تم نے کچھ نہیں دیکھا/تحسین اللہ خان

“بعض اوقات ہمارے کچھ دوست سوشل میڈیا پر مذاقاً  کہہ دیتے ہیں کہ جس نے یہ وڈیو یا نہیں دیکھی اس نے کچھ نہیں دیکھا۔لیکن میں کہتا ہوں کہ جو رات کے وقت آسمان پر نظر آنے والے پانچ چھ ہزار “ستاروں”کو کُل کائنات سمجھتا ہے،اس نے کچھ نہیں سمجھا بلکہ  وہ بڑا نادان اور قابل رحم ہے،کیونکہ یہی ستارے تو کُل کائنات کا 0.00000000000001 فیصد بھی نہیں ہیں، یہ لوگ بہت ہی معصوم ہیں۔مجھے ان کی عقل پر بڑا ترس آتا ہے۔ ہم مسلمان پانچ وقت کی “نماز” میں اللہ اکبر اللہ اکبر کا ورد تو کرتے رہتے ہیں، لیکن اگر ہمیں اس کا مفہوم معلوم نہیں تو اس سے بڑھ کر نادانی کی بات اور کیا ہوگی ؟ حالانکہ یہ تو ملکی وے کہکشاں کے مکمل ستارے بھی نہیں ہیں۔

حقیقت میں ہماری زمین کے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں ، اوپر نیچے تقریباًچار سو بلین ستارے ہیں اور یہ ستارے صرف ملکی وے کہکشاں ہی ہیں اب اگر چار سو بلین ستاروں سے وہ ستارے “نکال” باہر کر دیے  جائیں، جو رات  کے وقت ہم دیکھ رہے ہیں، تو ہمارے ملکی وے کہکشاں پر کتنا فرق پڑ سکتا ہے؟ اب باقی کائنات میں کیا ہے؟ وہ ہم جیسے نالائق لوگوں کے دماغ پروسیس کرنے سے بھی قاصر ہے۔

ہمارے ملکی وے کہکشاں کا ڈائی میٹر ایک لاکھ نوری سال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم روشنی کی رفتار سے چلنے لگیں، تو ہمیں ملکی وے کہکشاں کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانے کے لئے تقریباًایک لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔۔ ہم تو کیا ہماری آنے والی “نسلیں” بھی شاید ایسی اسپیس گاڑی نہیں بنا   پائیں ، جو روشنی کی رفتار سے چل سکیں، کیونکہ اسکے لیے ماس زیرو کرنا پڑے گا۔ ہمارے ملکی وے کہکشاں سے باہر ان دو ہزار ارب “کہکشاں” کو ہم یہاں سے دیکھ تو سکتے ہیں، لیکن وہاں ہم جا نہیں سکتے، صرف ہم نہیں بل کہ ہماری کوئی ٹیکنالوجی بھی وہاں نہیں جاسکتی۔

فلکیات دانوں کا کہنا ہے کہ سورج تقریبا 800,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ملکی وے کہکشاں کے مر کز کے گرد چکر لگارہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف 90 سیکنڈ میں ہم کہکشاں کے مرکز کے گرد اپنے مدار میں 20,000 کلو میٹر کا فاصلہ طے کررہے ہیں۔ یہ تعداد حیران کن تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہمارا “سورج” ملکی وے کے مرکز سے تقریبا ً26000 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔یعنی ہمارے سورج کی روشنی “ملکی وے کہکشاں” کے مرکز تک پہنچتے پہنچتے تقریبا ً26000 سال کا وقت لیتی ہے اور سورج تقریبا ً220 ملین سالوں میں اپنے “مرکز” کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہے۔

یہ جان کر آپ یقینا ً حیران ہوں گے کہ ہمارے سورج نے ملکی وے کہکشاں کے “مرکز” کے گرد ان پانچ چھ ارب سالوں میں مذکورہ بالا رفتار سے چلتے ہوۓ اب تک صرف بیس چکر ہی مکمل کیے ہیں۔۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری ملکی وے کہکشاں کتنی بڑی ہوگی ؟ جبکہ ملکی وے کہکشاں تقریبا ًدو ہزار ارب کہکشاؤں میں ایک معمولی سی کہکشاں ہے۔۔ اگر یہ کہکشاں اچانک غائب ہوگی،جس میں ہم رہتے ہیں، تو اس “یونیورس” پر اتنا ہی فرق پڑے گا، جتنا کہ ہمارا سمندر سے پانی پینے سے پڑ سکتا ہے ، اب اگر کوئی آسمان پر نظر آنے والے پانچ چھ ہزار ستاروں کو کُل کائنات سمجھتا ہے وہ معصوم نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟

میں تقریباً 24 اکٹیلین “سولر سسٹمز” کے ایک چھوٹے سے سولر سسٹم کے ایک چھوٹے سیارے کے ایک چھوٹے ملک کے ایک چھوٹے صوبے کے ایک چھوٹے ضلع کے ایک چھوٹے گاؤں کا ایک بہت “معمولی” سا انسان ہو ں   جس نے ابھی تک اپنا ضلع بھی مکمل طور پر نہیں دیکھا  اور ہم میں سے اکثر کا یہی حال ہے، باقی دنیا تو دور کی بات ہے، لیکن یقین مانیں کہ “فلکیاتی”  مضامین  مجھے یہاں سے اپنے “ساتھ” اتنا دور لے جاتے ہیں کہ میں بتا نہیں سکتا۔میں  ان مضامین  میں جب   محو  ہوجاتا ہوں تو آخر  تک ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں فوٹان کی رفتار سے “کائنات” میں “گھوم” رہا ہوں۔ کبھی ملکی وے کہکشاں میں ہوتا ہوں، تو کبھی M8 کہکشاں کے اندر، کبھی کسی “بلیک ہول” کے اندر خود کو پاتا ہوں،  تو کبھی کائنات سے باہر نکل رہا ہوتا ہوں کبھی نیوٹران ستارے کےقریب جاتا ہوں ، تو کبھی “نیبولہ” کے  آس پاس گھوم رہا ہوتا ہوں ہم ویسے تو کائنات میں گھوم نہیں سکتے  لیکن دماغ مجھے منٹوں میں وہاں لیجاتا ہے جہاں روشنی بھی نہیں جاسکتی۔

تاہم 96 فیصد کائنات ہماری تصوراتی انکھ سے بھی اوجھل ہے کیونکہ 96 فیصد کائنات جو ڈارک انرجی و ڈارک میٹر پر مشتمل ہے۔ اب ڈارک انرجی/میٹر کی حقیقت کیا ہے؟ اور کائنات میں اس کا وجود کیوں ضروری ہے ؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ ناسا سائنس دانوں کے مطابق ڈارک میٹر کہکشاؤں میں موجود ایسا مادہ ہے۔۔ جو روشنی کو منعکس نہیں کرتا،  تبھی تو “کہکشائیں” اپنی موجودہ شکل برقرار رکھی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ناسا ماہرین فلکیات نے ایسے مادہ کی موجودگی کا بھی پتہ لگایا ہے، جس کو ڈارک میٹر کہتے ہیں کسی بھی چیز کو دیکھنے کےلیے ضروری ہے کہ وہ چیز روشنی کا اخراج کرے یا پھر روشنی کو جذب کرے۔ اور اگر کوئی چیز روشنی “Light” کا اخراج کرتا ہو،، تو وہ چیز ہمیں رنگین نظر آئیگی اور اگر روشنی کو “جذب” کرتا ہو، تو سیاہ نظر آئیگی لیکن ڈارک میٹر ایسا مادہ ہے جو ان دونوں میں سے کوئی کام نہیں کرتا ۔

ناسا سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ڈارک میٹر ایسا کچھ بھی نہیں کرتا۔۔ ہاں البتہ ڈارک میٹر کشش ثقل کی ایک بہت بڑی مقدار فراہم کرتا ہے۔  یہ ایک مادہ “پوشیدہ” ہے کشش ثقل فراہم کرنے کی بنیاد پر “ڈارک میٹر” مختلف “کہکشاؤں” کو متوازن رکھے ہوئے ہیں کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ تمام ستارے اور سیارے ہماری کہکشاں کو “چھوڑتے” کیوں نہیں؟

ہم جانتے ہیں کہ کائنات   دن بدن پھیلتی جارہی ہے لیکن پھر بھی ہمارے سیارے اپنی “کہکشاں” کو کیوں نہیں چھوڑتے؟اور کیوں تمام ستارے کلسٹرز یعنی جھنڈ کی شکل میں پائے جاتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ “کشش ثقل” ان تمام چیزوں کو باہم منسلک کیے ہوئے ہے  اور یہ ستارے اور سیارے اپنے جھنڈ سے کبھی الگ نہیں ہو پاتے اور کبھی ایک کہکشاں کا ستارہ کسی دوسری کہکشاں میں نہیں   جاتا۔ ہماری خلا میں گریویٹی کی مقدار بہت زیادہ ہے اور یہ کسی بھی کہکشاں کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اسکے بغیر خود کو “stable” رکھ سکے  اور اس کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بھی کہکشاں اسے خود سے “پیدا” بھی نہیں کر سکتی اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ “گریویٹی” کسی نا معلوم مادہ سے حاصل ہو رہی ہے جو کہ ڈارک میٹر کے علاوہ کوئی دوسری چیڑ نہیں ہو سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کائنات میں جو بھی چیز ہم دیکھتے ہیں ، ایٹم کے ذرات سے لے کر کہکشاؤں، سورج، چاند اور ستاروں تک سب ملاکر محض چار فیصد بنتا ہے جی ہاں آپ نے بالکل ٹھیک ہی پڑھا کیونکہ بقایا “کائنات” یعنی 96 فیصد ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر پر مشتمل ہے۔جسے ہم “دنیا” کی کسی ٹیلی سکوپ سے دیکھ نہیں سکتے۔۔۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیۓ کہ اگر ہمیں ساٹھ کی بجائے ساٹھ کھرب سال عمر بھی ملے تب بھی ہم ان چار 4 فیصد “کائنات” کو صرف دیکھ بھی نہیں پائیں گے گھومنا تو دور کی بات ہے ہماری زندگی بہت ہی کم ہے کاش ہم صرف 0.0000000000000001 فیصد کائنات کو ہی  دیکھ سکتے ،کاش”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply