فلسفہ سے متعلق تین بڑی غلط فہمیاں/میثم عباس علیزی

  1- فلسفہ ہر بندہ نہیں سمجھ سکتا !
سب سے بڑی غلط فھمی جو فلسفہ سے متعلق ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے وہ یہ کہ فلسفہ ہر عام بندہ نہیں سمجھ سکتا !
حالانکہ فلسفہ دراصل آپ کی بنیادی اور فطری تجسّس کو ایک صحیح جہت (Direction) دے کر نتائج پر پہنچانے کا نام ہے۔ یہ آپ کو جو آپکے ذہن میں اپنے بارے اور کائنات کے بارے میں سوالات اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، اُن کا مُدلّل اور منطقی فریم ورک (Logical Framework )فراہم کرتا ہیں، فلسفہ کرنے سے آپ کی قوتِ تعقل و قوتِ گویائی بڑھ جاتی ہے اور آپ یہ سجمھ جاتے ہیں کہ آپ نے کیا اور کیسے سوچنا ہے۔
مزید یہ کہ فلسفہ ہی سے انسان کی سوچنے کی صلاحیت کو وسعت ملتی ہے۔
مختلف موضوعات پر مختلف پہلوؤں سے سوچنے اور ان کی جان پڑتال پر فلسفہ مجبور کر دیتا ہے۔
یہ کوئی خلائی علم نہیں ہے بلکہ فلسفہ ہر اس سوال کا ممکنہ اور منطقی جواب ہے جو آپ کے ذہن میں ابھرتے ہیں اور جو سوالات آپ قدرت کو دیکھ کر پوچھتے ہیں۔
لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ فلسفہ کو سمجھنے اور فلسفہ پڑھتے ہوئے جتنے بھی فلسفیوں کے افکار و نظریات ہیں ان کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے تجسّس، آزاد خیالی، مستقل مزاجی، حوصلہ اور مسلسل جستجو کا ہونا ضروری ہیں۔
2) فلسفہ کا عملی زندگی میں کوئی کردار نہیں ہے !
دوسری بڑی غلط فھمی جو فلسفہ سے متعلق خصوصاً ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں وہ یہ کہ فلسفہ کا عملی زندگی (Practical Life) میں کوئی کردار نہیں ہے، صرف زبانی کھیل ہے یا صرف ذہنی باتیں ہوتی ہیں جبکہ جتنے بھی علوم آج ہم جانتے اور حاصل کرتے ہیں، چاہے وہ سوشل سائنسس ہیں یا وہ نیچرل سائسس ہیں، جو آج ہمارے ہر عملی پہلوؤں میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، دراصل یہ تمام علوم “فلسفہ” ہی سے نکلے ہیں، یہ تمام علوم یعنی، فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، سوشیالوجی، سائیکالوجی، سیاسیات، وغیرہ، یہ تمام مشاہداتی و تجرباتی اور غیر تجرباتی علوم بالآخر فلسفے کے اصولوں اور منطق پر ہی کام کرتے ہیں۔
فلسفہ دراصل ایک محدود علم کا نام نہیں ہیں بلکہ فلسفہ مخصوص اصولوں، اور منظم و منطقی قوانین کا نام ہیں جن کی بنیاد پر ہم دوسرے تمام علوم حاصل کرتے ہیں۔
آج بھی اگر ہم اِن تمام علوم میں مزید ترقی کرنا چاہے یا نئے اصول بنانا چاہے تو اس کے لئے راہ اور رہنمائی قدیم یا جدید فلسفہ ہی فراہم کرتا ہیں۔
نیز فلسفیانہ افکار و خیالات ہماری اخلاقی اقدار اور اخلاقی اصولوں کو تشکیل دینے میں مدد کرتے ہیں، جو سماجی انصاف اور معاشرے میں امن و انصاف کو فروغ دیتا ہیں۔
فلسفہ ہمیں یہ سمجھ دیتا ہیں کہ کیسے اچھی زندگی گزارے، حقیقی خوشی کیا ہوسکتی ہیں، بہترین سیاسی نظام کیا ہوسکتا ہیں اور ایک معاشرے کو کیسے بہترین انداز سے چلایا جاسکتا ہیں۔
3) فلسفہ پڑھنے سے انسان خدا اور مذہب کا منکر ہوتا ہے !
کچھ لوگ ہیں کہ جس کی بحث ہی خدا اور مذہب کی گِرد گھومتی ہیں۔ کچھ مذہب کی تعصب کی وجہ سے بے بنیاد دلائل کے ساتھ صرف خدا اور مذہب کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں تو کچھ مذہب کی اندھی محبت میں مذہب اور خدا کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہیں کہ وہ فلسفہ ہی کرتے ہیں۔
اگرچہ فلسفہ کا ایک وسیع بحث خدا اور الٰہیات بھی ہیں لیکن اس میں باقاعدہ منظم اصول اور قوانین کے ساتھ ساتھ دوراندیش منطق ہوتی ہیں، جن کے بنیادوں پر اِن موضوعات کی بحث ہوتی ہیں۔
اِس کے باوجود صرف خدا اور مذہب کے بارے میں بحث، پورا فلسفہ نہیں ہیں بلکہ فلسفہ بہت وسیع میدان ہیں۔
فلسفہ کی چار بنیادی شاخیں ہیں جس میں مابعدالطبیعیات (Metaphysics)، علمیات (Epistemology)، منطق (Logic)، اقدار و اخلاقیات (Ethics)، اور جمالیات (Aesthetics) شامل ہیں۔
اسی سے متعلق اور اس کے علاوہ بھی فلسفے میں مندرجہ ذیل اہم سوالات پر بھی منظم اصولوں اور منطقی قوانین کو بنیاد بناکر بحث ہوتی ہیں جیسے؛
۱) کسی شئے کی شکل و صورت اور ہیئت کیا ہیں ؟
۲) مظہر اور جوہر کیا ہیں ؟
۳) وقت کیا ہے، وقت کی نقطۂ شروعات اور نقطۂ اختتام کیا ہے ؟
۴) ہم کیا ہے، ہماری اردگرد جو بھی دیکھائی دیتا ہیں،
یہ سب کیا ہیں ؟
۵) کیا ہماری کائنات حقیقی ہے یا صرف دھوکہ ہے ؟
۶) کیا صرف یہی ایک کائنات ہے یا مزید کائنات کے وجود کا بھی کوئی جواز بنتا ہے ؟
۷) کیا انسان اور کائنات مسلسل تبدیل ہو رہا ہے ؟
۸) روح کی حقیقت کیا ہے، کیا واقعاً روح موجود ہے اور کیا جانوروں میں بھی روح پائی جاتی ہے ؟
۹) کیا کائنات میں سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہیں یا ہر شئے کی کوئی اپنی مرضی بھی شامل ہیں ؟
۱۰) ہم حقیقتاً کیا ہیں، کونسی چیز میری “میں” بناتا ہے ؟
۱۱) خوبصورتی کیا ہے ؟
۱۲) جذبات و احساسات کی اصل حقیقت کیا ہے ؟
۱۳) ہم کیوں اپنی خوشی چاہتے ہیں ؟
۱۴) ہمیں بقاء کیوں چاہیئے، ہم زندہ رہنا کیوں پسند کرتے ہیں ؟
۱۵) موت کیا ہے اور آخرت کی کیا حقیقت ہوسکتی ہے ؟
۱۶) اسٹیٹ اور حکومت کی کب اور کیوں ضرورت پیش آئی ؟
۱۷) زندگی کیا ہے، زندگی کا مقصد کیا ہے، کیا زندگی ارتقاء کا نتیجہ ہے یا زندگی ایک باقاعدہ منصوب بندی کا نتیجہ ہیں ؟
۱۸) سائنس بنیادی طور پر کن اصولوں پر کام کرتا ہیں اور آرٹ و سائنس کا ہماری زندگیوں اور معاشرے میں کیا اثر ہیں ؟
۱۹) موسیقی کیا ہے اور موسیقی کا ہمارے معاشرے میں کیا کردار ہیں ؟
۲۰) علم کیا ہیں، اور علمیات کی ماخذ کیا ہیں ؟
۲۱) اخلاقیات کیا اور غلط و صحیح کے پیمانے کیا ہیں ؟
۲۲) عقل کی کیا حقیقت ہوسکتی ہے ؟
۲۳) کیا حقیقت صرف وہی ہے جو ہم دیکھتے ہیں یا دیکھنے سے ماوراء بھی حقائق موجود ہیں ؟
یعنی بالاخر حقیقت ہے کیا !
اگرچہ سائنس اپنے مطابق کہی جوابات دے چکی ہیں مگر
ان سوالات کا فلسفے میں پھر بھی ایک وسیع پیمانے پر باقاعدہ منظم، مدلل اور منطقی اصولوں پر بحث کی جاتی ہیں۔
نیز اِن سوالات نے ہی انسان کو سوچنے پر مجبور کیا اور انہی سوالات نے ہی ہمیں یہاں تک پہنچایا ہیں اور مزید امید ہیں کہ ہم سب انسان مزید ترقی کرکے، ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں جہاں ٹیکنالوجی اور مادی ترقی کے ساتھ ساتھ پوری انسانی معاشروں میں امن و محبت بھی قائم ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply