• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سنیے ! نثری مزاح کی بیوہ کو اب کئی خصم درکار ہیں۔سید عارف مصطفیٰ

سنیے ! نثری مزاح کی بیوہ کو اب کئی خصم درکار ہیں۔سید عارف مصطفیٰ

 کسی فرد کو ہنسانے کے لیے شاید چار ہی طریقے ہیں ۔کوئی ایسا پر لطف واقعہ یا لطیفہ سنایا جائے کہ ہنسی مال مسروقہ کی طرح برآمد ہوجائے یا کچھ ایسی شگفتہ تحریر خواہ نظم میں یا نثر میں لکھی جائے کہ بندہ کھلکھلا اٹھے یا مسخرگی کا ایسا ایکشن کیا جائے یا ادا دکھائی جائے کہ دیکھنے والے لوٹ پوٹ ہوجائیں یا پھر کسی کی بغل میں چھڑی گھسیڑ کے ہلائی جائے اور بالآخر قابو میں آئے اس بندے کے چہرے پہ کرب آمیز جھٹکے لیتی مجبور ہنسی نمودار ہوجائے ۔۔۔
بدقسمتی سے اردو اب کی موجودہ دنیا میں بیشتر نہیں بلکہ 99 فیصد مزاح نگار مسکراہٹ کی برآمدگی کے لیے اس چوتھی قسم کا حربہ اختیار کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے قاری کی بغل میں گھسیڑنے کے لیے ان کے ہاتھوں میں چھڑی کی جگہ قلم ہے ۔۔۔ یوں سمجھیے کہ اس وقت اردو ادب میں مزاح خصوصآً نثری مزاح کے شعبے میں ایسا دلدوز قحط ہے کہ شرافت اور شائستگی کے شعبے میں بھی کیا ہوگا اور اس سے زیادہ برا وقت شاز ہی کسی اور صنف پہ آیا ہو ۔

پوری سچائی سے عرض‌ ہے کہ پورے ملک میں ، بلکہ پورے پاک و ہند میں ہاتھ پیروں کی انگلیوں جتنے بھی مزاح نگار دستیاب نہیں ہیں ( اس مثال میں لنگڑے ، لولے اور ٹنڈے مستثنیٰ ہیں)  99 فیصدی مبینہ ظرافت نگار ایسے ہیں کہ  مزاح‌ کو خراد مشین سمجھے بیٹھے ہیں اور یہ خرادیے ( دیکھیے میں نے فراڈیے نہیں لکھا ) اس مشین سے جو پرزے بناتے ہیں وہ شگفتگی کی موٹر میں ذرا بھی فٹ نہیں بیٹھتے اور مسکراہٹ یا قہقہ پروری کے پسٹن کو چالو کرکے نہیں دیتے ۔ ا ن کی تحریریں بھی کیا ہیں قاری کے ذوق پہ کھلا ڈاکہ ہیں‌ اور ڈھیروں باتوں‌ کے نرے بتنگڑ ہیں یا زیادہ سے زیادہ محض انتھک قلمی بڑبڑاہٹیں ۔

پورا مضمون پڑھ جائیے اور مسکراہٹ کے تعاقب میں نکل جائیے  اور آخر میں اپنی خوش فہمی پہ دل کھول کے قہقہے لگائیے ۔نثری مزاح کے لیے نہایت بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اردو کی بڑی بڑی ادبی تنظیموں نے بھی خود کو تنگنائے شاعری تک ہی محدود کررکھا ہے کہ سہل انگار ہیں اور شاعروں کو تو کھوجنے کے لیے کسی مشقت کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ طبقہ ہر ضلع ہر تحصیل بلکہ ہر یونین کونسل میں کیکر کی جھاڑی اور چولائی و تھوہر کے خود روپودے کی مانند یہاں وہاں آسانی سے دستیاب ہےاور جابجا ہر گھاس کے قطعے پہ گھاس کم اور کان پہ قلم لگائے شعرائے کرام زیادہ پڑے نظر آتے ہیں اورمشاعرے کے لیے اگر کبھی درجن کو بلائیں تو  دو تین سینکڑہ ایک دوسرے کے سر پہ پیررکھے بھاگے چلے آتے ہیں ۔

جبکہ نثری مزاح کے میدان میں یوں‌ ہو کا عالم ہے جیسے مفلسوں سے بھاری چندہ مانگ لیا گیا ہو۔ اس وقت برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ عصری ادب میں زیادہ تر بوجھ مشتاق احمد یوسفی نے سہار رکھا ہے یا پھر یہ ذمہ داری بیچارے عطاء الحق قاسمی صاحب کے سر پہ ڈال دی گئی ہے ۔ ان میں یوسفی صاحب نے مزاح کو معیار کے عروج پہ وہاں تک پہنچا دیا ہے کہ اب اسے برقرار رکھنا خود ان کے لیے کار درد ہے اور چونکہ ایام جوانی میں ان کا سال پیدائش غلط لکھا گیا تھا چنانچہ اب تحقیق کے بعد دوسال بڑھنے سے وہ یکایک پیرانہ سالی کا شکار ہوکےکچھ قابل بیان و چند ناقابل بیان بیماریوں کی زد میں ہیں اور اس باعث بہت پرہیزی ہوگئے ہیں ۔ عبادات کا تو معلوم نہیں ، البتہ لکھنے کے باب میں‌ اس پرہیز کو وہ عرصے سے دل سے لگائے بیٹھے ہیں اور اس طبعی مجبوری نےانہیں اب خوباں کی جگہ صرف خوبانیوں‌ کے لائق ہی رکھ چھوڑا ہے ۔

ادھر قاسمی صاحب کے فطری مزاح کے جوئے تند وتیز کے آگے خود انہی کے کالموں اور شاعری کا بند بندھا معلوم ہوتا ہے اور یوں شاعر اور صحافی قاسمی نے مزاح نگار قاسمی کو اس شعبے میں اس بلند تر استھان پہ بیٹھنے سے روکے رکھا ہے کہ یہ ‘ علتیں’ نہ ہوتیں تو فطری مزاح کا یہ کے ٹو الگ ہی سے دکھائی دے جاتا اور شاید اپنی مہلک چڑھائیوں‌ کے سبب یوسفی کے ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی زیادہ ممتاز ہوجاتا- ادھر بھارت میں مجتبیٰ حسین کا دم غنیمت ہے اور باقی تو پھر رہے نام اللہ کا۔ ادبی مزاح اور چولستان کے صحرا یکساں طور پہ بے آب و گیاہ ہیں۔ راہ میں ایک آدھ ٹیلہ انوار علوی، نادر خان سرگروہ ، اشفاق ورک اور گل نوخیز اختر اور جنٹلمین والے اشفاق حسین کی صورتوں میں ضرور دکھائی دے جاتا ہے لیکن اس قدر نایابی اور قلت سے قاری کی تشنگی سیراب ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہے۔

یہاں مجھے یہ کہنے میں قطعی کوئی باک نہیں کہ  اس وقت اردو کے نثری مزاح میں اچھی تحریروں‌ کا اس قدر توڑا ہے کہ ترسے ہوئے قاری مزاح سے ادنیٰ سا شائبہ رکھتی تحریر کو بھی لپک کے اور چوم کے آنکھوں سے لگاتے ہیں عین اسی طرح جیسا کہ چھالیہ کے بحران کے دنوں‌ میں کھجور کی کٹی ہوئی گٹھلیوں کو بھی بخوشی پپول اور چاب لیا جاتا ہے ۔ بیشک ظرافتی حبس کے مارے ہوئے لوگ پھکڑ پن کی جھلستی بھلستی لُو کا بھی خیر مقدم کرنے پہ مجبور ہیں ، کیونکہ بیشتر ظرافت نگاروں کا معیار تو اس قدر ابتر ہے کہ گر دور مغلیہ ہوتا تو ایسے مزاح نگار اپنے ایک ہی مضمون پہ درجنوں کوڑے کھاتے اور بقیہ عمر شاہی ہاتھیوں کو نہلانے کی سزا میں‌ عمر گزارتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی حبس دم کا ایک حوالہ یہاں عرض ہے کہ گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی نے بڑی کوششوں سے ایک شام مزاح منعقد کی تھی اور اس میں 5-6 مبینہ مزاح نگاروں‌ کو اپنے مضامین پڑھنے کے لیے مدعو کیا تھا  لیکن ۔۔۔ ہیہات ۔۔ وہاں پڑھے جانے والے مضامین میں ایک آدھ کے سوا باقی مضامین محض پیاز کی مانند تھے  اور اک یہی محفل ہی کیا سارے ملک میں نوبت یہ ہے کہ عام فصلی پیازوں‌ کی قلت اگر کبھی ہو بھی جائے لیکن ان ادبی پیازوں کی کھپت میں کبھی کوئی کمی نہیں دیکھی گئی ، اور پیازوں کے اس وصف کی بابت کون نہیں جانتا کہ انہیں پرت در پرت کھولتے جائیے  تو آخر میں خلا اور آنکھوں سے جاری اشکوں اور پشیمانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سنیے ! نثری مزاح کی بیوہ کو اب کئی خصم درکار ہیں۔سید عارف مصطفیٰ

Leave a Reply