ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے/ ضیا ء محی الدین

ضیاء محی الدین جہانِ ادب و فن کا ایک روشن و درخشاں ستارہ تھا، جن سے دُنیا نے اُردو زبان، اس کے تلفظ اور درست ادائیگی کے حوالے سے سیکھی۔وہ 20 جون 1931ء کو لائل پور، ( موجودہ :فیصل آباد)، برطانوی ہندوستان میں ایک اردو بولنے والے خاندان میں پیدا ہوا جو اصل میں روہتک، مشرقی پنجاب ( موجودہ: ہریانہ )، برطانوی ہندوستان سے تھا۔ ان کے والد، خادم محی الدین، ایک ریاضی دان، ماہر موسیقی، ڈرامہ نگار، اور تھیٹر کے مختلف گروہوں سے وابستہ گیت نگار تھے۔لہٰذا ضیاء محی الدین کا رُحجان فنِ اداکاری کی طرف ہونا ایک قدرتی بات تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ ایک تو انہیں یہ فن وراثت میں ملا اور دوسرا ایسا ماحول میسر آیا جس نے انہیں اس طور فنی سانچے میں ڈھالا کہ وہ فن کی دُنیا میں ایک اعلٰی اور معتبر مقام پر فائز ہوئے۔
ضیاء نے اپنی ابتدائی زندگی قصور اور لاہور میں گزاری۔ انہوں نے 1953 سے 1956 تک لندن کی رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں تربیت حاصل کی۔ Long Day’s Journey into Night اور Julius Caesar میں اسٹیج ڈرامہ کے کرداروں کے بعد، انہوں نے West Endکا آغاز کیا۔ A Passage to India ۔ 20 اپریل سے 3 دسمبر 1960 تک کامیڈی تھیٹر میں کیا، جس میں اُن کی 302 پرفارمنسزتھیں۔ انہوں نے لارنس آف عریبیہ (1962) سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا، جس میں طافاس کا کردار ادا کیا (وہ عرب گائیڈ جسے عمر شریف نے غلط کنویں سے پانی پینے پر گولی مار دی)۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد ٹی وی اور فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ایک اداکار کے طور پر، انہوں نے برطانیہ میں تقریباً نصف صدی کام کیا۔شیکسپئیر کے ڈراموں میں اُن کی بہت دل چسپی تھی اور اسی لئے ان میں شاندار اداکاری کے جوہر دیکھائے۔ ایک اسٹیج ڈرامہ, A Passage to India میں ڈاکٹر عزیز کا کردار اُن کی وجہء شہرت بنا۔ وہ مشہورِ زمانہ فلم،‘‘ لارنس آف عربیہ’’ میں بھی نظر آئے۔انہوں نے درجن سے زائد انگریزی فلموں میں کام کیا۔
محی الدین 1960 کی دہائی کے آخر میں پاکستان واپس آئے۔ 1969 اور 1973 کے درمیان، انہوں نے مشہور ٹیلی ویژن ٹاک شو، ضیا محی الدین شو کی میزبانی کی، جو محی الدین کے ریپ طرز کے گانے کے لیے سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے، جسے وہ اپنے ٹریڈ مارک جملے ”ذراٹھیکا لگا” کے ساتھ متعارف کرایا۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ٹاک شو، ضیا محی الدین شو (1969-961973) سے ناموری پائی۔وہ 1973ء میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے، یہ ذمہ داری انہوں نے 1977ء تک نبھائی۔ اسی دوران اِن کی ملاقات معروف کتھک رقاصہ ناہید صدیقی سے ہوئی اور ان کی شادی ہوگئی۔ ان کا ایک بیٹا ، میوزک پروڈیوسر، حسن ”مویو” محی الدین ہے۔
جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے ساتھ اختلافات کے بعد محی الدین 1970ء کی دہائی کے آخر میں برطانیہ واپس آ گئے۔ 1980ء کی دہائی کے دوران، ضیا ء نے برمنگھم، برطانیہ میں کام کیا، جہاں انہوں نے سینٹرل ٹیلی ویژن کے فلیگ شپ ملٹی کلچرل پروگرام Here and Now(1986 – 1989)کا ایک ہفتہ وار میگزین پروگرام تیار کیا۔
1980 کی دہائی میں برطانیہ میں کام کے دوران، ایک پاکستانی نیوز رپورٹر کے انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پاکستان کو یاد کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس نے ایسا کیا کیا ہے ؟، پاکستان ان کا آبائی ملک ہے، اور وہ وہاں اپنے دوستوں اور پاکستان کے لوگوں کو یاد کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنے خوب صورت انداز اور آواز میں اردو شاعری اور نثر پڑھتے ہوئے دنیا کا سفر کیا۔ انہیں اردو ادب کا سب سے بڑا قاری سمجھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ، وہ انگریزی خطوط اور ادب بھی خوب صورت تلفظ کے ساتھ پڑھنے میں شہرت رکھتے تھے۔ اُن کی تصانیف میں:A Carrot is a Carrot: Memories and Reflections(2008), Theatrics, National Academy of Performing Arts, Karachi (2012) اورThe God of My Idolatry: Memories and Reflections شامل ہیں۔
اگر کہا جائے کہ‘‘ ضیاء محی الدین کے بغیر اُردو ادب کی دُنیا کا تصور نامکمل ہے ’’ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ وہ اس محبت اور احترام کے مستحق ہیں۔ اُن کی طویل اور شاندار فنی خدمات کے اعتراف میں حکومت ِ پاکستان نے انہیں اعلٰی قومی اعزازات سے نواز ا ۔ ان میں: ہلالِ امتیاز ( Crescent of Exellence-2012) ، ستارۂ امتیاز (Star of Exellence- 2003) اور (2017) Lifetime Achievement Award شامل ہیں۔
فروری 2005 میں، سابق صدر ِپاکستان پرویز مشرف نے ضیاء محی الدین کو کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس بنانے کی دعوت دی، جس کے وہ بانی و صدر تھے۔ ضیاء محی الدین ، اُردو اور انگریزی زبان کے خوب صورت لب و لہجہ کی مالک نایاب اور سحر انگیز آواز کے مالک تھے ،جس کے سحر میں ایک زمانہ اسیر تھا، یہ آواز 13 فروری 2023ء کو 91 سال کی عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کی خاموش ہوگئی۔ادب کا ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ اُن کی رحلت سے فنی و ادبی دُنیا ایک بہترین ، ہمہ جہت خصوصیات کے مالک اور باوقار اداکار شخصیت سے محروم ہوگئی۔ انہیں اپنے نفیس اندازِ گفت گو اور متاثر کُن انگریزی و اُردو تلفظ کی شانداری ادائیگی کے لئے یاد رکھا جائے گا۔
مزاجِ نازنین و شستگی نے
زمانے میں اُجالے کردیے ہیں
ستاروں سی چمک والے بھی ہم نے
زمیں تیرے حوالے کر دئیے ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply