مجھے یاد ہے(قسط نمبر 23)- حامد یزدانی

جہاں والدصاحب کی یاد میں تقریبات اور خصوصی اشاعتوں کا سلسلہ پرخلوص انداز میں آگے بڑھ رہا ہے وہاں ان کے احباب کی جانب سے ان کی یاد میں شعری ہدیہ ہائے محبت بھی سامنے آرہے ہیں۔ اُن کے شاگرد اور ممتاز گو شاعر جناب رفیع الدین ذکی قریشی اُن کی زندگی پر نظر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

سینے میں لاکھ گردشِ دوراں کے داغ تھے

پھر بھی فراخ دل تھے وہ روشن دماغ تھے

اپنی مثال آپ تھے یزدانیِ رشید

وہ ایک انجمن تھے، سخن کا چراغ تھے

٭٭٭٭٭

معروف صحافی اورشاعر محسن فارانی یزدانی صاحب کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اُس مردِ خوش خصال کا کیسے کروں بیاں

ویراں ہے سوچ، عجز کے گرداب میں زباں

رحلت سے ان کی، شعر کی دنیا اُجڑ گئی

دنیا میں ان سے لاکھ سہی وہ مگر کہاں

٭٭٭٭٭

صاحبِ طرز شاعر رشید کامل  صاحب کی یہ نظم بھی نظر سے گزری ہے:

ہمارے شاہ جی

سوچ رہا ہوں کیا ہوئی شام و سحر کی روشنی

کون سے دیس جا بسی میرے نگر کی روشنی

خواب و خیال ہوگئی تیس برس کی دوستی

گریہِ درد بن گئی لمبے سفر کی روشنی

لوح و قلم ہیں غم زدہ، شعر و سخن اداس ہیں

جیسے تمہی سے تھی یہاں علم و ہنر کی روشنی

بزم سخن میں ہرطرف برسوں رہے گی آب و تاب

چھپتے نہیں چھپائے گی خونِ جگر کی روشنی

دنیا میں ان کی نعت کا پھیلے گا نور اس طرح

جیسے گھنی فضاؤں میں سچی خبر کی روشنی

علم تھا تم کو شاہ جی، تم ہی چراغِ خانہ تھے

گھر ہی اجڑ کے رہ گیا، لے گئے گھر کی روشنی

سب کے لیے تھے بے ضرر،سب کے لیے تھے معتبر

رہتے تھے سب کی آنکھ میں جیسے نظر کی روشنی

پھولے پھلے گا خُلد میں،اس پر خدا کی رحمتیں

چھوڑ کے جائے جو شجر، اپنے ثمر کی روشنی

کہنے کی بات مِیر نے ٹھیک کہی تھی شاہ جی

لمحے کی ہے یہ زندگی، جیسے ’شرر‘ کی روشنی

٭٭٭٭٭

صاحبِ دیوان شاعر ڈاکٹر تبسم رضوانی نے اپنے دکھ کا اظہار کچھ اس انداز سے کیا ہے:

آہ، یزدانی جالندھری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی سنا گیا مجھے یہ نوائے غم

دنیا سے اور اٹھ گئے اک صاحبِ قلم

باتیں دہن دہن ہوئیں رنج و ملا ل کی

گویا جدائیوں سے ہوئی آنکھ آنکھ نم

وہ صاحبِ خلوص و مروت، وہ مہرباں

احباب کی نگاہوں میں ہر لحظہ محترم

وہ صبر و شکر اور حلیمی کا شاہکار

تھامے ہوئے تھے ہاتھ میں احساس کا عَلَم

پاکیزہ ان کے فکر و تخیل سدا رہے

رکھتے تھے سیدھی راہ پہ اپنے سدا قدم

اولاد کے لیے تھے بہت ہی شفیق باپ

اور دوستوں سے شیر وشکر کی طرح بہم

ان کا ضمیر ایسا قناعت پسند تھا

لاتے نہ تھے زباں پہ شکایاتِ بیش و کم

نعت و غزل کہ نظم و رباعی ہو یا قطعہ

ہر ایک صنفِ شعر کو کرتے رہے رقم

رحلت کے واسطے مجھے یہ آئی ہے صدا:

’’باغِ بہشت میں گئے یزدانیِ حَکَم ‘‘

٭٭٭٭٭

انھی باتوں اور یادوں کی تمازت حاصل کرنے جرمنی سے واپس پاکستان گیا تھا اور انھی کی کرنوں کو اپنی فکر کی روشنی بنائے نئی صدی کے آغاز پر میں اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ اِدھر کینیڈا چلا آیاہوں۔ دل چسپ بات یہ کہ رختِ سفر باندھا تو جرمنی کے لیے تھا مگر کّھلا یہاں ہے کینیڈا میں۔

 تقویمِ وقت میں صدی بدلی ہے اور ہماری زندگی بھی یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔ ایک قطعی انجان اور نئے ملک کو وطن بنانے کے مراحل آسان نہیں ہوتے۔ خوش بختی یہ ہوئی کہ گورنمنٹ کالج سے شاعر دوست افضال نوید کی وساطت سے ریڈیو والے ارشاد بھائی سے ملاقات ہوگئی ہے جو چند برس امریکا گزار کر اب مستقلاً کینیڈا آبسے ہیں۔ اُن سے ملاقات نے ٹورنٹو میں لاہور کی مہک جگا دی ہے مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلتا۔ ارشاد بھائی بعض نجی مجبوریوں کے سبب کینیڈا کو خیرباد کہہ گئے ہیں۔

٭٭٭٭٭

 ایک طویل خاموشی کے بعد یادوں کا یہ سلسلہ ڈاکٹر خالد سہیل اور طاہر اسلم گورا کے توسط سے ازسرِ نو بحال ہونے لگا ہے ۔ طاہر نے میرے شعری مجموعے رائٹرز فورم کے روح و رواں منیر پرویز شامی صاحب کو پہنچائے اور انھوں نے ٹورنٹو میں ایک ادبی شام میرے نام کردی ہے جس میں لاہور سے خالد اقبال یاسر صاحب بھی شریک ہیں اور یہاں سے  نسیم سیّد،نزہت صدیقی اورامیرحسین جعفری بھی شامل ہیں۔

پروگرام کے دوران میں بھی اور بعد ازاں بھی والد صاحب کی یادیں تازہ ہوتی ہیں۔ یہاں پرویز پروازی صاحب سے پہلی بار ملتا ہوں جو بتاتے ہیں کہ وہ والدصاحب سے ملنے اکثر اردو ڈائجسٹ کے دفتر جایا کرتے تھے۔ یوں یادوں کے دیئے  پھر سے دشتِ وقت میں روشن ہونے لگے ہیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

                                                                                 لاہور سے شائع ہونے ادبی جریدہ ’’فانوس‘‘ کے مدیران جناب خالد علیم اورجناب شکور طفیل نے جریدہ کے بانی جناب قدیر شیدائی کی قائم کردہ روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ادبی شخصیات کے اعترافِ فن کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس سلسلہ کی ایک کڑی ’’فانوس’’ کا یزدانی جالندھری نمبر ہے جو یہاں کینیڈا میں مجھے موصول ہوا ہے۔ اس کے مندرجات پر نظر دوڑاتا ہوں تو کیسے کیسے پرخلوص عکس روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کیسی کیسی ہستیاں سامنے آکھڑی ہوئی ہیں جو اپنے ایک دوست اور مہربان بزرگ کے فن و شخصیت کے دمکتے پہلوؤں کو ہم پر آشکار کررہی ہیں۔ نگاہ خلوص و مروت کے ترجمان ایک ایک نام پر ٹھہر ٹھہر جاتی ہے۔ جناب خالد علیم کے اداریہ ’’شعائیں‘‘ سے آغاز ہوتا یہ خصوصی شمارہ اپنے دامن میں محبت کی کتنی ہی کرنیں سمیٹے ہوئے ہے۔ ذرا دیکھیے۔۔۔میرزا ادیب، اے حمید، عبدالقدیر رشک،عبدالمجید قریشی، رشید کامل اور اظہر جاوید یزدانی صاحب کی شخصیت پر اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈال رہے ہیں۔ اب باب میں میرے اس یاد نامہ ’’مجھے یاد ہے‘‘ کا بھی ابتدائی حصہ شامل ہے جس کا تسلسل جناب احمد رضوان کے توسط سے ویب سائٹ ’’مکالمہ‘‘ پر جاری ہے۔

زخمی کانپوری اور یونس ہمدم یزدانی صاحب کی فلمی صنعت سے وابستگی کے دنوں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔نظر زیدی، خالد احمد اور عرفان باری کے کیے انٹرویوز بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید، حفیظ تائب، جعفر بلوچ، راجا رشید محمود اور طارق کامران جنابِ یزدانی کی نعت نگاری پر رقم طراز ہیں۔ احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر سعادت سعید، اصغر ندیم سید، نوید صادق اور شاہینہ سلیم شاہین یزدانی صاحب کے فن شعر گوئی کا تجزیہ کررہے ہیں۔ آخر میں ’’ادبِ لطیف‘‘ اور ’’دیہاتی سماج‘‘ کے اوراق کے عکس بھی بطور تحفہ شائع کیے گئے ہیں۔

یہ شمارہ میرے لیے ایک خصوصی تحفہ ہے جسے میں ایک قیمتی اثاثہ کے طور پر محفوظ کررہا ہوں۔

٭٭٭٭٭

کینیڈا سے چند ایک بار پڑوسی ملک امریکا بھی جانا ہوا ہےجہاں میرے بڑے بھائی سید شاہد یزدانی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مقیم ہیں۔ یہ ادبی دورے نہیں ۔ بس ذاتی سے سفر رہے مگر شاہد بھائی نیویارک میں بپا دوایک محفلوں میں بھی لے گئے اور اپنے ادبی و صحافتی احباب سے بھی ملایا۔ یہاں بھی ہم بھائیوں کی عزت افزائی کا وسیلہ قبلہ والدِ گرامی کی ان تھک تخلیقی سفر اور ان کی شخصیت کی دل کشی ہی ٹھہری۔سبھی مجھے ان کے اخلاق اور خلوص کے معترف دکھائی دیئے۔ اور ہر ہر قدم پر یہ خیال اور فکر میرے دامن گیر رہے کہ کیا ہم اس عظیم امانت کو سنبھال پائیں گے کو والدصاحب ادب و محبت کے باب میں ہمیں وراثت کرگئے ہیں۔ اس ضمن میں دعا اور کوشش ہی کرسکتے ہیں۔ سو، کریں گے۔

٭٭٭٭٭

میں انٹرنیٹ پر نظر دوڑاتا ہوں تو جا بجا والدصاحب کی یادوں کے اوراق چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے حالاتِ زندگی، ان کے فکر و فن پر مضامین، ان کی شاعری سے انتخاب، سوشل میڈیا پر ان سے مختص پیجز کے ساتھ ساتھ معروف ویب سائٹ ’’ریختہ‘‘ پر اب والدصاحب کی کم و بیش دس کتابیں اپ لوڈ ہوچکی ہیں۔ کچھ ابھی تک نایاب ہیں۔

٭٭٭٭٭

لاہور سے میرے ہمدمِ دیرینہ جناب خالد علیم نے یہ خوش خبری سنائی ہے کہ مجلسِ ترقی ادب کی جانب سے انھیں ’’کلیاتِ یزدانی جالندھری‘‘ مرتب کرنے کی ذمہ داری تفویض ہوئی ہے۔ اور دوسری جانب کراچی میں ادارہ رنگِ ادب کے مہتمم شاعر و ادیب شاعر علی شاعر صاحب والد صاحب کی نثر کی کتابوں کو ایک ایک کرکے شائع کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یزدانی صاحب کے فن و شخصیت پر ایک مبسوط کتاب بھی مرتب کررہے ہیں جو جلد زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر محبانِ یزدانی کے ہاتھوں میں ہوگی، ان شااللہ۔

٭٭٭٭٭

میرے لیے یہی امر باعثِ فخرو طمانیت ہے کہ ان سب اشاعتی مراحل میں میرا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے۔اور محبت کی  روشنی بکھیرتے اس قافلہ میں میں بھی شریک ہوں جس کے حدی خواں یزدانی جالندھری ہیں۔ جو یہ گنگناتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں:

بکھر رہی ہے محبت کی روشنی ہر سُو

اُڑا رہا ہے کوئی صورتِ غبار مجھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

٭٭٭٭٭

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply