ایدھی، سعودی، زرولی اورمیری تین گزارشات۔۔۔سلیم جاوید

آدمی سفر میں کھلتا ہے- اپنے سعودی کولیگ “انجینئر انس” کے ساتھ طویل سفر ہوا توگپ شپ لگی،باقی بات کا خلاصہ، اسی کی زبانی سنیے-

” شادی کے بعد کئی برس تک میری اولاد نہ ہوئی،میری بیوی میری ماں کی بہت خدمت گزار تھی چنانچہ اسکی طرف سے دوسری شادی کی رضامندی باوجود، میری ماں کی طرف سے اجازت نہیں تھی- خود میں نے اللہ پہ چھوڑرکھا تھا،کئی برس بعد ہم نے حکومت کو”لے پالک” بچے کیلئے درخواست دی جسکے لئے ایک الگ محکمہ ہے،درخواست دہندہ کے کوائف، آمدنی، کیریکٹر بارے کئی ماہ خفیہ چھان بین کے بعد منظوری دی جاتی ہے ورنہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ” ریاض” سے “امر” نہیں آیا،بچہ حوالگی کی بھی ایک شرط ہے۔اگرعورت کی بہن کے ہاں دودھ ہو( یعنی تازہ ولادت کی ہو) تو لڑکا دیا جائیگا اور مرد کی بہن کے ہاں دودھ ہو تو لڑکی(محکمہ کے نمائندہ کی گواہی میں پانچ بار رضاعت کرانا ہوگی)۔۔”سٹاک” میں موجود”لاوارث” بچوں میں سے وہی بچہ دیا جاتا ہے جسکے نین نقش، گودلینے والی عورت سے ملتے جلتے ہوں- یہ بچے کہاں سے آئے؟ اس بارے نہ تووہاں سٹاف کو معلوم ہوتا ہے اور نہ پوچھنے بتانے کی اجازت ہوتی ہے- سعودی نظام کے تحت، ہرشہری کا چارلفظی نام درج ہوتا ہے-( آخری دونام میں ایک دادا کا اور ایک فیملی نیم)-گود لینے والے والدین، صرف پہلے دونام تبدیل کرسکتے ہیں- بچہ لیتے ہی ہزار ریال مہینہ وظیفہ شروع ہوجائے گا جوکہ سکول میں داخل کرانے پربڑھ جائے گا- وقتاً فوقتاً حکومتی اہلکار، بچے کا پتہ کرنے آتے رہیں گے- ایسے بچوں کی فائل حکومت کے پاس رہے گی اور کسی بھی جاب ویکنسی کی صورت میں پہلی ترجیح، انہی بچوں کو حاصل ہوتی ہے-”

آگے کی بات یہ ہے محترم انس نے دوسرا بچہ بھی گود لے لیا ہے- کہنے لگا کہ پہلا بچہ لینے کے دوسال بعد ایک سرجن نے خوشخبری سنائی کہ آپکی بیوی کو بارآور کیاجاسکتا ہے-ہم میاں بیوی نے باہمی مشورے سے مگرانکار کردیا کہ کہیں، اپنا حقیقی بچہ آنے کے بعد، اس یتیم کے ساتھ محبت میں فرق نہ آجائے- مگریہ بچہ خود کواکیلا محسوس کرتے ہوئے بھائی کا مطالبہ کیا کرتا تھا توجب آٹھ سال کا ہوا توہمارے لئے دوسرا لے پالک بھی منظور ہوگیا –اب دونوں بھائی خوش ہیں-میں نے جناب انس کو اس یتیم پروری پرداد دی-کہنے لگا اسکا سبب ایک پاکستانی ڈاکٹر بنا جسکی ویڈیو، یو-ٹیوب پردیکھی تھی- وہ پاکستانی ڈاکٹر، امریکہ میں جاب کرتا ہے، اسکے اپنے تین بیٹے ہیں مگرایک حبشی بچہ گودلیا تاکہ یتیم کی پرورش کا ثواب حاصل ہو-

آمدم برسر مطلب-

کراچی کے ایک شیخ الحدیث، مفتی زرولی خان نےعبدالستار ایدھی کی موت پرخوشی کااظہار کرتے ہوئے انہیں ملحد وزندیق قرار دیا تھا- ایدھی مرحوم کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے پنگھوڑے متعارف کروائے تھے کہ کسی بھی وجہ سے نومولود بچوں کو قتل کرنے اور کچرے میں پھینکنے کی بجائے، اس پنگھوڑے میں ڈال دیا جائے تو ایدھی والے انکی پرورش کرلیں گے- اس پرمفتی زرولی خان کا استدلال تھا کہ “ایدھی، اس طریقے سے معاشرے میں زنا کو فروغ دے رہا ہے”- یا للعجب-

سعودی عرب میں کسی خاندان میں کوئی بچہ یتیم ہوجائے تو وہاں اسکو چچا، ماموں سنبھالاکرتے ہیں- مذکورہ بالا محکمہ کے پاس بچے جہاں سے بھی آئے مگر کیا یہ سعودی محکمہ بھی زرولی خان کے مطابق حرام کے بچوں کی حوصلہ افزائی کررہا ہے؟- جناب ایدھی نے اکیلے وہ کام کیا تھا جو ایک مضبوط معیشت کی حامل اسلامی حکومت کا ایک پورا محکمہ کررہا ہے-

غضب یہ کہ مرحوم ایدھی صاحب کی نفرت میں اسلامسٹس حضرات نے سوشل میڈیا پربڑی نامعقول مہم چلائی تھی- (ایسے ٹرینڈزبھی چلائےگئے کہ ” “میرا مذہب، انسانیت نہیں، اسلام ہے”)- ہائے افسوس-

دیکھیے، قرآن، رسول اور کعبہ تینوں کو “ھدی اللناس” کہا گیا-“الناس” میں آدم کا ہر بچہ اور بچی شامل ہے-پس نبی نے فرمایا کہ انسانوں میں سے بہترین وہ ہے جو انسانوں کے لئے نفع مند ہو-(خیر الناس من ینفع الناس)- سب انسانوں میں مولوی حضرات بھی چونکہ شامل ہوتے ہیں تو ان سب میں بہترین وہ آدمی ہے، جو لوگوں کے لیے  نفع کا ذریعہ بنتا ہے- یہ نفع، وضو نماز سکھانے کا نہیں بلکہ یہیں دنیاوی تکالیف میں معاونت کرنے کا ہے-اسکا فیصلہ خود رسول بھی اپنی زندگی میں کر گئے-مضمون کی طوالت کے ڈر سے صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں- حضور کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی گئی کہ دن کو روزے رکھتاہے اور رات مصلے پہ گذارتا ہے وغیرہ۔۔پوچھا، اسکے اونٹ کی خبرگیری کون کرتا ہے؟ کھانے پینے کی ترتیب کس کے ذمے ہے؟ بتایا گیا کہ اسکا دوسرا بھائی کرتا ہے جو اس سے کہیں کمتر عبادت گزار ہے-فرمایا، وہ دوسرا، اس پہلے سے کہیں آگے بڑھ گیا ہے-

اپنا عقیدہ تو یہی ہے کہ اسلام اور انسانیت ایک ہی چیز کے دونام ہیں اور اس میں تفریق کرنے والا، یا تو کم فہم ہوگا یا پھر کج فہم –

بہرحال ، مفتی زرولی خان صاحب کے اس رویہ پر خاکسار، مندرجہ ذیل تین نکات پر مشتمل ایک تجزیہ پیش کرنا چاہتا ہے-

1- تنگ نظر ملائیت ایک ناسور ہے:

پاکستانی سماج کا سب سے بھیانک پہلو، تنگ نظر ملائیت ہے- ستر سال تک بے لوث سماجی خدمات کرنے کےعوض، پاکستان کے ہر طبقے نے، ایدھی صاحب پرقلبی عقیدت کے پھول نچھاور کیے تھے، سوائے معدودے چند تنگ نظر ملّاؤں کے-

اگرچہ ایدھی صاحب کی موت پرپاکستانی قوم کےغم کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرنے والی تنگ نظر ملائیت، سوسائٹی میں خاصی عریاں ہوئی ہے-مگر شہروں میں رہنے والے، آسودہ حال لوگ ، دیہات کے کم فہم ملّا کی خون آشامی سے ابھی بھی پوری طرح واقف نہیں-وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ملّا لوگ، فتوے نما گالیاں دے دیتے ہیں اور بس-نہیں بھائی! گلی گلی میں پھیلے فتویٰ فروشوں نے پاکستان کا کیا کباڑہ کردیا، اس کا آپ کو اندازہ نہیں-ملّا کے زیر اثر،ممتاز قادری کا معاملہ ہویا چک جھمرہ میں اپنا ہاتھ کاٹنے والے بچے کی کہانی، یہ تو میڈیا میں جگہ پا چکے مگر میڈیا کی آنکھوں سے دور، کئی بےگناہوں کا خون نیم ملائیت کے سر ہے-پچھلے دنوں ہمارے ایک کولیگ، پاکستان سے عید کی چھٹی گزار کر آئے توبتایا کہ چک رام داس کے قریب کسی گاؤں میں، دو معصوم بچیوں نے روزہ رکھا تھا-گرمی اور پیاس سے بے حال ہوگئیں مگر مسجد کے مولوی نے روزہ توڑنے سے منع کردیا-بچیاں مارے پیاس کے شہید ہوگئیں-جنازے پر کوئی بڑے عالم بھی آئے جنہوں نے مولوی کی غلطی کی نشاندہی کی-جس پر بچی کے ورثا نے اشتعال میں آکر ، مولوی کو جاکر قتل کردیا-ایسے کئی کیس گاؤں دیہات میں بکھرے پڑے ہیں جہاں کج فہم یا کم فہم مولویوں کی وحشت بال کھولے رقص کناں ہے-اس مسئلے کو اب سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے-حکومت تنہا کچھ نہیں کرسکتی جب تک سوسائٹی کا باشعور طبقہ ساتھ نہ دے-ہر کج فہم مولوی کا ایک حلقہ اثر ہوتا ہے جو اسی کی طرح جنونی ہوتے ہیں-یہ صرف حکومت یا سماج کیلئے ہی نہیں، خود سنجیدہ علمائے کرام کیلئے بھی خطرہ ہوا کرتے ہیں-
پہلے میں سمجھتا تھا کہ گاؤں دیہات کے اَن پڑھ مُلا ہی نفرت کا بیوپار کرتے ہیں مگر ایدھی صاحب کی وفات نے کئی مغالطے دورکردیئے جب بریلوی مکتبہ فکر کے معتدل عالم دین نے بھی ایدھی کا جنازہ پڑھانے سے پہلو تہی کی-( نہ جانے ایک مسلمان کا وہ کونسا جرم ہوتاہے جس کی بنا پر وہ نماز جنازہ کا مستحق بھی نہیں ٹھہرتا؟)- مفتی منیب الرحمان اور مفتی زرولی خان جیسے نام، ملّائیت کی فہرست میں نہیں آتے بلکہ انہیں علمائے دین کی صف میں شمار کیا جاتا ہے-

2- اہل فن کی کسی ایک کمزور بات کی وجہ سے انکومکمل مسترد نہیں کرنا چاہیے:

مفتی زرولی صاحب مجھے اسی دن سے ناپسند ہیں جب سے ان سے منسوب یہ جملہ سنا کہ مولانا فضل الرحمان کی مخالفت کوئی حرام کا نطفہ ہی کرسکتا ہے-خود میں نے 1995 میں انکے مدرسہ احسن العلوم میں انکے منہ سے حکیم اختر بارےغیرمناسب جملے سنے ہوئے ہیں- بعد میں پتہ چلا کہ موصوف نے مولانا طارق جمیل سے لیکر مفتی تقی عثمانی تک، کسی کو بھی تمغہ دشنام سے محروم نہیں چھوڑا(ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں)-

لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ کسی بھی شعبہ کا کوئی بھی معروف ماہر ہو، ہوتا تو وہ انسان ہی ہے-گاہے اسکی طبیعت میں اشتعال آجاتا ہے- ممکن ہے کہ اسکی معلومات کسی بارے غلط ہوں اور کسی ایشو کوالگ زاویئے سے دیکھ رہا ہو- ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض نمایاں افراد،کسی خاص احساس کمتری کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن جایا کرتے ہیں جسے انکی بیماری سمجھ کر برداشت کرنا چاہیے-

بات یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے لئے بزعم خود ایک مقام متعین کردیا کرتے ہیں جس سے محرومی کی صورت، اپنے محسود کو گالیاں دینے لگتے ہیں-یہ صرف علماء پہ موقوف نہیں -ہماری اردو صحافت کا ایک منفرد کالم نویس بھی اپنے ہم عصر کالم نگاروں کو “بھاڑے کے ٹٹو” کہتا رہتا ہے-اسی طرح، ہمارے ایک محترم ایٹمی سائنس دان نے بھی اپنی ذات کا وہ آئینہ خانہ بنا رکھا ہے جسکی ہر دیوار میں انکو صرف اپنا ہی عکس نظر آتا ہے-لیکن اس خامی کے باوجود، نہ تو مذکورہ کالم نویس کے فن کا انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی محترم سانسدان کے ہنر کا-ایسے ہی مفتی زرولی خان، اپنے شعبے کا ایک بڑا نام ہے-

اس لئے توازن کا تقاضا یہ ہے کہ کسی ماہر فن کی کسی اور بشری کمزوری کی بناپر، اسکو اسکے جائز مقام سے محروم نہیں  کرنا چاہیے- مفتی زرولی ، بطور انسان جیسا بھی ہو، علوم قرآنی میں بہرحال ایک نام ہے- اس لحاظ سے بہرحال، احترام کا حقدار ہے-

3- تنگ نظرملائیت کا علاج کیا ہے؟-

اگلی گزارش یہ ہے کہ کم فہم ملائیت کے ناسور کا تمسخر اڑانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ اس مذہبی بلیک میلنگ کے ناسور پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے-

اگرآپ واقعی انسانیت کیلئے مخلص ہیں اورفتنہ پرور ذہن نہیں رکھتے تو یہ حقیقت ذہن نشین کرلیجیے کہ نہ تو مولوی یا مدرسے کو بالکل ختم کیا جا سکتا ہے، نہ ہی پاکستانی عوام کو مولوی سے جدا کیا جاسکتا ہے –( اور نہ ہی یہ کرنا چاہیے کہ مذہبی طبقہ، کسی بھی سوسائٹی میں ایک شاک آبزرور کا کام دیتا ہے)-

کرنے کا کام یہ ہے کہ گلی محلے کے فتویٰ فروشوں کو ایک مرکزی نظام کے تحت لانا چاہیے-دیگر اسلامی ممالک میں سرکاری سطح پر ایک مفتی اعظم ہوا کرتا ہے-ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ یہاں جمہوری نظام ہونے کی وجہ سے،ہم پر کوئی شاہی مفتی اعظم مسلط نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ کا منتخب کردہ ادارہ یعنی اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے جسکے ارکان کی ایک مقررہ مدت ہوا کرتی ہے-

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ہی نہیں، عوام بھی اس ادارے کو تقویت دیں جوکہ اسکی تکریم کی صورت ممکن ہے-یہ مضبوط ہوگا تو گلی محلے کے مفتیان سے جان چھوٹے گی- اپنے سیکولراحباب کو منع کرتا ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا تمسخر اڑا کر، آپ پرچون فتویٰ فروشوں کو ہی مضبوط کریں گے جن کے ساتھ کسی منطقی مکالمے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی- یہ کونسل، چاہے گدھے کے گوشت کو حلال اور مرغی کو حرام ہی قرار دے دے مگر یہ فردی فتویٰ جات سے بہتر ہے کیونکہ اس فورم پہ ڈیبیٹ کی جاسکتی ہے-خاکسار کے خیال میں، اسلامی نظریاتی کونسل کا دائرہ کار بڑھایا جائے اور اس ادارے کے علاوہ، فردی فتوی ٰسازی پہ پابندی لگادی جائے-

Advertisements
julia rana solicitors london

خلاصہ میری گزارشات کا یہ ہے کہ پاکستانی سماج کی یکجہتی اور قومی امن کیلئے، پارلیمانی جمہوری نظام کو مضبوط کیا جائے-اپوزیشن کا ساتھ دینا بھی جمہوری نظام کی مدد کرنا ہی ہے مگر ایسے لوگوں سے اجتناب کرنا بہتر ہے جو غیر جمہوری قوتوں کے دست وبازوبنے ہوں- (پاکستان میں ایسے لوگ ڈھکے چھپے نہیں ہیں چاہے وہ خود کو سیاسی جماعت قراردیں)- ایدھی مرحوم، جاتے جاتےبھی دو ایسے آدمیوں کی شناخت کراگئے ہیں-تاریخ بتائے گی کہ یہ بھی ایدھی صاحب کا پاکستانی قوم پر ایک اور احسان تھا-(کیا آپکو ایدھی مرحوم کا وہ انٹرویو یاد ہے جب وہ پاکستان سے بھاگ کرلندن چلے گئے تھے اور کہا تھا کہ دوآدمیوں نے انکو سیاسی طور پرساتھ نہ دینے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی تھی- ایک ان میں مرحوم جرنیل تھا-دوسرے بارے اسی انٹرویو سے معلوم کرلیجیے- یو-ٹیوب پہ کہیں پڑا ہوگا)-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply