نیک کام۔۔۔۔ناصر خان ناصر

اے بہو رانی! ہم آویں؟
آئے ہائے۔
کِتے دنوں بعد موقع  ملا ہے تم سے تنہائی  میں دو باتیں کرنے کا۔
اے دیکهو!
پهول سی میری بچی، دو دن میں کیسی مرجها گئی ۔
ایسے ہی دن رات لگ کر گهر کے سارے ہی کام خود کرو گی تو بِٹیا رانی۔۔۔
تو پھر خود ہی کہو کہ آخر کے دن جیو گی؟
پتہ ہے، بابا پتہ ہے۔۔۔۔
تمهاری ساس تو فرشتہ ہیں!
چہ چہ چہ۔۔۔
میری بھولی بچی۔۔۔
مگر کیا تمھیں خبر بھی ہے کہ یہی تمهاری پیاری ساسو اماں تمهاری چهٹی کروا کر اپنی سگی بهانجی کو نئی  بہو بنانا چاہتی ہیں؟
اے تب ہی تو سارے کام تم سے کرواتی ہے چڑیل ۔۔۔ اور خود پڑی دن رات چارپائیاں توڑتی ہے۔ بیماری کا مکر الگ سے گانٹھ رکها ہے کلموہی مشٹنڈی نے۔۔
بِٹیا ، اب عقل کے ناخن لو! خود کیوں اتنا خوار ہوتی ہو؟ یہ جو تمهاری سانڈ جیسی دو دو نندیں مفت میں پل رہی ہیں ناں، میری مانو تو گهر کا سارا کام ان سے کروایا کرو۔
اور یہ۔۔۔ کیا نام کہ، اپنی تنخواہ اکرم میاں تمھاری ہتھیلی پر ہی لا کر رکھ دیتے ہیں ناں یا وہ بهی ساری کی ساری اماں جان ڈکوستی ہیں؟
میں بالکل سمجھ گئی ۔ اری نادان لڑکی!
شوہر کو مٹهی میں کر۔۔۔ اپنے قابو میں رکھ۔
نہیں تو بری طرح پچھتاوے گی ایک دن۔
دیکھ!
میں تجهے ایک آدھا ایسا اچھا تعویز لا کر دوں گی بڑے پیر صاحب سے۔۔ ایک شوہر کو شربت میں گهول کر پلا دینا، دوسرا نظر بچا کر ساس کے سرہانے باندھ دینا۔ مگر ذرا احتیاط سے، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔
پهرسارا ٹنٹا ہی ختم سمجھو۔۔۔ سب کچھ ٹھیک ہو جاوے گا۔۔۔
ہاں!
ہزار روپلی ہوئیں گے تیرے پاس؟
آئے ہائے کل ہی لوٹا دیوں گی۔
اب چلوں۔۔۔ بڑهیا کو سلام مار آوں۔
کہیں کم بخت کو شک ہی نہ پڑ جاوے۔
اور ہاں!
خبردار جو کسی کو اِس بات کی ذرا سی بھنک بھی پڑی۔۔
دیکھیو۔۔۔ وگرنہ سارا کام چوپٹ ہو جاوے گا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

سلام بیگم صاحبہ۔۔۔۔
آئےہائے۔۔ صدقے جاؤں۔۔۔ لیٹی رہیے، لیٹی رہیے۔۔۔
میں جانوں! نصیبِ دشمناں آپ کی طبیعت کچھ ناساز سی دکهتی ہے۔۔۔
اے بی بی۔۔
برا نہ مانو تو خدا لگتی کہوں!
سچی بات تو یہ ہے کہ آپ جب سے یہ سبز قدمی کلموہی بہو بیاہ کر لائی  ہیں، اللہ رکهے، آپ کو خود اٹھ کے بیٹهے کبھی دیکها ،نہ اپنے پیروں آپ چل کر پانی پیتے۔۔۔
آئے ہائے!
میرے منہ میں خاک!
میں کب کہتی ہوں کہ بہو اچهی نہیں؟
شیطان کے کان بہرے۔۔
مگر ایک بات ہے، کہتے لاج تو آوت ہے مگر بن کہے بهی نہیں بنتی۔
آے بوا! یہی ناشدنی کچھ عمل نہ کروا رہی ہو آپ پر؟
سچ کہوں، آپ کی  اکهیوں پر تو پردہ پڑا رہتا ہے، ہم اڑتی چڑیا کے پر گن لیویں۔
ہمیں تو سب کچھ صاف ہی دکهتا ہے بی بی۔
اے باجی، خدا لگتی کہنا! پہلے تو آپ بهلی چنگی تهیں یا نہیں؟
یہ اکرم میاں بهی صبح و شام جورو کے غلام بنے رہتے ہیں.
اے اماں بہنی کو بهی سچ مچ بهول ہی گئے کیا۔۔؟
ہاں ہاں!
صدقے! نگوڑی اماں کا خیال نہ رکهیں گے تو بھلا پهر کس قطامہ کا رکهیں گے؟
مگر آخر کے دن بی بی؟
جورو کا جادو چل گیا تو پھر کہاں جاویں گی آپ؟
بیگم صاحبہ!
ہم نے آپ کا خالص نمک کھایا ہے، ہم سے تو نمک حرامی نہ ہونے کی۔۔۔
آدم زاد یونہی بہکتے ہیں ناں، نگوڑی بیویوں کے بہکاوے میں آ کر۔۔۔
دور پرے کیوں جاویں۔۔۔ اپنے اِسی محلے میں چُھمن کے سپوت نے جورو کی ناحق باتوں میں آ کر اپنی سگی بوڑھی ماں کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ بے چاری پڑی ہے تیرے میرے در پر۔۔۔ دکھیا ٹھوکریں کھا رہی ہے۔
مگر بوا !
تم کوئی  فکر کیوں کرو؟
میں ہوں ناں!
اے بڑے پیر صاحب سے ایسے دو انچھر پھونکوا کر سچے پکے تعویز لا دیوں گی کہ بیٹا سدا آپ کے پاؤں ہی چاٹتا رہ جاوے گا۔۔
کبهی نافرمان نہ ہو گا۔
جورو کو مکمل بهول کر آپ کی پٹی سے لگا پکا تابعدار بن جاوے گا.
اے پیسے ویسے کی زری چندی فکر نہ کرنا۔
بڑے پیر صاحب کو خدا سلامت رکهے، بڑے دیالو اور خدا ترس ہیں۔
نیک کاموں کا سرے سے کچھ لیتے ہی نہیں۔
صرف ہزار دو ہزار روپے نیاز نام کے آپ کی طرف سے میں خود گولک میں ڈال دوں گی۔۔ منہ جھٹالنے کو چندی مٹھائی  الگ سے دے دیویں گے۔
اچھی!
پیسے ابھی دو تو ترنت جاوں۔
بھلا نیک کاموں میں دیر کاہے کی؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply