منٹو(کچھ پرانی یادیں )قسط2۔۔آغا شورش کاشمیری

ایک دفعہ میں نے ان کے کسی فیچر کے تعارفی نوٹ پر لکھا کہ منٹو مومن کی طرح سوچتا اور کافر کی طرح لکھتا ہے۔
تو بہت خوش ہوئے،اور کہنے لگے کہ ہا ں! یہ بات تم نے ٹھیک لکھی ہے۔
وہ اس تیزی سے لکھتے تھے کہ جیسے کوئی بدیہہ گو شاعر شعر کہتا ہے،ان آخری برسوں میں انہیں مختلف ضرورتوں نے خاصا پریشان رکھا،ان کا کوئی تیس روپے روز کا خرچہ تھا،جب تک پورا نہ کرلیتے،چین سے نہیں بیٹھتے تھے،اس ضرورت نے ہی انہیں زود نویس بنا ڈالا،انہوں نے ایک ایک نشست میں طویل سے طویل افسانہ ہی ختم نہیں کیا بلکہ بسا اوقات ایک ہی نشست میں ئی افسانوں کا مجموعہ لکھ ڈالا۔۔ناشر کے پاس لے گئے،پیسے کھرے کیے اور دوسرے مجموعے کی تیار میں لگ گئے۔
اُن کا یہ اُصول تھا کہ پہلے مختلف رسائل و جرائد کے پاس علیحدہ علیحدہ قیمت پر افسانے بیچتے،پھر سی ناشر کے پاس ان کا مجموعہ۔۔اور اس طرح ایک معقول رقم پیدا کرلیتے تھے۔لیکن جو کماتے اس کا بہت بڑا حصہ شراب کی بھینٹ چڑھ جاتا،ان ی زندگی انہی اللّے تللّوں کا ایک دلچسپ مرقع تھی۔
میں انہیں تب سے جانتا ہوں جب وہ پہلے پہل لاہور آئے اور باری علیگ کیساتھ چنگڑ محلہ میں لدھیانہ لانڈری کے اوپر تین چار روپے ماہانہ کرایہ کی ایک کوٹھڑی میں رہنے لگے۔یہ ان کے کھلنڈرے پن کا زمانہ تھا۔اردو بک سٹال کے یعسوب الحسن پیر مغاں تھے،انہوں نے اس چنڈال چوکڑی کی معیت ہی میں شاہد و شراب کے تجربے شروع کیے،اورممبئی پہنچ کر تو اُتارو ہوگئے۔
ایک دفعہ نگینہ بیکری میں منٹو کا ذکر ہورہا تھا،یاری مرحوم بھی موجود تھے۔کہنے لگے۔۔
کل تک تو منٹو ہمارے ساتھ محض ایک یار باش تھا،آج وہ سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔
اس کی شہرت پر رشک آتا ہے۔
میں ان سے ممبئی میں ملا تو۔۔۔۔وہ موڈ میں نہ تھے،اور میں بھی کچھ غیر حاضر سا تھا،پاکستان بنا تو،لاہور کی ملاقاتیں دوستانہ سانچے میں ڈھلنے لگیں۔
ترقی پسند کانفرنس گزر گئی،میں نے آزاد چھوڑ دیا،
چٹان نکالا،ایک روز دفتر میں بیٹھا تھا،ٹیلیفون کی گھنٹی بجی،
گھرر۔۔گھرر۔۔گھرر۔۔
شورش دوڑو،دوچار دس آدمی ساتھ لے آؤ۔۔یہ کالیات والے مکان خالی کرانا چاہتے ہیں،لیکن کالیات والوں کی سمجھ میں بات جلد آگئی،کہ منٹو کون ہے۔۔۔۔اوراس سے مکان خالی کرانا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنا ہے۔
جن دنوں میں “اس بازار میں “لکھ رہا تھا،منٹو سے اکثر ملاقات ہوتی،ایک دن مجھے کہنے لگے کہ تم نے بہت دن لگا دیے،اگر تم نہیں لکھ سکتے تو اس نام سے میں لکھوں گا،اور اس بازار ہی پر لکھوں گا۔
میں نے کہا۔۔منٹو صاحب،میرا اور آپ کا نقطہ نگاہ مختلف ہے۔آپ شوق سے لکھیے،میں کوئی اور نام رکھ لوں گا
جب میری کتاب مکمل ہوگئی تو ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا،ان کی خواہش تھی کہ وہ اس پر دیباچہ لکھیں،اور یہ ان کا دوستانہ اخلاص تھا،لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں ان سے ڈرتا تھا،خدا معلوم کہ وہ کیا لکھ دیں۔۔
وہ اپنے نظریات میں بالخصوص طوائف کے مسئلہ میں سخت گیر تھے،ان کا بس چلتا تو عورت کے اس خون کو جو آئے دن فروخت ہوتا ہے،ان سفید داڑھیوں پر مل دیتے جو طوائف کے وجود پر نیزوں کی طرح تن جاتی ہیں۔۔لیکن چوری چھپے اس کی تخلیق کرتی ہیں۔
پار سال قدرت اللہ شہاب پنجاب میں محکمہ صنعت کے ڈائریکٹر تھے،انہوں نے ادیب کی حیثیت سے ایک ادیب کے کرب کو محسوس کیا،اور الاٹمنٹوں کی تجدید کے موقع پرایک برف خانہ میں ان کا حصہ بھی رکھا،منٹو کو دفتری اطلاع ملی تو سخت پریشان ہوئے،برف کانے گئے تو حصہ داروں نے پٹھے پر ہاتھ نہ دھرنے دیا،اور کہا صاحب!اپنے حصے کی برف فروخت کرنے کا خود انتطام کرلو۔۔
ذرا غور فرمائیے!سعادت حسن منٹو ریڑھی پر برف لادے پھر رہے ہیں اور ایک آدھ”ادبی پرچہ”بھی ساتھ ہے۔ایک دن مجھے فون کیا۔۔کہاں ہو،جیتے ہو کہ مر گئے۔۔۔تو ند کیوں بڑھ رہی ہے؟بڑے یہ ہو،اور بڑے وہ ہو۔۔اور تان اس پر ٹوٹی کہ
میرے حصے کی برف بِکوا دیا کرو۔۔۔
لیکن اگلے دن معلوم ہوا کہ برف خانے ہی پر دوحر فبھیج چکے ہیں،شہاب کے ہاں گئے اور اپنا حصہ واپس کرآئے،مجھ سے کہنے لگے
سخت پتھر تھا۔۔۔اٹھ نہ سکا،چوم کے چھوڑ دیا!
موت سے کوئی تین دن پہلے کافی ہاؤس تشریف لائے،ہم معمول کے مطابق منڈلی لگائے بیٹھے تھے،میرا شانہ جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔
اٹھو۔۔میں نے اعراض کیا۔۔ایک گالی،دوگالیاں،تین گالیاں،اور پھر۔۔
یار ایس توں تے تُومر ہی جاندا تے اچھا سی!
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply