پوسٹ پانامہ اور ہمارے خواب۔۔۔اختر برکی

اس کی   بہت سے وجوہات  ہوسکتی ہیں۔۔ اس لئےنہ تو میرے دل میں کسی سیاسی پارٹی کے لیے نرم گوشہ ہے اور نہ ہی کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی کی اندھی تقلید کا قائل ہوں ، میں لوگوں کے رویوں اور افعال کو دیکھتے ہوئے جمہوریت  سمجھاہو  ں اور پاکستان کی تاریخ میں چار ڈکٹیٹرز کے ادوار کو سٹڈی کرتے ہوئے ڈکٹیٹرشپ   سے بھی خوب آشنا ہوں مگر جس جمہوریت کا ڈھول پاکستان میں سیاسی پارٹیاں الاپ رہی  ہیں  اسے میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔

جمہوری رویے اور نظام اگر اچھا ہو اور ادارے آئین کے اندر رہتے ہوئے صحیح کام کر رہے ہوں  تو اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کی روح اور جسم دونوں زندہ سلامت ہیں ۔ جمہوریت کا جسم الیکشنز ہیں اور اسکی روح اچھی طرز حکمرانی اور آیئنی طرز عمل ہیں مگر ہمارے لیڈرز اچھے نظام جمہوریت اور اصلاحات کا تو ذکربار بار کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل کرنے سے عاری ہیں۔اس کی زندہ مثال پانامہ لیکس ہے جس نے دنیا میں ایک ہنگامہ مچایا اور بڑے بڑے لوگوں کو کرسی سے اتروایا مگر جو لوگ نہ مانے یا وہ صبح شام کہتے پھرے کہ مجھے کیوں نکالا؟ توانہیں اپنے گریبان میں دیکھنا چاہیے اور حقیقت کو  تسلیم   کرنا چاہیے۔

لیکن پاکستان میں ہمیشہ سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ طاقتور لوگ دوسروں کا احتساب تو چاہتے ہیں مگر جب تلوار ان کے سر پر لٹکتی ہے تو پھر ان تلواروں کے لئے دوسروں کے سر ڈھونڈتے ہیں ۔جی ہاں میں بات کر رہا ہو سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کی جنہوں نے اپنی نااہلی سے پہلے اور بعد میں اپنے بیانات اور تقریروں میں صرف عوام، انصاف، جمہوریت، ترقی، اصلاحات اور ذمہ داریوں کی بات کی مگر جب وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے اس وقت ان لفظوں , اصطلاحات اور اصل روح جمہوریت کو عملی جامہ کیوں نہیں پہنایا ؟ اب آیئے ان باتوں کا تھوڑا بہت ذکر کرتے ہیں جو پوسٹ پانامہ کے بعد انہوں نے پیش کیں۔۔

غالبا ً 5 اکتوبر کو انہوں نے کہا تھا کہ جو گیم کھیلی جارہی ہے یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے اور سوال یہ پوچھا کہ کیا کورٹ ایک ڈکٹیٹر کو سزا دے سکتی ہے؟
اگست کے مہینے میں کہا کہ جو کچھ ہونے جارہا ہے اس سے میں بخوبی واقف ہوں اور میرے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں اسکو میں بے نقاب کروں گا۔۔

فرماتے ہیں کہ لوگ مجھ سے والہانہ محبت کرتے ہیں مجھے ووٹ دیا ہے اور منتخب کیا ہے میں نے ہمیشہ آئین اور قانون کی بالا دستی کو قائم رکھا۔
مزید یہ کہ دو سو ملیں لوگوں پر چند آدمیوں کی برتری  ختم کردیں گی ۔ اس کا مبہم اشارہ  پانامہ پرسو کرنےوالی جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم کی طرف تھا   مگر  واضح الفاظ میں جے آئی ٹی کو نون کے سپورٹروں اور ترجمانوں نے خوب تنقید کا نشانہ بنایا جن میں مریم اورنگزیب، طلال چوہدری اور دانیال عزیز سرفہرست رہے جنہوں نے  اس ٹیم پر بے شمار تیر برسائے اور مخالفت کا بازار خوب گرمایا بلکہ چمکایا ۔۔

ٹویٹس کی ملکہ نے بھی نیب پیشی کے بعد کہا کہ ہمارے شدید تحفطات ہیں لیکن اسکے باوجود بھی ہم کورٹ میں حاضر ہوئے اور اس بات کو پھر دہرا دیا کہ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ نواز شریف کی صاحبزادی ہیں  اور یہ احتساب کے نام پر ہم سے سیاسی انتقام لیا جارہا ہے جس سے عوام لاعلم نہیں ہے ۔

نون  لیگ کے لیڈران اور ترجمان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہورہی ہے تو  وہ کون لوگ ہیں جن کا نام لینے سے یہ لوگ کترا تے ہیں اورکیوں وہ اتنی بڑی پارٹی کے خلاف سازش کررہے ہیں ؟  جو بھی لوگ  ہیں خواہ ان کا تعلق شخصیات ، سیاسی پارٹیوں، تنظیموں، یا اداروں سے ہے ،  ان کو سر عام ظاہر کرنا چاہیے تھا کیونکہ حکومت بھی ان کی تھی اور قومی اسمبلی میں اکثریت بھی ان کی، اگر  سازشیوں (ان کے مطابق) کو بر وقت بے نقاب کیا جاتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ۔مگر بلی مکمل تھیلے سے باہر نہیں نکلی۔

مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نواز شریف جو سویلین بالادستی، قانون اورانصاف کی بات کرتے ہیں وہ خود کیوں ان اداروں سے ٹکراؤ کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسے شیری رحمان کہہ رہی ہیں کہ وہ جمہوریت کی نہیں اپنی ذاتی جنگ لڑ رہے ہیں اور  انہوں نے اداروں سے ٹکراؤ کی ٹھان لی ہے۔ پچھلے دو ادوار میں ان کا  صدور اوراداروں کے درمیان ٹکراؤ قائم رہا جیسا کہ زاہد حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ‘نواز شریف 1991 میں فوج کے تشکیل کردہ دائیں بازو کے اتحاد، جس کا نام اسلامی جمہوری اتحاد تھا، کے سربراہ کی حیثیت سے پہلی بار وزیراعظم بنے، لیکن جلد ہی صدر غلام اسحٰق خان کے ساتھ ان کے اختلافات کا آغاز ہوگیا کیونکہ وہ تمام طاقت پر قبضہ چاہتے تھے، اختیار کی یہ جنگ ان کے زوال کا سبب بنی اور ایک کمزور بغاوت نے ہی صدر اور وزیراعظم دونوں کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا’۔ دوسرے دور میں انکی فوج کیساتھ کشمکش رہی اور بہت سے سینئر جنرلز کو بائی پاس کرکے مشرف کو فوج کا سربراہ بنایا جو بعد میں انکی رخصتی کا مؤجب بنا اور پوسٹ پانامہ کے بعد انہوں نے تنقید کا راستہ اپنایا اور ریاست کے ستونوں  کو دبے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا جس سے نہ صرف اداروں کی کارکردگی متاثر ہوئی بلکہ عوام میں اشتعال انگیزی اور زیادہ بڑھتی گئی

ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ ثابت نہیں کرنا چاہتا کہ پاکستان میں صرف نواز شریف ہی ہیں جو اس طرح کے کھیل کھیل چکے ہیں بلکہ پاکستان کا ہر دوسرا لیڈر یا آفس بئیرر اپنی ذمہ داریوں کے دوران مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کرتا بلکہ سارا وقت پولیٹکس پولیٹکس کھیلنے میں صرف کر دیتا ہے ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مثال کے طور پر عمران خان نے جب کے پی میں حکومت سنبھالی تو ہم نے یہ یقین کرلیا تھا کہ اب کے پی کا صوبہ اتنی ترقی کرے گا کہ پیرس بھی شرما جائے گا ، یہ بھی یقین محکم تھا کہ یہاں پر ڈیمز بنیں گے، گورنر ہاوس اور وزیر اعلی  ہاوس میں ہم چائے بھی پئیں گے اور کتابیں بھی پڑھیں گے، مگر جو خواب دیکھے تھے سارے چکنا چور ہوگئے کیونکہ ہم نے وہ تبدیلیاں نہیں دیکھیں  جن کا بار بار ذکر ان لوگوں سے سنا تھا بلکہ مزید الجھاو اور کوفت کا سامنا بی – آر- ٹی منصوبے کی شکل میں ہوا۔
یہی وعدے ہم سے ‘اسلامی پارٹیاں’ بھی کرتی رہتی  ہیں کہ ہم اسلامی نظام نافذ کریں گے اور نظام مصطفی کا بول بالا ہوگا، بس پھر کیا ہے جب اسلامی نظام آئے گا تو ہر ایک بندے کو اس کا حق ملے گا، فیصلے انصاف پر ہونگے چوری، شراب اور دیگر خبائث سے معاشرہ پاک ہو جائے گا ہر ایک بندہ سچ بولے گا وغیرہ وغیرہ اب اگر ان پارٹیوں کو دیکھیں جو اسلام اسلام کا نعرہ لگا رہی  ہیں تو سمجھ میں یہ تو آتا ہے کہ اسلام آباد کے لئے تگ و دو ہو رہی ہے مگر اسلام کے لئے نہیں، میں ان لوگوں کا شریعت اور اسلام کے لئے قربانیوں کا اعتراف اس وقت کرتا جب یہ ملک میں بٹے ہوئے فرقوں یا مسلکوں کو دین کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے جس کی اس وقت اشد  ضرورت  ہے
اب منصفی کس سے چاہیں جبکہ ہر لیڈر اپنی  ‘اچھائی ‘ اور خوبیوں کو بیان کرنے میں مصروف ہے۔ جو مختلف طریقوں سے لوگوں کو قائل کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا بھی ان کا ایک بڑا ہتھیار ہے جس کو پارٹی ایک پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتی  ہے اور اپنے نقطہ نظر کو صحیح اور دوسرے کے نقطہ نظر کو غلط ثابت کرنے کے لئے فیک نیوز، فیک تصویروں اور فیک شخصیات کو بطور ٹسٹیمونیل یعنی شہادت کے استعمال کرتے ہیں، اب اگر ذاتی مفادات اور پارٹی کے بیانیے  کو دوام دینے کے لئے دوسرے لوگوں اور پارٹیوں پرکیچڑ اچھالا جاتا ہے تواس سے  نہ صرف ہماری  کم علمی ظاہرہوتی ہے  بلکہ اور بھی ہماری سازشی تھیوریزاور افواہوں پر یقین پختہ ہو جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply