شاہ جمال کا مجاور۔۔محسن علی خاں

23 اپریل کو ” کتابوں کا عالمی دن ” منایا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد دُنیا بھر میں کتاب کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے۔
” تاریخی لحاظ سے اس دن کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی؛ 1616ء میں اسپین کے شمال مشرق میں واقع علاقہ کیٹولینیا میں ہر سال 23 اپریل کو دنیا جہاں کے مرد اپنی عزیز خواتین اور لڑکیوں کو گلاب کے پھول پیش کرتے تھے اور اس روایت میں دنیا بھر سے خصوصاً یورپ سے لاکھوں کی تعداد میں لڑکے لڑکیاں کیٹولینیا جاتے ہیں یہ سلسلہ دو دن جاری رہتا تھا، اس دوران جگہ جگہ میگوئیل ڈی سروانٹیز کی شہرہ آفاق تصنیف ” ڈان کیخوٹے ” کے حصے، شیکسپئر کے ڈرامے اور دوسرے مصنفین کی کتابوں سے اقتباس پڑھے جاتے تھے۔
پھر یہ رسم اسپین کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیلتی گئی اور آہستہ آہستہ یہ روایت ورلڈ بک ڈے کی شکل اختیار کر گئی۔ اب کیٹولینیا میں ہر سال صرف گلابوں ہی کی نہیں کتابوں کی بھی ریکارڈ فروخت ہوتی ہے اور اس کے بعد 1995ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل کا فرانس میں اجلاس ہوا تو اس نے 23 اپریل کو ’ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹس ڈے‘ قرار دے دیا اور اب یہ دن کتابوں اور جملہ حقوق کی حفاظت کے عالمی دن کے طور پر دُنیا کے تقریباً ایک سو ملکوں میں منایا جانے لگا۔” (وکی پیڈیا)
انٹرنیٹ مووی ڈیٹا بیس (IMDB) فلموں،ڈراموں، ویڈیو گیم کی ایک جامع ڈیٹا بیس ہے۔ آپ نے کوئی فلم/ڈرامہ دیکھنا ہو تو آپ آئی ایم ڈی بی کی سرچ آپشن سے اس کو تلاش کر سکتے ہیں۔ آپ کے سامنے فلم/ڈرامہ کی تفصیل کھل جاۓ گی جس میں اس فلم/ڈرامہ میں کام کرنے والے کرداروں، کریو، فلمی لوکیشن، ساؤنڈ/میوزک، اور ڈائریکٹر، پروڈیوسر کی بھی مکمل معلومات اور ان کے انفرادی کام کی تفصیل اور سب کی بائیوگرافی بھی موجود ہو گی۔ آپ اس کی ریٹنگ بھی دیکھ سکتے جس سے پتہ لگ جاۓ گا کہ یہ فلم/ڈرامہ کتنا مقبول یا غیر مقبول ہے۔ آپ خود بھی ریٹنگ دے سکتے ہیں جو کہ آپ کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی پر منحصر ہے۔
کہانی میں کتنے جُھول ہیں یا اس میں غیر متوقع کیا بات ہوئی وہ بھی آپ کو (Trivia, Goofs) کے سیکشن میں پتہ چل جاۓ گی۔ پلاٹ سمری سے آپ اس کا مختصر تعارف دیکھ سکتے ہیں اگر مزید تفصیل چاہیے تو آپ سائنوپسز والے خانے میں دیکھ سکتے۔ یہ بھی پتہ چل جاتا کہ یہ بچوں کے لیے مفید ہے یا نہیں۔ اگر اس میں ایسے الفاظ یا مناظر ہیں جو بچوں کے لیے نہیں درست تو اس کی بھی ساری تفصیل موجود کہ کون سے الفاظ استعمال ہوۓ اور کہاں کہاں ایسے مناظر ہیں اس کے لیے آپ کو پیرنٹ گائیڈ والے آپشن پر کلک کرنا پڑتا ہے۔ کس زبان میں ہے، دُھنیں کون سی ہیں، کس نے ترتیب دی ہیں، کب ریلیز ہوئی کہاں ہوئی، کتنے ایوارڈ جیتے یا اُن کے لیے نامزد ہوئی، اس سے جڑی ہوئی خبریں، غرض یہ کہ ہر قسم کی معلومات سموۓ ہوۓ ہے۔
ان سب کے ساتھ میرے لیے جو چیز بہت اہم ہوتی وہ اس فلم/ڈرامہ کا (Genere) ” ژانرا ” ہوتی ہے۔ میں کوئی بھی فلم/ڈرامہ دیکھنے سے پہلے اس کے ژانرا کو دیکھتا ہوں۔ جو کہ“ سائنس فکشن، محبت رومانس، ہارر، ایکشن و ایڈونچر، سسپنس، جاسوسی، کرائم، ویسٹرن، بائیوگرافی، تخیلاتی، تاریخی، جنگ ” وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں اس فلم/ڈرامہ کو دیکھنے سے پہلے ایک آئیڈیا ہو جاتا ہے کہ اس میں موجود کہانی کیا رُخ اختیار کیے ہوۓ ہے۔
یہ سب تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ آج کتابوں کے عالمی دن پر مجھ سے کوئی پوچھے کہ مجھے کوئی اچھی سی کتاب تجویز کریں تو بجاۓ اس کے اُلٹا میں اس سے سوال کروں کہ جناب آپ کی دلچسپی کس میں ہے؟ کیا آپ رومانٹیک ناول پڑھنا چاہتے، سائنسی پڑھنا چاہتے، پرانے قصے کہانیاں، افسانے، سچے واقعات، آپ بیتی وغیرہ پڑھنا چاہتے؟ تاکہ میں آپ کی بہترین کتاب آپ کے پسندیدہ موضوع پر بتا سکوں۔ اس سے بہتر ہے میں ایک کتاب تجویز کردوں جو اپنے اندر تمام ژانرا سموۓ ہوۓ ہے۔
اس کے لیے میں رؤف کلاسرا صاحب کی کتاب“ شاہ جمال کا مجاور“ تجویز کر دیتا ہوں۔
اس میں آپ کو ہر قسم کا ادبی و تخیلاتی ٹچ مل جاۓ گا۔ ہر کہانی آپ کو اپنی گرفت میں لے گی۔ آپ کے کبھی آنسو بے قابو ہوں گے، کبھی محبت میں گُم ہو جائیں گے، کبھی اُداسی گھیر لے گی، کبھی تاریخ کا کوئی سبق مل جاۓ گا جس کا تعلق حال سے بھی ہو گا اور مستقبل سے بھی، کبھی آپ کو ” ماں ” کی عظیم ہستی اپنی آغوش میں لے گی تو کبھی وفادا جانور آپ کے قدموں سے لپٹ جائیں گے، اگر آپ ان سے بچھڑے تو وہ بھی جان سے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کوئی کہانی پڑھتے ہوۓ آپ رک جائیں، آنکھیں بند کر لیں، اپنی زندگی کی کہانیاں بُننے لگ جائیں، آپ کو لگے کہ آپ اپنا ہی کوئی قصہ پڑھ رہے ہیں۔
اس کتاب میں موجود تمام کرداروں سے آپ محبت کر بیٹھیں گے، اس کی وجہ کہ آپ یا تو وہ کردار نبھا چکے ہیں اپنی زندگی میں یا پھر آنے والے وقت میں آپ اسی کردار کو نبھانے والے ہیں۔ اس لیے آپ کے لیے یہ کتاب پیشین گوئی بھی ہے۔
اس سے پہلے“ گمنام گاؤں کا آخری مزار“ بھی عام آدمی کی خاص کہانیوں پر مشتمل کتاب بھی اپنی طرز کی ایک انوکھی کاوش تھی۔ شاہ جمال کا مجاور اسی سلسلے کا والیم ٹو ہی سمجھ لیں۔ اس میں پٹھانے خان اور بھٹو صاحب کا ایک واقعہ لکھا ہے۔ جس کو پڑھ کے آپ کو پٹھانے خان سے محبت ہو جاۓ گی۔ یہی دلیل کافی ہے اس بات کے لیے کہ عام آدمی کی کہانی بادشاہ کی ہزار داستانوں سے بھی بلند ہوتی ہے لیکن پہلے کبھی کسی نے عام آدمی کی کہانی قرطاس پر اُتاری ہی نہیں۔ بادشاہ خواہ کھوپڑیوں کا مینار بھی بنا دے تب بھی اس کی رحم دلی پر جے ہو جے ہو کے نعرے لگاتی کہانیاں ہی لکھی جاتی رہیں ہیں۔
بُک کارنر جہلم کے گگن شاہد اور اَمر شاہد کا خصوصی شکریہ کہ اس کتاب کو پبلش کر کے، خوب صورت انسانوں سے اس کتاب میں ملاقات کروانے کا باعث بنے۔ عام آدمی کے قصے کہانیاں شائع کرنا ایک خاص آدمی کا کام ہوتا۔ آپ دونوں بھائی خاص ہیں، اپنے والد محترم شاہد صاحب کی طرح، جو عام آدمی کے لیے آسانی کتاب کی صورت میں کرتے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply