روایت کی رجعت پسندی/یاسر جواد

ہمارے ہاں، ترقی پسندوں اور روشن خیالوں نے بھی عموماً اپنے اپنے کچھ بابے پکڑے ہوئے ہیں۔ پنجابی قوم پرستوں کو اپنے صوفی شعرا عقل و خرد کا آخری پڑاؤ لگتے ہیں جن کا کہا اور لکھا ہوا یا فرضی قصے ہی حتمی ہیں۔ وہ مارکسزم سے لے کر روشن خیالی اور عقل پرستی سے لے کر قوم پرستی تک سب کچھ اُن کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، حالانکہ اُن میں سے زیادہ تر دور میں تو جدید ریاستی قوم پرستی نے جنم تک نہیں لیا تھا۔ یہ صنعتی انقلاب کے بعد یورپ کے راستے ہم تک آئی۔ وہ اپنے بابوں کے ایک آدھ مصرعے کو اِتنا رڑکتے اور لسی بناتے ہیں کہ بندہ اپنا سر پکڑ لے۔ ایک مصرع بابا فرید کا، دو مصرعے بلھے شاہ کے اور ایک ایک دو دو مصرعے خواجہ فرید اور وارث شاہ کے۔ بس ہو گیا سب نظریات کا سامان تیار۔

یہ ایک اپنی طرح کا علم الکلام ہے۔ عام طور پر بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ ہم ’’اُن اقدار کو پروان چڑھانے کی بات کر رہے ہیں جن کی بات اِن بابوں نے کی تھی۔‘‘ بابوں نے کون سی ماضی کی اقدار پر ’’پروان‘‘ چڑھانے کی کوشش کی تھی؟ اُنھوں نے بس وہی اور اُتنی اور ویسی ہی بات کی جو اُنھیں سمجھ آئی۔ وہ روایت پرست بھی تھے اور تصوف یا نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے روایت کے مخالف بھی۔ وہ کُل انسانیت کی بات نہیں کرتے تھے۔ اُن سب کے اپنے اپنے سلسلے تھے جن کے ساتھ وابستہ آج کی فرقہ واریت سے بھی زیادہ شدید تھی۔

پنجابی قوم پرستوں نے اب سکھوں سے بھی خاص طرح کی عقیدت پیدا کر لی ہے۔ سکھ قوم پرست نہیں بلکہ محض سکھ ہیں۔ وہ اُن کا مذہب ہے، پنجابی زبان اُن کے لیے وہی درجہ رکھتی ہے جو بیشتر پاکستانی مسلمانوں کے لیے عربی کا درجہ ہے، یا کبھی تھوڑا بہت فارسی کا بھی رہا ہے۔ سکھ پاکستان اور لاہور میں زیارت کرنے آتے ہیں، پتا نہیں اُنھیں سیکولر کیوں سمجھ لیا گیا؟ وہ بھی ایک مذہبی روایت کے پیروکار ہیں۔ عقل و خرد یا انسان دوستی سے اُن کا تعلق بھی دیگر روایت پرستوں جتنا ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر روایت پسندی اچھی چیز ہے تو پھر اِس کی بہن رجعت پسندی یا قدامت پسندی بُری کیسے ہو گئی؟ اِن دونوں میں کیا فرق ہے؟ اور کیا یہ دونوں ہی تو ہر قسم کی دقیانوسیت اور سماجی رکاوٹ اور ذہنی فرسودگی کا قلعہ نہیں؟

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply