ردِّ عمل/مرزا مدثر نواز

انسان کو بنانے والے نے اس کو تلقین کی ہے کہ نیکی و بدی ہر گز برابر نہیں ہوتی‘ برائی کو بھلائی سے دفع کرو۔ یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالویعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ‘ زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ‘ غضب کا صبر کے ساتھ‘ بے ہودگیوں کا جواب چشم پوشی کے ساتھ‘ اور مکروہات (ناپسندیدہ باتوں) کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے۔کرنٹ کے بہاؤ کے لیے فیز کے ساتھ نیوٹرل کا ہونا ضروری ہے۔ جو لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے‘ وہ بھی باتیں کر لیتے ہیں بلکہ دوسروں کی نسبت زیادہ بولتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو اس لیے تعلیم دلواتے ہیں کہ وہ جب کسی سے گفتگو کریں یا کسی موضوع پر لب کشائی کریں تودل کو چھو لینے والے اندازِ بیاں کے ساتھ اچھے‘ خوبصورت‘ معیاری اور مناسب الفاظ کا ستعمال کریں جو کہ سننے والے کے دل میں اتر جائیں اور وہاں اپنا اثر چھوڑ جائیں۔
؎ سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں (سیف الدین سیف)
ایک تعلیم یافتہ انسان کے پاس بہت سی ڈگریاں ہیں لیکن دوسرے لوگوں سے بات کرتے ہوئے ایک ان پڑھ اور پڑھے لکھے کا فرق واضح نہیں ہوتا تو پھر اس علم و ڈگریوں کی کوئی وقعت نہیں۔
؎ علم کز تو ترا نہ بستاند(جو علم تجھے تجھ سے نہ لے لے)
جہل زاں بہ بود بسیار (اس علم سے جہل بہتر ہے)
میرے جاننے والوں میں ایاز احمد‘ اسلم خانپوری‘ فہیم اللہ رحمانی اور حافظ سعد ایسے لوگ ہیں جو کبھی بھی رد عمل کی نفسیات میں مبتلا نہیں ہوتے‘ کوئی ان سے سخت لب و لہجے میں مخاطب ہو تو وہ اشتعال کی بات پر مشتعل نہیں ہوتے بلکہ پہلا جواب مسکراہٹ ہوتا ہے اور اس کے بعد ایسے جامع‘ خوبصورت‘ دلائل و حقائق سے بھر پور الفاظ ادا کرتے ہیں کہ مخاطب دم بخود ہو جاتا ہے۔
؎ اک تبسم ہزار شکوؤں کا
کتنا پیارا جواب ہوتا ہے
؎ ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب
اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے (فانی بدایونی)
(۱)حضرت ابرٰھیم بن عیلہؒ کو ہشام بن عبد الملک اموی نے بلایا اور ان کو مصر کے محکمہ خراج کے افسر کا عہدہ پیش کیا۔ حضرت ابرٰھیم بن عیلہ نے عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ ہشام کو غصہ آ گیا‘ اس نے کہا کہ آپ کو یہ عہدہ قبول کرنا ہوگا ورنہ آپ کو سخت سزا دی جائے گی۔ ابرٰھیم بن عیلہ نے نہایت نرمی کے ساتھ کہا‘ اللہ تعٰلٰی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہم نے زمین و آسمان کو امانت پیش کی مگر انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔ پھر جب خدائے بزرگ و برتر ذمہ داری قبول نہ کرنے پر خفا نہیں ہوئے تو آپ کیوں مجھ پر خفا ہورہے ہیں۔ ہشام یہ سن کر چپ ہو گیا اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ابرٰھیم بن عیلہ کے مذکورہ جواب سے پہلے ہشام کو غلطی ابرٰھیم بن عیلہ کی طرف نظر آ رہی تھی‘ اس جواب کے بعد اس کو محسوس ہوا کہ غلطی خود اس کی اپنی طرف ہے۔ اس احساس نے اس کی سوچ کو بدل دیا اور اس نے اپنے متشددانہ حکم کو واپس لے لیا۔
یہ ایک عظیم الشان فطری ہتھیار ہے جو اللہ تعٰالی نے ہر آدمی کے لیے اور ہر آدمی کے خلاف مہیا کیا ہے‘ خواہ اس کا حریف بادشاہ وقت ہی کیوں نہ ہو۔آدمی اگر ردعمل کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو۔ وہ تیز و تند الفاظ بول کر یا مخالفانہ کارروائی کر کے معاملے کو مزید نہ بگاڑے تو یقینی طور پر وہ اس امکان کو اپنے حق میں استعمال کر سکتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ جب بھی اپنے خلاف کوئی صورتِ حال پیش آئے‘ وہ ٹھنڈے ذہن سے سوچ کر کارروائی کرے۔ وہ فریقِ ثانی کے اندر احساسِ خطا کو جگانے کی کوشش کرے۔ اگر فریقِ ثانی کے اندر احساسِ خطا بیدار ہو گیا تو گویا وہ خود ہی اپنے ہتھیاروں سے زخمی ہو گیا۔ فریقِ ثانی کے اندر چھپی ہوئی فطرت کو جگانا اس کے اوپر سب سے بڑا حملہ ہے۔ کوئی بھی شخص نہیں جو اس حملہ کی تاب لا سکے۔ تاہم یہ حملہ وہ لوگ کر سکتے ہیں جو اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی کر لیں۔ جو لوگ اشتعال کی بات پر مشتعل ہو جائیں وہ کبھی اس اعلیٰ تدبیر کو استعمال نہیں کر سکتے۔
(۱) اسباقِ تاریخ از مولانا وحید الدین خاں

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply