ذہانت (21) ۔ تشخیص کے رنگ/وہاراامباکر

چھاتی کینسر کی تشخیص میموگرام دیکھ کر کی جاتی ہے لیکن اس میں صرف ہاں یا نہیں کا فیصلہ نہیں ہے۔ یہ ایک سپیکٹرم پر ہو سکتا ہے۔ ایک طرف بالکل صاف سیمپل اور دوسری انتہا پر انتہائی خطرناک ٹیومر جہاں پر کینسر کے خلیات آپس پاس کے ٹشو کو بھی متاثر کرنے لگے ہیں۔

 

 

 

ایسے کیس پہچان لینا آسان ہے۔ اور ڈاکٹروں میں اس کی درست تشخیص کا تناسب 96 فیصد ہے۔ (یہ کبوتروں کے برابر کا ہے)۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن ان انتہاؤں کے بیچ میں بہت کچھ ہے جہاں ابہام زیادہ ہے۔ ایسے خلیات ہو سکتے ہیں جو نارمل سے کچھ ہٹ کر ہوں۔ لیکن یہ مشکوک خلیات پریشان کن نہ ہوں۔ یا پھر ابتدائی کینسر کے طرز کی گروتھ جو لازم نہیں کہ بڑھ کر کینسر ہی بنے۔ یا پھر کینسر جو کہ ابھی پھیلا نہ ہو (ductal carcinoma in situ)۔
اور ان کی پہچان کے حساب سے علاج تجویز ہو گا اور اس کا اثر مریض کی زندگی پر بہت بڑا ہے۔ کیا سرجری کرنی ہے یا کچھ بھی نہیں کرنا؟ یہ فیصلہ اس تشخیص کی بنیاد پر لیا جائے گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ان کے درمیان تفریق کرنا بہت نازک اور پیچدار ہے۔ ماہر پیتھولوجسٹ بھی ایک ہی نمونے کے تجزیے میں آپس میں اختلاف رکھ سکتے ہیں۔ 2015 کی ایک سٹڈی نے چھاتی کے ٹشو کے 72 نمونے لئے۔ یہ سب سپیکٹرم کے درمیان والے کیس تھے (یعنی مشکل کیس تھے)۔ 115 ماہرین کی رائے پوچھی۔ پریشان کن نتیجہ یہ تھا کہ صرف 48 فیصد نمونے ایسے تھے جس میں ماہرین میں اتفاق تھا۔
اور یہ معمولی نہیں۔ اس کا مطلب غیرضروری سرجری ہو سکتا ہے جو نہ صرف مہنگا کام ہے بلکہ مریض کے لئے تکلیف دہ بھی۔ یا پھر آپ کینسر کو ابتدا میں پکڑنے کا موقع گنوا دیں۔ دونوں طرح کی غلطیوں کے مضمرات بڑے ہیں۔
تو جب معاملہ اتنا اہم ہو، تو کیا الگورتھم حل ہیں؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply