• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آج معراج محمد خاں اور حاصل بزنجو کی یاد کیوں آتی ہے/ارشد بٹ

آج معراج محمد خاں اور حاصل بزنجو کی یاد کیوں آتی ہے/ارشد بٹ

پاکستان میں محنت کش طبقوں اور عوامی جمہوری سیاست کی ایک طاقتور آواز معراج محمد خاں کو ہم سے بچھڑے سات سال ہو گئے جبکہ جمہوری اور پارلیمانی سیاست میں ترقی پسند سوچ کے نمائندہ حاصل بزنجو بھی ایک سال قبل داغ مفارقت دے گئے۔

جنرل ضیا کی آمریت کو چیلنج کرنے والے جاوید حکیم قریشی اور سینیٹر سردار سلیم اسی ماہ راہ ملک عدم ہوئے۔ برطانیہ میں بر صغیر سے آئے امیگرنٹس کے حقوق کے لئے سب سے پہلے آواز بلند کرنے والے بیرسٹر صبغت اللہ قادری نے سیاسی اور معاشی مہاجرین کی خدمات سر انجام دیتے ہوئے اگلے جہاں رخت سفر باندھا۔ بیلجیم میں مقیم پاکستان میں آزاد صحافت کے علمبردار ترقی پسند سوچ کے حامل خالد حمید فاروقی بھی گذشتہ سال مالک حقیقی سے جا ملے۔ پنجاب میں پنجابی زبان اور کلچر کی نمائیندہ تحریک پنجاب لوک لہر کے بانی اور روح رواں پنجابی شاعر قسور مبارک بٹ بھی گذشتہ سال اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ فرینڈز آف معراج محمد خاں اوورسیز کے زیر اہتمام گذشتہ روز لندن میں ایک پر وقار تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں ان سیاسی راہنماوں اور دانشوروں کی عوامی حقوق کے لئے بے مثال جدوجہد اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ وقاص بٹ، اکرم قائم خانی، تنویر زمان خان، مشتاق لاشاری، مظہر ترمزی، یوسف ابراہیم، محمد ؑعامر کے علاوہ پاکستان سے لندن آئے معروف دانشور سرور باری نے نہ صرف ہم سے بچھڑے راہنماوں کی یاد یں تازہ کیں بلکہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ معراج محمد خاں کے دیرینہ ساتھیوں لاہور سے خواجہ سلیم اور اوسلو سے ارشد بٹ ایڈووکیٹ کے ویڈیو پیغامات بھی شامل مجلس کئے گئے۔

ملک کے دگرگوں معاشی حالات اور اشرافیہ کی موقعہ پرستانہ سیاست کو دیکھتے ہوئے معراج محمد خاں، حاصل بزنجو اور عوامی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے راہنماوں کی یاد کیوں نہ ستائے ۔ کیونکہ اشرافیہ طبقوں کی سیاسی پارٹیوں نے عوامی مسائل کو پس پشت ڈال کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لئے مقتدرہ کے متعین کردہ سیاسی و نظریاتی دائروں کے سامنے سر تسلیم خم کر رکھا ہے۔ مقتدرہ کی نئی قیادت نے آئین و قانون کے مطابق کردار ادا کرنے کا ارادہ ظاہر کر رکھا ہے مگر زمینی حقائق کچھ مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ ایک جانب اپنے ہاتھوں سے تراشے بت عمران خان کو پاش پاش کرنے کے منصوبے پر عمل جاری ہے ۔ پی ٹی آئی کو ٹکڑوں میں بانٹا جا رہا ہے۔ مگر عمران خان کے ووٹ بنک کو بکھیرنے میں ابھی تک ناکامی کا سامنا ہے۔ دوسری جانب ن لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی اقتدار کے حصول کے لئے مقتدرہ کی خوشنودی میں آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ و سولین بالادستی کے نعرے کو ترک کر چکی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ عمران خان بھی مقتدرہ کو آئین و قانون کے دائرے میں رکھنے کی بات نہیں کرتے بلکہ وہ مقتدرہ کے دو یا تین طاقتور ترین افراد کو عہدوں سے ہٹانے کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان ایسی مقتدرہ چاہتے ہیں جو ماضی کی طرح پھر انہیں اقتدار تک پہنچانے کے لئے راہ ہموار کرے۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ اشرافیہ کی کوئی جماعت ہائی برڈ سیاسی بندوبست پر اختلاف کرنے کی جرات کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔

ہائی برڈ طرز حکمرانی کو سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کا رستہ سمجھنے والوں نے ملکی سیاسی تاریخ سے آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں۔ ملکی معیشت میں بگاڑ کی ایک بڑی وجہ ہائی برڈ سیاسی بندوبست ہے۔ ایک لمبے عرصہ تک ریاست پر جنرل ایوب، جنر ل یحیٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے براہ راست قبضہ نے آئینی و قانونی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ نوے کی دہائی میں آئین کا حلیہ بگاڑ کر پی پی پی اور ن لیگ کو ہائی برڈ انتظام کے تحت شریک اقتدار کیا گیا۔ بے نظیر بھٹوشہید کے بعد پی پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں نے آصف زرداری اور نواز شریف کی قیادت میں آئینی ترامیم کے ذریعے آئین کو اصل صورت میں بحال کیا۔ مگر یہ دونوں حکومتیں مسلسل مقتدرہ کے دباو میں رہیں۔آئین کی بحالی کے بعد دونوں ادوار میں ہائی برڈ سیاسی انتظام کو کسی حد تک پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ جس کے بعد ہائی برڈ انتظام کی بحالی کے لئے تیسری سیاسی قوت یعنی پی ٹی آئی کو سامنے لایا گیا۔ پی ٹی آئی کی ایک پیج حکومت ہائی برڈ سیاسی بندوبست کے تحت حکومت کہی جا سکتی ہے۔ شہباز اتحادی حکومت کو اسی ہائی برڈ انتظام کا تسلسل کہا جا سکتا ۔

نگران حکومت کی چھتری تلے ہائی برڈ انتظام کے تسلسل کے لئے منصوبہ بندی ہو چکی ہے۔ خودمختاری کے دعوں کے باوجود اعلیٰ عدلیہ ریاسی اداروں کی خواہشات کے بر عکس فیصلوں میں احتیاط سے کام لیتی ہے۔ سول افسر شاہی اور سیکورٹی ایجنسیاں تو مقتدرہ کے اشاروں پر عمل کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی قانونی یا غیر قانونی حربوں سے مینیجمنٹ کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے۔ جلد یا بدیر ہونے والے الیکشنوں میں مثبت نتائج برآمد کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ ۲۰۱۸ کے الیکشنوں میں جو سلوک ن لیگ ، میاں نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ روا رکھا گیا ویسا ہی برتاو پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ برتا جا رہا ہے۔ ن لیگ والے اسی کو لیول پلینگ فیلڈ کہہ رہے ہیں۔ زمینی حقائق کی روشنی میں مقتدرہ کے سیاسی عدم مداخلت کے شواہد بڑے کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ممکنہ الیکشن مینج کرنے کے شواہد چھپانے سے نہیں چھپ رہے۔ ممکنہ الیکشن اگر فری، فیئر، شفاف اور سب جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ فراہم کئے بغیر منعقد کراکر مثبت نتائج نکالنے کی کوشش کی گئی تو ملک ایک نئے بحران میں داخل ہو جائے گا۔ سیاسی استحکام کے نشان دور دور تک نظر نہیں آئیں گے۔ معاشی بحالی و ترقی اور عوامی خوشحالی سہانا خواب بن جائے کر رہ جائے گا۔

کیا جمہوریت کی دعویدار تینوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی ہائی برڈ سیاسی بندوبست سے چھٹکارہ پانے کی خواہش رکھتی ہیں۔ کیا ان جماعتوں کی قیادت کو یہ احساس ہے کہ ہائی برڈ انتظام اور آئین و قانون کی حکمرانی دو متضاد چیزیں ہیں۔ کیا اس بندوبست میں رہتے ہوئے پارلیمنٹ اور سولین بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ کیا ہائی برڈ انتظام عدلیہ کی آزادی اور میڈیا کی خودمختاری کی ضمانت دے سکتا ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے میثاق جمہوریت نے ہائی برڈ انتظام کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی تھی۔ آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے آئین کی بحالی کے لئے عملی اقدامات بھی کئے۔ مگر بعد میں مقتدرہ کی سیاسی مداخلت نے اپنی من پسند سیاسی قیادت عمران خان کی شکل میں کھڑی کر کے آئینی نظام پر ہائی برڈ چھاپ لگا دی اور پھر اپنی تخلیق سے چھٹکارہ پانے کی ٹھان لی۔

وقت کا دھارہ بدلتے وقت نہیں لگتا۔ اس لئے یہاں یاد دہانی کے لئے چند تاریخی حقائق کی نقاب کشائی کرنا ضروری ہے۔ کیا عمران خان دوسری نواز حکومت کے خلاف پی پی پی، جے یو آئی، نوابزادہ نصر اللہ مرحوم اور دیگر جماعتوں کے ساتھ متحد ہو کر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ نہیں بنے تھے۔ کیا عمران خان نے مشرف دور کی پارلیمنٹ میں مولانا فضل الرحمان کو وزیر اعظم کے انتخاب میں اپنا ووٹ نہیں دیا تھا۔ کیا عمران خان نے لندن میں نواز شریف کی قیادت میں مشرف مخالف اجلاس میں شرکت اختیار نہیں کی تھی۔ کیا عمران خان اور نواز شریف نے متحد ہو کر پی پی پی حکومت کے خلاف جسٹس افتخار بحالی تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا۔ کیا نواز شریف حکومت کے خلاف عمران خان پی پی پی کے پارلیمانی لیڈر خورشید شاہ کے ساتھ مل کر پریس کانفرنسیں نہیں کرتے رہے۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ۲۰۱۱ میں مقتدرہ کے کارگزاروں نے اپنے مفادات کے تحت عمران خان کو تھپکی دے کر سیاسی قوتوں کے سامنے لا کھڑا کیا اور ہاتھ تھام کر وزارت عظمیٰ پر براجمان کرا دیا۔ اب پی ٹی آئی کو منتشر کرکے اور جیل میں ڈال کر عمران خان کے سر سے مقتدرہ کا احسان اتر چکا ہے۔

آج کے حالات عمران خان کے خیالات میں تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں ۔ کیا عمران کاخان درپیش حالات کے تقاضوں کا ٹھنڈے دل و ماغ سے جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ سیاسی حالات میں تبدیلی کسی ایک فرد یا گروہ کی خواہشات کے طابع نہیں ہوتی۔ عمران خان جن حالات میں گھر ے ہوئے ہیں وہ تقاضا کرتے ہیں کہ عمران خان سیاسی قوتوں کی طرف ہاتھ بڑہا ئیں۔ سیاسی قوتیں چاہے اشرافیہ طبقوں سے تعلق رکھتی ہوں انکی نش و نما صرف اور صرف ایک جمہوری اور آئینی نظام ہی کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی اور مکالمہ کا فقدان ، باہمی الزام تراشی اور منافرت کی سیاست کا چلن مقتدرہ کو سیاسی مداخلت کے لئے زرخیز زمین فراہم کرتا ہے ۔ عمران خان یہ جان کر جتنی جلد سیاسی قوتوں کی طرف پلٹیں انکے لئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ عمران مخالف سیاسی قوتوں کو بھی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کی طرف سیاسی دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہے۔ سب کو بدلے کی آگ کو دفن کر کے نئے جمہوری دور کے آغاز کی جانب بڑھنا چاہے۔ ممکنہ الیکشن کو غیر متنازعہ رکھنے کے لئے پی پی پی، ن لیگ، پی ٹی آئی، جے یو آئی، پی این پی اور دیگر پارٹیوں کے درمیانہ مذاکرات کے ذریعے مفاہمت کے لئے مناسب حالات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج معراج محمد خان، حاصل بزنجو اور عوا می حقوق کے لئے قربانیاں دینے والے ترقی پسند ساتھی اس لئے یاد آتے ہیں کہ انہوں نے آئین و قانون کی حکمرانی کا پرچم ہمیشہ سر بلند رکھا۔ انہوں نے نہ صرف فوجی آمروں کو للکارا بلکہ دوغلے ہائی برڈ سیاسی انتظام کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ وہ عوام کے جمہوری اور معاشی حقوق کے لئے مسلسل جد و جہد کرتے رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply