غالب فہمی پر ایک اور نظم۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بہ نیم غمزہ ادا کر حق ِ ودیعت ِ ناز
نیام ِ پردہ ء زخم ِ جگر سے خنجر کھینچ
۔۔۔

ستیہ پال آنند
جگر میں زخم ہے اور اس پہ ایک پردہ ہے
نیام ِ پردہ میں خنجر ہے جیسے نیم نشیں
ہے زخم خوردہ مُصر اس کو کھینچ لینے پر
بتائیں تو سہی، قبلہ، یہ احتیاج ہے کیوں؟

مرزا غالب
ہے سیدھی سادی سی اک بات، ستیہ پال، عزیز
نیام ” سے جو نکالیں “الف ” کا یہ خنجر
بچے گا “نِیم” ہی پیوستہ خنجر ِ غمزہ
غرض یہ ہے کہ حسینہ کرے گی آپ ادا
“بہ نیم غمزہ ” ہی اپنا “حق ِ ودیعت ناز”
اسے نیام کی اب کچھ طلب نہیں باقی

ستیہ پال آنند
صحیح ،کھرا ہے ۔۔۔یقیناً ، حقیقتاً ہے، جناب
مگر جو اصل معانی تھے، غتربود ہوئے

مرزا غالب
بھلا، وہ “اصل معانی ” تھے کیا، عزیز القدر؟

ستیہ پال آنند
مرے حضور، معانی تو کھینچا تانی میں
ہزار نیمے بروں ہیں تو صد ہزار دروں
نیا م ِ پردہ ء زخم ِ جگر کو کھینچا تو
جو کچھ بھی نکلا وہ غربال کا مرقع تھا
جو کام آپ نے یوں سحر ِِ سامری سے کیا
نظر نواز بھی ہے اور فی البطن بھی ہے
یہی تھے اصل معانی جو ثقل گوش ہیں اب

Advertisements
julia rana solicitors

مر زا غالب
تمہاری بات تو معقول ہے، مگر آنند
عدم جواز نہیں ہے مرے وجوب کا یہ
کہ کچھ تو “نیمے دروں” بھی رہےتو اچھا ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply