے، کافکا نے یہ دکھایا کہ کس طرح یہ مقدمہ، یہ ٹرائل جوزف کی ساری توانائیاں کھا گیا، وہ کتنا مفلوج ہو چکا تھا، اسکی سوچنے سمجھنے کی کلٌ صلاحیت صرف اس ایک ٹرائل پر مرکوز تھی، نہ وہ کچھ اور سوچ پاتا ہے نہ ہی سمجھ، ایک منٹ کو غور کیجیے کیا ہم میں سے ہر ایک اسی کیفیت کا شکار نہیں ہے؟؟ ہم میں سے ایسے کتنے ہیں کہ جو یہ سمجھ پا رہے ہیں کہ دراصل انکو مسئلہ کیا درپیش ہے ؟؟ کیا ہم میں سے ہر ایک کھویا ہوا نہیں ہے جیسے جون بھائی نے کہا تھا
تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
کیا ہم میں سے اکثر یہی نہیں سوچتے رہتے کہ اگر یہ موجودہ درپیش مسئلہ حل ہو گیا تو زندگی آسان ہو جائے گی لیکن اس مسئلے کے حل ہو جانے کے بعد بھی ہم خوش تو دور مطمئن تک نہیں ہو پاتے؟؟ کیا ہم میں سے ہر ایک کے اوسان خطا نہیں ہیں؟؟ کیا ہم میں سے بیشتر اپنے آپ کو وکٹم نہیں سمجھتے؟؟ کیا ہمارا عمومی رویہ یہی نہیں کہ ہمارے، اس ملک کے اور ہمارے مذہب کے خلاف ہر وقت سازش ہوتی رہتی ہے؟؟
اس ملک میں گزشتہ بیس برسوں میں ایک لاکھ پاکستانی موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے ایک ایسی جنگ لڑتے ہوئے کہ جو نہ ہماری تھی، نہ ہمیں دشمن کا معلوم تھا، نہ ہم وہ لڑنا چاہتے تھے اور نہ اسکو لڑ اور جیت کے ہمیں کوئی فائدہ ہونے والا تھا، ہمارے بچے سکول گئے تھے اور ریاست اور ریاستی کارندے کہتے ہیں کہ وہ شہید ہو گئے؟؟؟
سری لنکن شہریت کے حامل فیکٹری مینجر کی جلتی ہوئی لاش پر کھڑے پاکستانی جب سیلفی بنا رہے تھے تو انکو نہ جانے کس بات کی تسکین پہنچ رہی تھی؟؟
نہ جانے وہ کون سا عظیم خطرہ تھا جو کسی عورت کے لباس پر لکھے لفظِ حلوہ سے پیدا ہوا تھا؟؟
نہ جانے فتح کا وہ کون سا جشن تھا جو پاکستانیوں نے علامہ اقبال کی جنم بھومی سیالکوٹ کے دو بھائیوں کی لاشیں ٹرالی پر رکھ کر اور ٹریکٹر پورے شہر میں گھما کر منایا تھا؟؟
نہیں معلوم کہ وہ کس انصاف کا تقاضا تھا کہ جس نے مشال خان کی انگلیاں توڑ دی تھیں؟؟
ایسا لگتا ہے کہ ہم سب ایک اجتماعی ٹرائل میں نامزد ملزم ہیں، ہمیں الزام تو معلوم نہیں ہے البتہ ہمیں الزام لگانے والوں کے نام اور شکلیں یاد ہیں، لیکن ہم وہ نہیں بتا سکتے کیونکہ ہم تو ضمانت پر بھی نہیں ہیں، کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ نام لینے سے نقص امن کا خطرہ ہے، ہمیں بتایا گیا ہے کہ اداروں کی تعظیم ضروری ہے، کسی طور اداروں کی توہین نہیں ہونی چاہیے، ہاں شخصیات اہم ہوتی ہیں لیکن صرف وہ کہ جو اہم کرسیوں پر براجمان ہوں، اور توہین اگر کی جا سکتی ہے تو وہ صرف جمہور ہے ، صرف عوام ہیں، کیونکہ عوام وہ ہیں کہ جن کے ہاتھ میں اختیار اور بندوق نہیں ہے اور جس کے ہاتھ میں بندوق ہو یہ اسکا حق ہے کہ لوگ اس سے ڈریں اور جس کے ہاتھ میں نہ ہو اس پر یہ فرض ہے کہ وہ اس سے ڈرے کہ جس کے ہاتھوں میں بندوق ہے۔
لیکن آج کے دن میں میرا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مجھے یہ سب سمجھانے کے لیے کوئی دوستو وسکی کوئی ٹالسٹائی کوئی نطشے اور کوئی کافکا موجود نہیں ہے اور اگر ہوتے بھی تو شاید وہ بھی انڈر ٹرائل ہوتے۔

بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں