اُردو افسانہ اور مغربی فکشن: اِختلاط و اِرتباط/شاہد عزیز انجم

مغرب اور مشرق کے درمیان رابطے کا ایک اثر بذاتِ خود اُردو مختصر افسانے کا ظہور ہے ۔ یہاں جملۂ معترضہ کے طور پر دو باتوں کا ذکر ضروری ہے ۔ پہلی یہ کہ کوئی بھی تخلیق کار اپنے مقصد اور صلاحیت کے مطابق ادبی اَثرات کا استعمال اور ان میں ترمیم کرتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو خود مصنف کا تخلیقی منصب معرض ِ خطر میں پڑ جاتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اُردو افسانہ، مغرب سے فیضان حاصل کرنے کے باوجود اپنی مخصوص ثقافتی صورت و حالات کے سبب اپنی الگ پہچان رکھتا ہے ۔

 

 

 

 

یہ ظاہر ہے کہ انیسویں صدی کے فرانسیسی اور روسی حقیقت نگاروں کے نمونے پر اُردو افسانے کی تعمیر ہوئی ۔ 1914ء کے ایک خط میں پریم چند نے لکھا تھا کہ ”آج کل ٹالسٹائی کے قصے پڑھ چکا ہوں اب طبعیت کچھ اسی رنگ کی طرف مائل ہے۔“ پریم چند اور پریم چند اسکول کے لکھنے والوں نے ٹالسٹائی کی اخلاقیات سے متاثر ہو کر بے شمار کہانیاں تحریر کیں اور خاص طور پر مقاومت مجہول والا اصول انھیں زیادہ راس آیا ۔ اس لئے کہ اسلامی جذبے کے اظہار میں اس سے مدد ملتی ہے ۔ اس اصول کے تحت افسانے کی صورت یہ بنتی ہے کہ پروٹا گنسٹ کسی بھی حالت میں ااینٹاگنسٹ کے ظلم برداشت کرنے میں کسی مزاحمت سے کا م نہیں لیتا ۔ بس دکھ برداشت کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اینٹاگنسٹ اس سے متاثر ہو کر اپنا رویہ بدل دیتا ہے ۔ اس کی بہترین مثال پریم چند کا مشہور افسانہ ”بوڑھی کاکی “ ہے ۔ جس میں بوڑھی کاکی نے عدم مزاحمت کے اصول کے تحت بہو کی تالیف ِ قلب کر دی ہے ۔ پریم چند پر ایک طویل عرصے تک ٹالسٹائی کے اخلاقی نظریوں کا سحر طاری رہا ۔ آخری زمانوں کے افسانوں مثلاً ” نئی بیوی “ میں وہ ٹالسٹائی اثر سے بالکل آزاد ہو گئے ہیں کیوں کہ افسانہ اس جملے پر ختم ہوتا ہے کہ ” لالہ کھانا کھا کر چلے جائیں گے ، تم زرا آ جانا ۔“ یہ جملہ نوجوان بیوی بوڑھے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے نوجوان نوکر سے کہتی ہے ۔ یہ افسانہ اگر ٹالسٹائی کے زیر ِ اثر لکھا جاتا تو بوڑھے شوہر کے علاوہ نوجوان بیوی کوبھی زنا کاری کی سزا ضرور ملتی ۔ لیکن یہاں اب ٹالسٹائی کی اخلاقی نفسیات نہیں بلکہ نئی نفسیات کام کر رہی ہے ۔

ترقی پسند تحریک کے دور میں موپاساں اور چیخوف نے تکنیکی لحاظ سے گہرے اثرات مرتسم کئے ۔ موپاساں نے اُردو افسانہ نگاروں کی منظم پلاٹ اور نتائجیت یا استعجابیہ انجام کا فن سکھایا ۔ اس سلسلے میں منٹو کی مثال سامنے رکھی جا سکتی ہے ۔ چیخوف سے کرشن چندر اور بیدی وغیرہ نے منتشر تفصیلات کی تاثراتی پیشکش کے ذریعے فضا بندی اور معنی خیز یا غیر فیصلہ کن اختتام کا گُر سکھایا ۔ معروضی طریق کار سے روشناس کرانے کاکام بھی انتون چیخوف نے ہی انجام دیا ۔

اُردو افسانے میں کرداروں کی ذہنی واردات کو پیش کرنے کے وسائل پہلے بہت محدود تھے ۔ 1930ء کے آس پاس سجاد ظہیر اور احمد علی وغیرہ نے جب جوائس کا مطالعہ کیا تو کرداروں کی داخلی دنیا کی ترسیل کے لئے نئی تکنیکوں سے متعارف ہوئے ۔ مثلاً ف داخلی خود کلامی اور منقول خود کلامی ۔ داخلی خود کلامی کی قواعدی پہچان یہ ہے کہ اس کی ضمیر ”میں “ اس کا صیغہ فعل حال ہوتا ہے ۔ یہ مونولاگ سے اس طرح مختلف ہے کہ مونولاگ بولا جاتا ہے اور داخلی خود کلامی میں صرف سوچا جاتا ہے ۔ اس کی مثالی صورت بستر پر لیٹے رہنے کی حالت ہے جوائس کی ”مولی بلوم“ کی مشہور داخلی خود کلامی بستر پر واقع ہوتی ہے ۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ”حرام جادی ، نیند نہیں آتی ، بادل نہیں آتے ، اور سلام بن رزاق “ جیسے افسانوں کے کردار بستر پر لیٹے ہوئے دکھائے گئے ہیں گو سب میں داخلی خود کلامی نہیں ہے بلکہ خاموش خود کلامی کی دوسری صورتیں بھی ہیں ۔

جوائس اپنے فکشن میں ایک اور تکنیک استعمال کرتا ہے جسے وہ “Epiphany”کا نام دیتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کسی معمولی منظر میں دفعتاً کسی انکشاف کا شعلہ چمک اٹھنا ۔ انتظار حسین نے Dubliners کے زیرِاثر جو افسانے لکھے اور جن میں بیشتر ان کے مجموعے ”کنکری “ میں شامل ہیں ۔ ان میں ”ایپیفانی“ کی کئی خوبصورت مثالیں موجود ہیں ۔

وجودی موضوعات کو جدید اور جدید تر اردو افسانہ نگاروں نے اچھا خاصا پامال کیا ہے ۔ لیکن سارتر کے فنی طریق کو خالدہ حسین نے جس چابکدستی سے برتا ہے ایسا کسی اور سے نہ ہو سکا ۔ سارتر کے فن کی دو ممتاز خاصیتیں ہیں ۔ ایک ، اس کے ہاں ”کنسپچوئل آئیوزلیشن“ کی شدت ہے یعنی اس کا کردار اپنے ادرکات کی تشریح خیالات کے ذریعے کرنا چاہتا ہے ۔ یہ صورت البرٹ کامیو کے ہاں نہیں ہے ۔” بیگانہ“ کا”میرسول“ اپنی حسیات کی سطح پر جیتا ہے ۔ دوسری خاصیت یہ ہے کہ سارتر اشیاء کا بیان ان کی ہستی کے حوالے سے نہیں بلکہ آزاد وجود کے حوالے سے کرتا ہے ۔ سارتر ایسا اس لئے کرتا ہے کہ وہ انسانی ذات کے اس شعور کو اہمیت دیتاہے جو اشیاء کے شعور سے پیدا ہوتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جدید اور جدید تر افسانہ نگاروں نے جس دلچسپی سے ”کافکا “کو پڑھا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ کافکا کے پیرائیہ اظہار کی تین خصوصیتیں ایسی ہیں جو اُردو افسانے کے سلسلے میں مؤثر ثابت ہوئی ہیں ۔ پہلی یہ کہ اس کی واحد متکلم والی کہانیوں میں” صیغہ حال“ کے استعمال کا رحجان حاوی ہے ۔ اُردو میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت افسانہ نگاروں کے ہاں یہ اسلوبیاتی رحجان اب عام ہو گیا لیکن اس کا عرفان عا م نہیں ۔ صیغہ حال میں کہانی لکھنے کی جو دشواریاں ہیں ان سے بحث کرنے کے لئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہو گی ۔ کافکا کے پیرایہ اظہار کی دوسری منفر د خصوصیت حقیقی تجربے کی” خواب صورت پیش کش“ ہے ۔ اس کی ایک تیسری منفرد خصوصیت اور بھی ہے جس کی جانب بہت سے تخلیق کاروں اور تنقید نگاروں نے اشارہ کیا ہے ۔ ایک ملاقات میں ولیم سمیس سے پوچھا گیا کہ آپ کو کافکا کی نگارشات میں کس چیز نے اپیل کیا ۔ تو اس نے جواب دیا “” میں اس کے مافیہ کے بجائے اس کی ہئیت سے متاثر تھا۔ اس کا چیزوں کو اپنے مقام پر رکھنے کا صاف ستھرا انداز مجھے اچھا لگا جیسے کوئی کمرہ اور اس کی برمحل تفصیلات ۔ کہ کہاں کھڑکی ہے ، کہاں دروازہ ہے ــــــــ بغیر کسی بے آرائش کے ۔“ چھوٹی چھوٹی جزئیات کے اندراج کے معاملے میں احتیاط کافکا کی تیسری خصوصیت ہے۔ اگر کافکا کے اسلوب کی ان تین خصوصیات اور اس کے کایا کلب والے موٹیف کو سامنے رکھ کر اُردو افسانے پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انتظار حسین ، سریندرا پرکاش اور خالدہ حسین جیسے بڑے افسانہ نگاروں کے یہاں کافکا سے استفادے کی کئی مثالیں مل جائیں گی ۔ مثلاً انور خاں ، حسین الحق اور شوکت حیات وغیرہ کی مغربی فکشن سے تکنیکی طور پر استفادے کی اور بھی مثالیں مل جاتی ہیں ۔ لیکن اس مختصر سے مضمون میں ان مباحث کی گنجائش نہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply