ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوتے ہی جدید دانش و عقل رکھنے والا شخص سادہ لوح اور مذہب پسند مسلمانوں کا ذہن خراب کرنا شروع کر دیتا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے،لاکھوں لوگوں کی یہ رقمیں بلا وجہ ضائع ہوتی ہیں، اس کے بجائے اگر اتنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کیا جائے ، تو معاشرے کے بہت بڑے غریب اور مفلس طبقے کا بھلا ہو جائے گا، یہ افراد بھی زندگی کی ضروری سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح منکرینِ قربانی اپنی عقلِ نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعمِ خود قربانی کے نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کرتے نظر آتے ہیں۔اور اس کی وجہ سے عام مسلمان ان نام نہاد دانشوروں کے زہریلے پروپیگنڈے اور بہکاوے میں آ کر اسلام کے اس عظیم الشان حکم کو ترک کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فرزندان توحید ہر سال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں عیدالاضحیٰ مناتے ہیں اور اس موقع پر مختلف حلال چوپایوں جیسے گائے، بیل ، بکرے ، مینڈھے، اونٹ اور دیگر جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔ قربانی کی ابراہیمی روایت کی پیروی کے ساتھ ہی اسی روز عید بھی منائی جاتی ہے۔جانوروں کی قربانی تو محض مثال ہے، اصل میں یہ مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ بطور برادران اسلام ایک دوسرے کی بھلائی اور بہتری کے لیے بھی کسی قربانی سے گریز نہ کریں۔اسلام تو ویسے بھی ایثار و قربانی کا دین ہے۔
اس تحقیقی آرٹیکل کا مقصد قربانی کی ابتداء اور ارتقاء کے بارے میں مختلف مکتبہ فکر مختلف کتب و رسائل اور ویبسائٹ کی مدد سے محض معلومات بہم پہنچانے کی کوشش ہے۔
قربانی کی ابتداء اور تاریخ بیان کرنے سے قبل ایک اہم بات گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ “مذہب نام ہے عقل وشعور سے ماوراء یقین کامل اور اطمینان قلب کا ،اس میں کبھی بھی تحقیق نہیں کرنی چاہیے بس اپنے فرقے اپنے مسلک اپنی فقہ کے مطابق خلوص دل سے اس کے اعمال و افعال پر بلا شک و شبہ پر علمی اور عملی طور کار بند رہنا چاہیے”
مذہب کی باقی باتوں کی طرح مسئلہ قربانی پر بھی اسلاف کے حوالے سے متضاد نقطہ نظر پائے جاتے ہیں
ایامِ عید الاضحیٰ میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام میں سے کوئی جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے ( بھیمۃ الانعام بھیڑ بکری اونٹ گائے کوکہتے ہیں )
قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے اس کی مشروعیت کتاب اللہ اورسنت نبویہﷺ اورمسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید سورة الحج میں ارشاد فرماتے ہیں:۔
”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیں ، ان جانوروں پر جو ہم نے ان کو عطا کئے ہیں“
قرآن مجید میں قربانی کیلئے تین لفظ آئے ہیں۔ ایک نسک اور دوسرا نحر تیسرا قربان ۔
نسک: یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے کہیں عبادت، کہیں اطاعت اور کہیں قربانی کے لئے جیسے سورہ حج کی آیت 34 میں فرمایا:۔
”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کر دی ہے
یہاں یہ لفظ جانور کی قربانی کے لئے ہی آ رہا ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد من بھیمتہ الانعام کا لفظ ہے یعنی ان چوپایوں پر اللہ کا نام لے کر قربانی کریں جو اللہ نے ان کو عطاءکئے۔ دوسرا لفظ قربانی کے لئے قران مجید میں نحر کا آیا ہے جو سورة الکوثر میں ہے:۔
”یعنی اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں“ اور قربانی کا لفظ قرآن مجید میں سورہ مائدہ کی 27 ویں آیت میں آیا ہے جہاں حضرت آدمؑ کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کے واقعہ کا ذکر ہے۔
آپ کہہ دیجیے یقینا میری نماز اورمیری ساری عبادت اورجینا میرا مرنا یہ سب خالص اللہ تعالی ہی کا ہے جوسارے رب کا مالک ہے ، اس کا کوئي شریک نہيں اورمجھ کواسی کا حکم ہوا ہے اورمیں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں ۔ روایت ہے کہ انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سیاہ وسفید مینڈھوں کی قربانی دی انہيں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور( ذبح کرتے ہوئے ) بسم اللہ اللہ اکبر کہا اوراپنا پاؤں ان کی گردن پررکھا ۔
دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5558 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1966 ) ۔
حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ”یارسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا: ”تمہارے باپ حضرت ابراہیمؑ کی سُنّت (یعنی اُن کا طریقہ) ہے۔ عرض کیا‘ یارسول اللہ اِن میں ہمارے لئے کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے لئے ہر بال کے عوض نیکی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ یہ جو اُون ہے‘ اِس کے بارے میں کیا اِرشاد مبارک ہے؟ فرمایا: اُون کے ہر ہر بال کے عوض نیکی ہے“۔
(ابن ماجہ ص ۲۳۳‘ مشکوٰة ص ۱۲۹)
ایک حدیث کے مطابق
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَی اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ إِنَّهَا لَتَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلَافِهَا وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنْ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنْ الْأَرْضِ فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یوم النحر (دس ذوالحجہ) کو اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں (یعنی قربانی سے) قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں سمیت لایا جائے گا اور بےشک اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقام قبولیت حاصل کرلیتا ہے پس خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔‘‘
بحوالہ
(سنن الترمذی، كتاب الأضاحي عن رسول اللهﷺ، باب ما جاء فی الاضحیۃ)
جبکہ دوسری حدیث کے مطابق
قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَهُ اللَّهُ : وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ وَعُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَا لاَ يُضَحِّيَانِ كَرَاهِيَةَ أَنْ يُقْتَدَی بِهِمَا فَيَظُنُّ مَنْ رَآهُمَا أَنَّهَا وَاجِبَةٌ(سنن البيهقي الكبری، کتاب الضحایا، باب الأضحية سنة نحب لزومها ونكره تركها)
’’امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما قربانی نہیں کرتے تھے اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ (اس بارے میں) ان کی اقتداء کی جائے تاکہ ان کے کبھی کبھار قربانی کو چھوڑنے سے دیکھنے والا یہ سمجھ جائے کہ قربانی فرض نہیں ہے۔‘‘
بحوالہ
سنن بیہقی
فقہاء احناف وشوافع کے یہاں بڑے جانوروں کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی، اور بھیڑبکری میں صرف ایک آدمی شریک ہوسکتا ہے اس کے برخلاف حضرت امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق اور اصحابِ ظواہر وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ ایک بکرا یا ایک بھیڑ ایک گھر کے سینکڑوں افراد کی طرف سے اسقاطِ فریضہ کے لئے کافی ہے والحق أنہا تجزیٴ عن أہل البیت وان کانوا مأة نفس أو أکثر.
(نیل الاوطار للشوکانی جلد۳،صفحہ۱۲۱)
احناف و شوافع کے سامنے بنیادی طورپر حضرت جابر رضى الله تعالى عنه کی یہ حدیث ہے: نحرنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالحدیبیة البدنة عن سبعة والبقر عن سبعة. (نصب الرایہ جلد۴، صفحہ ۲۰۹، موطا مالک مع اوجز جلد۴، صفحہ ۳۰۲)
اس حدیث میں چونکہ ”بدنة“ یعنی اونٹ اور ”بقرة“ یعنی گائے اور بھینس کو ہی سات آدمیوں کے لیے کافی قرار دیاگیا ہے نہ کہ بکرا وغیرہ کو اس لیے انہی جانوروں میں سات افراد کی شرکت جائزہوسکتی ہے نہ کہ بکرے میں۔ جبکہ بکرے میں مختلف لوگوں کی شرکت کو جائز قرار دینے والوں کے سامنے اصولی طورپر حضرت ابوایوب رضى الله تعالى عنه کا یہ اثر ہے: کنا نضحّی بالشاة الواحدة یذبحہا الرجل عنہ وعن اہل بیتہ فیاکلون ویطعمون حتی تباہی الناس فصار کما تری،
ابن ماجہ، ترمذی، ابوداوٴد، نیل الاوطار ۳/۲۰)
امام شوکانی اس حدیث کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں فیہ دلیل علی ان الشاة تجزیٴ عن اہل البیت وان کانوا مأة نفس او اکثر.
چونکہ حضرات صحابہ پورے گھر والے کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتے تھے اور آپ کو اس کا علم تھا لیکن آپ نے اس سے ان کو روکا نہیں۔ لہٰذا اس سے بھی اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ بلا شک وریب ایک بکرا پورے گھروالے کے لیے کافی ہے
(نیل الاوطار جلد۳، صفحہ ۱۲۱)
حدثني يحيى بن موسى , حدثنا ابو بكر الحنفي، حدثنا الضحاك بن عثمان , حدثني عمارة بن عبد الله , قال: سمعت عطاء بن يسار , يقول: سالت ابا ايوب الانصاري: كيف كانت الضحايا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: ” كانالرجل يضحي بالشاة عنه , وعن اهل بيته , فياكلون , ويطعمون , حتى تباهى الناس , فصارت كما ترى ” , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وعمارة بن عبد الله هو: مدني , وقد روى عنه مالك بن انس , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , وهو قول احمد , وإسحاق: ” واحتجا بحديث النبي صلى الله عليه وسلم انه ضحى بكبش , فقال: هذا عمن لم يضح من امتي ” , وقال بعض اهل العلم: لا تجزي الشاة إلا عن نفس واحدة , وهو قول عبد الله بن المبارك: وغيره من اهل العلم.
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرت قربانی پر) فخر کرنے لگے، اور اب یہ صورت حال ہو گئی جو دیکھ رہے ہو
بحوالہ
سنن ترمذي حدیث نمبر 1505
كتاب الأضاحى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
10. باب مَا جَاءَ أَنَّ الشَّاةَ الْوَاحِدَةَ تُجْزِئُ عَنْ أَهْلِ الْبَيْتِ
10. باب: ایک بکری کی قربانی گھر کے سارے افراد کی طرف سے کافی ہے
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- راوی عمارہ بن عبداللہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا: ”یہ میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے“،
۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک بکری ایک ہی آدمی کی طرف سے کفایت کرے گی، عبداللہ بن مبارک اور دوسرے اہل علم کا یہی قول ہے (لیکن راجح پہلا قول ہے)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3147)
● جامع الترمذي1505خالد بن زيديضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته فيأكلون ويطعمون حتى تباهى الناس فصارت كما ترى
حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم ، حدثنا ابن ابي فديك ، حدثني الضحاك بن عثمان ، عن عمارة بن عبد الله بن صياد ، عن عطاء بن يسار ، قال: سالت ابا ايوب الانصاري : كيف كانت الضحايا فيكم على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قال:” كان الرجل في عهد النبي صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة عنه، وعن اهل بيته، فياكلون ويطعمون ثم تباهى الناس فصار كما ترى”.
عطا بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ لوگوں کی قربانیاں کیسی ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا تو اسے سارے گھر والے کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے، پھر لوگ فخر و مباہات کرنے لگے، تو معاملہ ایسا ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو۔
● سنن ابن ماجه3147
خالد بن زيديضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته فيأكلون ويطعمون ثم تباهى الناس فصار كما ترى
10. بَابُ : مَنْ ضَحَّى بِشَاةٍ عَنْ أَهْلِهِ
10. باب: سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کا بیان۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأضاحي 10 (1505)، (تحفة الأشراف: 3481) (صحیح)»
یہ چند مثالیں ہیں ورنہ ذخیرہ احادیث و تاریخ میں سینکڑوں متضاد روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء ہی سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں قربانی کے بارے میں بہت تضاد پایا جاتا تھا ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی صرف مکہ مکرمہ کے مخصوص مقام پر ہی ہو سکتی ہے اس کے علاوہ دنیا کے کسی حصے کی گلی محلے میں نہیں ہو سکتی ایک روایت کے مطابق مدینہ کے لوگ حج کے قافلوں کے ہمراہ اپنے جانور خوب سجا کر روانہ کر دیتے تھے کہ انہیں ہماری طرف سے مکہ کے مخصوص مقام پر ذبح کر دیا جائے جبکہ کچھ روایات کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ عید الضحٰی پر مدینہ منورہ میں گوشت دکانوں پر ملتا تھا کیونکہ عید پر وہاں قربانی نہیں ہوتی تھی۔
(یہ نہ ختم ہونے والی بحث ہے کیونکہ دونوں طرح کی روایات کتب میں موجود ہیں ان کے صحیح و غلط کا فیصلہ اسماء الرجال سے کیا جاتا ہے اور اس کا تعلق بھی مسلک اور فرقہ و فقہی اور سواد اعظم یعنی اکثریت کے فیصلے کے مطابق کیا جاتا ہے)
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں