انقلاب اور پاکستان کا تعلیم یافتہ نوجوان

انقلاب اور پاکستان کا تعلیم یافتہ نوجوان
محمود شفیع بھٹی
آج کل انقلاب کا لفظ زبان عام ہو چکا ہے۔ ریاست کا ہر وہ فرد خواہ اسکا تعلق سیاست سے ہو، معاشرت سے، مذہب سے ہو، معیشت سے ہو یاپھر تعلیم سے ہو۔ ان سب کی زبانوں سے صرف ایک لفظ جاری ہوتا ہے” ہم انقلاب برپا کررہے ہیں”۔ لیکن آج تک کسی بھی فرد نے اس کے لغوی و اصطلاحی معنی سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ انقلاب کیا ہے؟ انقلاب کے محرکات کیا ہیں؟ انقلاب کب ممکن ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ انقلاب کسے کہتے ہیں ؟
انقلاب ایک غیر معمولی تبدیلی کا نام ہے،ایک ایسی تبدیلی جس کی مقتدر افراد سے توقع نہ ہو جسکی ریاست سے امید نہ ہو۔اسکوانقلاب کہتے ہیں.انقلاب ایک اجتماعی عمل کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ انقلاب کا تعلق مختلف شعبہ جات زندگی سے بھی ہوسکتا ہے۔ انقلاب سیاست سے لیکر معاشرت تک، معیشت سے لے مذہب تک تمام شعبوں میں برپا ہو سکتا ہے۔لیکن انقلاب ہمیشہ ریاستی جبر اور ظلم کو ختم کرنے کےلئے پنپتا ہے۔
تاریخ دنیا کو اٹھا کر دیکھ لیں۔ جن جن ممالک میں انقلاب آیا وہاں پر ریاستی جبر،ظلم اور بربریت کا راج تھا۔عدم مساوات اور طبقاتی کشمکش عروج پر تھی۔ عوام غربت اور افلاس کی چکی میں پِس رہے تھے۔ کوئی پرسان حال نہ تھا۔ ریاستی ادارے اور حکومتی مشینری کا آپسی گٹھ جوڑ تھا۔ حاکم اور محکوم کا بنیادی فرق بہت زیادہ تھا۔ قانون کا استعمال غریب کے لئے تھا، جبکہ امراء کا سہولت کار تھا۔ عوام ذلیل و خوار ہو رہے تھے۔ لوگوں کے اندر یہ نفرت کا لاوا پکتا رہا ہے،یہ لاوا پکتے پکتے ”آتش فشان” بن گیا اور اسکے پھٹتے ہی عوام کے سمندر نے بڑی بڑی سلطنتوں کو روند ڈالا۔ تاریخ گواہ ہے وقت کا جابر حاکم جب عوام کے رحم و کرم پر آیا تو اسکی وقعت ایک فقیر سے کم نہیں تھی۔
انقلاب فرانس کو اٹھا کر دیکھ لیں، تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھیں۔ انقلاب فرانس کے محرکات کیا تھے؟ جب فرانس کے عوام نے دیکھا کہ فرانس کی حکومت،اشرافیہ،فوج اور عدلیہ ذاتی مفادات کی محافظ بن چکی ہے۔ غریب کی کوئی اہمیت نہیں تو پھر عوام اکٹھے ہوئے، وقت کے طالع آزماؤں کے خلاف یلغار کی اور سپانزے لیزے کے چوراہے گواہ ہیں کہ کس طرح خون بہا، کس طرح استحصالی افراد کی موت واقع ہوئی۔ اگر انقلاب فرانس سے پہلے کی تین دہائیوں کے حالات کا بغور مطالعہ کریں تو پاکستان کے موجودہ حالات سے کافی مماثلت ہے۔
پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہےیہ کہنا بجا ہو گا کہ ہم انقلاب کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ ہمارے ہاں اشرافیہ بہت مضبوط ہوچکی ہے،سفارش کلچر عام ہے۔ان حالات میں ایک غریب تعلیم یافتہ فرد کا اپنے تعلیمی معیار کے مطابق عہدے پر پہنچنا بہت مشکل ہے۔ پاکستان میں سیاسی شعور میں پختگی آرہی ہے اور اسی وجہ سے ہی آج کے تعلیم یافتہ نوجوان کو موروثیت سے نفرت ہوچکی ہے۔ یہ افسردہ نوجوان غربت سے تنگ اس نظام کے خلاف دل میں بغاوت بلند کرچکا ہے۔ اس کے نظریات بہت ہی واضع ہیں، یہی نظریات مزید پختہ ہوتے ہوئے اگلی نسل کو جب منتقل ہوں گے تو انقلاب کے امکانات مزید روشن ہوں گے۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply