عالیہ پھر مرگئی۔۔سید عدیل رضا عابدی

خدا نے میرے باپ ماں کو قریب آدھی درجن اولادوں میں سے دو لڑکیاں بھی دیں، جن میں سے ایک 1987 میں پیدا ہونے والی یہ بیٹی جسے ہر چاہنے والے نے مختلف نام جیسا کہ بتول، ماریہ اور عالیہ دیئے لیکن قرعہ عالیہ حسن کے نام پہ کھلا ،اس کے علاوہ جس نے جو جو نام دیا وہ اسے اسی نام سے پکارا کرتا۔

آواخر اکتوبر 1990 میں میری  اماں مرحومہ اپنی والدہ سے ملاقات کے لئے مع اولادوں کے بھارتی شہر علیگڑھ گئیں۔ہمارے پِتا شری اس وقت مرچنَٹ نیوی کے شعبہ میرین سروویئنگ میں ملازم تھے۔ گنی چنی چھٹیوں کے ساتھ بیوی بچوں کو علیگڑھ چھوڑنے پہنچے۔ ارادہ تھا کہ ہفتہ بھر قیام کے بعد وہ اکیلے واپسی کی راہ لیں گے لیکن بھارت میں موجود انتہاء پسندوں نے بابری مسجد کے خلاف تحریک شروع کردی۔یہ تحریک تو 92-93 میں کامیاب ہوئی لیکن اس کی ابتداء ہوتے ہی مسلم اکثریتی علاقوں میں قیامِ پاکستان کی سی ہل چل مچ چکی تھی۔قتل ِ عام کا بازار گرم تھا اور جو جہاں تھا وہ وہیں پھنس کر رہ چکا تھا، ایسے میں اسلامک اسٹوڈنٹ موومنٹ آف انڈیا کے جوانوں کی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس میں مخالفین سے جھڑپ نے شہر بھر میں کرفیو لگانے کے اسباب پیدا کئے، گرفتاریوں اور شوٹ ایٹ سائٹ کا موسم عروج پہ تھا ایک جانب کشیدگی بڑھی تو دوسری جانب میرے ابّا کی چھٹیاں، انہیں پہلے ہی سیاسی وابستگی کے سبب شوکاز نوٹس جاری ہوچکا تھا۔اّبا کو دن رات سسرال (پھوپھی کے گھر) میں گزارنے پہ گھردامادی والی فیلنگ آئی تو اپنا بوریا بستر سمیٹ کر قریب ہی واقع خالہ کے گھر جابیٹھے۔ ابّا کے جانے کے چند ہی گھنٹوں بعد ایل آئی یو نامی ایجنسی کے اہلکار نانا کے گھر میں داخل ہوئے، وہ کسی آئی ایس آئی کے ایجنٹ کی تلاش میں آئے تھے۔ میرے نانا جو کہ علیگڑھ یونیورسٹی کے شعبہ بیالوجی میں پروفیسر تھے معزز جان کر بخش دیئے گئے اور کرم چاریوں کو خالی ہاتھوں لوٹنا پڑا ورنہ وہ کسی شریر کی مخبری پہ آئے، میرے ابّا کی ہی تلاش میں تھے۔ کرفیو صرف جمعے کے دن نماز کے وقت ہٹایا جاتا اور ہمارے چھوٹپن کے راویان بیان کرتے ہیں کہ یہی وہ وقت ہوتا تھا کہ جب گھر کے مرد جمعہ پڑھنے جاتے، عورتیں بچوں کو لے کر قریبی باغیچے میں دھوپ لگانے نکل پڑتیں، خاندان بھر کے بچے ایک ساتھ اُدھم مچاتے اور ماؤں کو پیچھے دوڑاتے، ایسے ہی کسی دن کھیلتے کھیلتے مرکز نگاہ بننے والی میری بڑی بہن نے جاپانی گڑیا کا لقب پالیا۔ عالیہ حسن جو اب جاپانی گڑیا بن چکی تھی ساری اسٹاف کالونی میں مشہور تھی تین سال کی عمر میں ہی اسے ماں اور خالاؤں کی طرح چوڑیاں پہننے اور مہندی لگوانے کا شوق تھا۔ ماموؤں اور ان کے دوستوں کے ساتھ کھیلتی گڑیا ایک دن چکرا کر گر پڑی، اسپتال لے کر پہنچے تو ڈاکٹروں نے طبی معائنے اور کچھ مخصوص ٹیسٹ کے نتائج کے بعد سب ٹھیک ہے کہہ کر گھر روانہ کردیا لیکن سرشام گھر پہنچنے والی سرخ سفید مومی وجود بچی نیلی پڑ چکی تھی۔دوبارہ اسپتال میں داخل کیا گیا تو ڈاکٹروں نے جسم میں خون کی کمی بتائی اور انتظام کرنے کا حکم صادر کیا۔ اماں بتاتی تھیں کہ ذرا سی دیر میں یہ خبر اسٹاف کالونی میں پھیلی تو سارے نوجوان خون دینے پہنچ گئے، ڈاکٹروں نے ضرورت کے مطابق خون جمع کرکے جب مریِضہ کو لگایا تو طبیعت میں کچھ بہتری آئی لیکن چند گھنٹوں بعد ہی نیلے جسم کے ساتھ گلابی چہرے والی بٹیا دنیا سے رخصت ہوگئی۔ جانے والی چلی گئی، جتنے منہ اتنی باتیں، کسی نے نظر بد کا شکار کہا تو کسی نے آسیب و اثربد کا۔۔۔ یہ اچانک موت کا راز آج تک کسی کو معلوم نہ ہوا۔۔۔ اپنے جگر کے ٹکڑے کو دیارِ غیر میں دفنا کر میرے ماں باپ پاکستان لوٹ آئے۔ لڑکوں کی کثرت والے خاندان میں ایک ہی بچی تھی جو داغ مفارقت دے گئی جس کی کمی سرحدوں کے دونوں جانب محسوس کی گئی۔

1997 میں خالہ کے گھر بیٹی پیدا ہوئی، بیٹوں سے بھرے خاندان میں یہ بیٹی مہارانی بن گئی۔۔۔ اکیلی اور مرکزِ نگاہ، اس کی پیدائش کی خوشی پاکستان اور بھارت دونوں جانب بٹے ہوئے خاندانوں میں منائی گئی، میرے نانا نانی جو اپنی بڑی اور پہلی نواسی کے غم سے تاحال نہ نکلے تھے انہوں نے اس غم کو دبانے کے لئے اس بچی کو ” عالیہ “ کے نام سے موسوم کیا اور خود پالنے کا فیصلہ کیا۔ ایک غیرشادی شدہ خالہ نے اس کی ساری ذمہ داری اٹھالی، نانا کو پاپا اور نانی کو امی کہنے والی یہ بچی اس دن بہت روئی جب اسے پالنے والی خالہ جنہیں وہ اماں کہا کرتی تھی پیا گھر سدھار گئیں۔کئی سال تک تنہاء خاندان بھر کی توجہ کا مرکز رہنے والی اس لڑکی کو سب سے زیادہ سپورٹ میرے ماں باپ نے پاکستان سے بیٹھ کر کیا۔میری ماں کو کاکا اور ابا کو کاکو کہنے والی اس لڑکی نے سب کا لاڈ پیار سمیٹتے ہوئے جہاں غرور پسندی کو مزاج کا حصہ بنایا وہیں میری شدید ناپسندیدگی کو بھی سمیٹا۔ اس لڑکی سے مجھے بس اتنی ہی انسیت رہی کہ اسے پکارنے کا نام میری بڑی سگی مرحوم بہن کے نام پہ تھا۔ اسے بھی مجھ سے بھی کم خار نہیں تھی، خاندان کا سب سے بڑا لڑکا اور کزن برادر ہونے کے ناطے مجھے پوری اجازت تھی کہ اس کے تعلیمی معاملات میں دخل دے سکوں۔کچھ اپنے باپ کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے مائیکروسافٹ انڈیا کا حصہ بننے کی خواہش اور کچھ میری حوصلہ افزائی کے سبب اے آئی امور سے متعلق تعلیم حاصل کرنے والی لڑکی سے میری آخری مرتبہ بات کوئی 2 سال قبل ہوئی، متعدد سال رابطہ منقطع رہنے کی وجہ اس کے غرور، نرگیست اور بارسوم قدامت پسند بزرگوں کو بدتمیزی سے لتاڑنے کی عادت تھی۔اس بیچ خالہ یا کسی کزن کے توسط سے اس کی خیریت، مشاغل و دیگر مصروفیات سے متعلق خبر ملتی رہتی۔

خوشی اس بات کی تھی مزید اعلیٰ تعلیم جاری رکھتے ہوئے پروفیشنل کیریئر کا آغاز کرنے والی لڑکی دہلی کے ایک معروف سافٹ ویئر ہاؤس میں جاب کررہی ہے۔قدامت پسند خاندانوں میں لڑکی کی عمر 24 سال کے بعد 60 کی تصور کی جاتی ہے سو میرے ننھیال میں بھی کیا گیا۔اور یوں اسے مزید ایک سال جاب جاری رکھنے کی اجازت صادر کی گئی اور رواں سال کی ابتداء میں ہی ایک قطر پلٹ سافٹ ویئر انجینئر سے بیاہ دی گئی۔شوہر کے ساتھ قطر گئی تو ماحول سے اکتا کر چند دن بعد ہی واپس پلٹی اور جاب شروع کردی۔چند ماہ میں ہی مارکیٹ پہ چھا جانے والی لڑکی نے اپنا ادارہ قائم کرنے کی ٹھانی اور اسی کام کو انجام دینے انڈین آئی ٹی حَب بنگلور پہنچی۔مصروف رہنے کے باعث کئی دن تک گھر والوں سے رابطہ بھی قائم نہ کرسکی لیکن نتیجے میں انڈین مائیکروسافٹ کے ایک ذیلی ادارے کے ساتھ اپنا پروجیکٹ شروع کرنے میں کامیاب ہوگئی۔میرا خاندان جہاں بعض معاملات میں قدامت پسندی کے جراثیم رکھتا ہے وہیں جدت پسندی رکھتے ہوئے زمانے کے ساتھ چلنے کا بھی خواہاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ میرے ہاں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کو کامیابی پہ پذیرائی ملتی ہے، لہذا چند ہی دن میں دنیا کے مختلف ممالک میں بسے ” مہاجر سیدّوں “ کو اطلاع مل گئی۔ ہر ایک نے ہی اسے اپنی جانب سے دعاؤں کے ساتھ تعاون کا یقین دلایا۔عقدہ یہ بھی کھلا کہ نرگیسیت کی ماری انٹرپیریونر اپنے شوہر سے زیادہ کمانے کی دھن سوار کئے وطن واپس لوٹی تھی تاکہ خاوند کو پردیس سے وپس بلا سکے۔ خواب آنکھوں میں سجائے اندھا دھند دوڑنے والی لڑکی دفتر سے واپسی پہ ایک تیز رفتار ٹرک کی زد میں آکر اپنا آپ کچلوا بیٹھی۔۔۔

ہائے آج 15 نومبر کو خبر ملی کہ عالیہ دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بنگلور کے ایک اسپتال میں دم توڑگئی، جسم کا نچلا حصہ مکمل کچل جانے کے باعث میت آبائی شہر نہ لائی جاسکی اور محض خاندان کے چند افراد کی معیت میں دفنادی گئی۔قریبی رشتے داروں سے بھاگنے والی لڑکی ایسی بھاگی کہ انہیں اپنا دیدارِ آخر بھی نہ دے سکی!!

Advertisements
julia rana solicitors

ہبہ زیدی عرف عالیہ کے انتقال کی خبرسن کر عجیب کیفیت طاری ہے۔تمام تر مخالفتوں کے باوجود سگی بہن کے ہم نام ہونے کی نسبت سے ایسا لگ رہا ہے عالیہ عرف جاپانی گڑیا جسے زندہ کیا گیا تھا ایک مرتبہ پھر مرگئی ہے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے  کہ میرے خاندان میں آج ایک ایسے ٹیلنٹ کی موت ہوئی ہے جس کے بارے میں گمان کیا جاسکتا ہے آئندہ چند سال میں وہ بھارت کا ٹاپ ٹیلنٹ شمار ہوتا۔خدا مرحومہ کے درجات بلند کرے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply