بچپن میں والدہ محترمہ ایک کہانی سنایا کرتی تھیں، کردنی پیش نہیں کیتا تے کر کے ویکھ۔ جس کا اردو زبان میں سادہ مطلب جیسا کرو گے ویسا بھرو گے والا ہے۔
ایک بزرگ شہر میں اونچی اونچی صدائیں لگایا کرتے تھے کردنی پیش نہیں کیتا تے کر کے ویکھ۔ ایک خاتون ان آوازوں سے بہت زچ ہوا کرتی تھیں۔ انھوں نے دل میں ارادہ کیا کہ اس بزرگ کو روٹی میں زہر ملا کر دیتی ہوں۔ ایک دن انھوں نے اہتمام سے کھانا بنایا اور اس میں زہر ڈال کر بزرگ کے حوالے کر دیا۔ بزرگ نے روٹی اپنی گٹھڑی میں ڈالی اور صدائیں لگاتے شہر سے باہر چل دئیے۔ خاتون بہت خوش تھیں، کہ بزرگ سے اب جان چھوٹ جائے گی۔ بزرگ ابھی سفر میں تھے، تو تین جوان لڑکوں سے ملاقات ہوئی، وہ مزدوری کر کے واپس شہر کی طرف جا رہے تھے۔ بھوکے تھے، بزرگ نے سوچا، کہ مزدور لوگ ہیں، کام کر کے آئے ہیں، ان کو روٹی دے دینی چاہیے، اپنی گزر بسر تو فاقے کے ساتھ بھی ہو جائے گی۔ بزرگ نے روٹی دی اور اپنے گھر کی طرف چل دئیے، مزدور اپنے گھر کی جانب۔۔ وہ تینوں جوان اسی خاتون کے بیٹے تھے، جس نے بزرگ کو زہر والا کھانا دیا تھا۔ تینوں لڑکے وہ کھانا کھا کر مر گئے، اور بزرگ اسی طرح صدائیں لگاتے رہے۔
تحریک انصاف احتساب اتنا ہی کرے جتنا اپنا کروا سکتی ہے، جس طرح کے فصلی بٹیرے آپ کی پارٹی میں ہیں، آپ ا یک ہفتہ بھی نہیں برداشت کر پائیں گے۔ ہماری تمام سیاسی جماعتیں قومی احتساب بیورو کی کاروائیاں بھگت چکی ہیں، صرف پاکستان تحریک انصاف نے ابھی تک کوئی کاروائی نہیں بھگتی، جن لوگوں نے اس جماعت میں قومی احتساب بیورو بھگتا ہے، وہ بھی مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے سابقہ رکن تھے۔ جس دن انکی اعلیٰ قیادت کو مقدمات بھگتنے پڑ گئے، تو ان کے کڑاکے نکل جانے ہیں، جیسے عوام کے نکل گئے ہیں، کیونکہ حکومتوں کے غیر سیاسی فیصلے ہمیشہ سیاسی لوگوں کے گلے کا طوق بنتے ہیں۔ جیسا کہ ڈیم کے ٹھیکے، سینیٹائزر کے ٹھیکے، آئی پی پی کی ادائیگیاں وغیرہ وغیرہ، کیونکہ دوہری شہریت والوں نے تو سامان باندھ کر رخت سفر پر نکل جانا ہے رہ آپ نے جانا ہے ایک آدمی پارٹی کی طرح۔ آپ کی اعلی ٰ ترین قیادت کی گرفتاری کے لئے تو مالم جبہ، بی آر ٹی، ملین درخت سونامی اور فارن فنڈنگ کیس ہی کافی ہے۔ اس سب میں سزا ہوتی ہے یا نہیں یہ بعد کی بات ہے مگر جس طرح حزب اختلاف کو اندر رکھ کر تڑکا لگا لیا ہے، آپ کو بھی لگا دیا جائے گا۔ ابھی ادویات، چینی، آٹا اور باقی معاملات سے صَرف نظر کر دیا ہے، ورنہ یہ معاملات وہ ہڈی بنیں گے کہ نہ نگلی جائے گی اور نہ اُگلی جائے گی۔
اس سب کے لئے ایمپائر اور بابا رحمت کے اشارے کی دیر ہے، جس کے لئے مولانا فضل الرحمن حزب اختلاف میں پَر تول رہے ہیں۔ نواز شریف اس کھیل کا حصہ بننا نہیں چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف ہی حکومت میں رہے اور اپنے 5 سال مکمل کرے۔ تاکہ تبدیلی کا بخار لوگوں کے دل و دماغ سے مکمل طور پر اتر جائے اور وہ دوبارہ بھاری ووٹوں کی اکثریت سے اپنے خاندان کو گدی نشینی سونپ سکیں۔ زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ سندھ کے لئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھی جائیں، مگر وفاق میں پلٹنا جھپکنا چلتا رہے، ہو سکے تو ان کو دوبارہ موقع دیا جائے، خان صاحب سے اچھی کارکردگی تو وہ دکھا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی ٹیم اصل میں تو زرداری صاحب کی ٹیم ہے بس کپتان کا فرق ہے۔ چند روز میں کل جماعتی کانفرنس ہونے والی ہے وہ بھی بے نتیجہ ثابت ہو گی، سبھی لوگ پرانی تنخواہ پر ہی کام جاری رکھیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں