کس کی مرضی؟۔۔نادیہ عنبر لودھی

پاکستان اور ہندوستان ایک طویل عرصہ تک برصیغر کی شکل میں دنیا کے نقشے پہ یکجا رہے ہیں۔دونوں ممالک کی خواتین کی ایک بڑی تعداد بے شمار مسائل کا شکار ہے ۔ پاکستانی خواتین کو جن مسائل کا سامنا ہے ۔ اس میں کم عمری کی شادی،صنفی امتیاز،غذائی قلت،تیزاب گردی،طبی سہولیات کا فقدان ،دوران زچگی اموات،گھریلو تشدد،غیرت کے نام پہ قتل،جنسی ہرا سگی ، ریپ اور تنگ نظری شامل ہے۔شخصی آزادی کا تصور ہمارے معاشرے میں نا پید ہے۔عورتوں کو زیادہ تر دوسرے درجے کا شہری سمجھا جا تا ہے۔ایک اندازے کے مطابق جہیز کے نام پہ قتل ،تشدد اور خواتین کو زندہ جلانے کے واقعات پاکستان اور ہندوستان میں سب سے زیادہ ہو تے ہیں۔پاکستان کی 70فی صد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔نچلے طبقے کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے اور مراعات یافتہ طبقے میں بھی ایسی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں ۔جہاں مرد کے تشدد کا شکار عورت ہے ،بظاہر ناخواندہ طبقے کی خواتین تشدد کا شکار نظر آتی ہیں -لیکن افسوس ناک اَمر تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے طبقے میں بھی ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں ،جہاں تشدد کی نوعیت بدل جاتی ہے۔اس ملک ِپاکستان کی آزاد عدلیہ کا یہ حال ہے کہ آج تک غیرت کے نام پہ قتل کے باعث کسی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی۔

کسی انسان کو کسی دوسرے انسان جو کہ مسلمان بھی ہے کے قتل کا اختیار کیسے مل سکتا ہے ، مرد کو عورت سے بر تر سمجھنے اور عورت پہ مالک ہو نے کی سوچ نے اس معاشرے  کو تنگ نظری اور جہالت کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے ۔

تیزاب گردی عام ہے ،اور جب تنگ نظری کی مثالیں خواندہ طبقے میں نظر آئیں تو ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے۔

40 فی صد عورتیں ایسی ہیں جو کہ جسمانی ذہنی اور جنسی تشدد کا شکار ہونے کے باوجود آواز نہیں اٹھاتیں۔ نہ ہی کسی فلاحی یا حکو متی ادارے سے مدد لیتی ہیں ۔ حالات کی بہتری کی امید پہ یہ سب کچھ سہتی رہتی ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں بعض اوقات شوہر کا تشدد عورت کو خود کشی جیسا سنگین راستہ اختیار کر نے پہ مجبور کر دیتا ہے۔

سکولوں ، کالجوں اور دفتروں میں خواتین کو ہراساں کر نا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے ، ہر وہ عورت جو گھر سے باہر قدم نکالتی ہے مرد کے لیے آسان ہدف ہے ،کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے سب سے پہلے تو اس کو تسلیم کر نا ضروری ہے۔ حکومتی اور سماجی سطح پہ عورتوں کے مسائل کو سمجھنے ،قوانین بنانے اور ان  قوانین پر عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔خواتین کے مسائل پہ خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات کی تربیت کی بھی ضرورت ہے ۔ ہمارا نصاب بھی ایساہو نا چاہیے جو مرد اور عورت کے درمیان مساوات پر زور دے۔خواتین کو برابری کے حقوق صرف اسی صورت میں مل سکتے ہیں جب وہ معاشی طور پہ اپنے پاؤں پہ کھڑ ی ہوں اس کے لئے تعلیم از حد ضروری ہے خواندگی کی بلند سطح ہی عورت کے مسائل کاحل ہے –

میرا جسم میری مرضی ،جیسا نعرہ لگانے والے بھی عورت کے مسائل کا حل ہی ڈھونڈنا چاہتے ہیں یعنی کہ عورت کو خودمختاری حاصل ہو ،خودمختاری جب مذہب سے متصادم ہوگی تو وہ ایک اسلامی جمہوریہ میں قابل عمل نہیں ہوسکتی ۔

میرا جسم میری مرضی ایک ایسا نعرہ ہے جو کہ عقل و دانش سے متصادم ہے ،انسان جبر اور قدر کے فلسفے کے تحت زندگی گزارتا ہے ،جتنا اس کو اختیار حاصل ہے، اس میں انسان اپنے جسم پر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا ۔

اب سوال یہ ہے کہ انسانی جسم پر کس کی مرضی چلے گی –

Advertisements
julia rana solicitors

انسانی جسم ایک قالب ہے جو کہ دنیا کی زندگی گزارنے کے لیے ہم انسانوں کو عطا کیا گیا ہے ،میرا جسم میری مرضی جیسا نعرہ لگانے سے نہ تو عورت کے مسائل حل ہوں گے،نہ  اس کو مساوی درجہ ملے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply