ہذاٰ وزیراعظم اہلاً

نیند کے انتظار میں دو گھنٹے گزر چکے تھے،مگر نیند تھی کہ آکر ہی نہ دے رہی تھی۔۔۔مانو جیسے مفلوک الحال حسینہ کے خوابوں کا شہزادہ ہو۔۔ اور سارا دن ٹی وی پر ریلی کے مناظر دیکھ دیکھ کر طبعیت ویسے ہی بڑی” نااہل،نااہل”سی ہوئی پڑی تھی،کچھ دیر تو فون پر ٹامک ٹوئیاں ماریں اور بلآخر کسی پہر نیند کی دیوی مہربان ہو ہی گئی۔

صبح آنکھ کھلی تو جانا۔۔ہماری تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ہمیں معلوم نہ تھا کہ جس عالم ِ رنگ و بُو میں ہم نے رات بسر کی تھی،صبح وہ نصیب نہ ہوگا۔۔۔۔۔یہاں تو نظارہ ہی اور تھا،قطار اندر قطار لگے درختوں کو دیکھ کر یاد آیا کہ اس سڑک پر تو کبھی کوئی پودا نظر نہ آیا تھا آج تک ،تو یہ ایک ہی رات میں تاحدِ نگاہ پھیلے درخت کیسے۔۔۔پاس سے گزرتے ایک صاحب جو ” اہل ہے وزیر اعظم اہل ہے” کی تسبیح کرتا جارہا تھا۔۔۔یک دم رک کر گویا ہوا۔۔حضور ذہن پر زیادہ زور مت دیجئے،ہم نے آپ کی سوچ پڑھ لی ہے۔دراصل جس جس دیہات،قصبے،شہر اور سڑک سے “پیر و مرشد وزیراعظم اہلاً و کبھی نہ نا اہلاً”کی گاڑی گزری ہے،وہاں راتوں رات سرو عنبر کے درخت اُگ آئے ہیں۔۔۔یونہی تو نہیں سارا عالم مہکا ہے۔۔۔ ہمیں حیران و ششدر چھوڑ کر وہ شخص مسکراتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔

ابھی اس معمے کو سلجھا نہ پائے تھے کہ مدھر آوازیں کانوں میں رس گھولنے لگیں” اہل ہے وزیراعظم اہل ہے”۔۔پر آس پاس لوگ چلتے پھرتے تو دکھائی دے رہے تھے لیکن گانا گاتا کوئی نہیں۔۔۔پریشانی کے عالم میں آسمان کی سمت دیکھا تونادر و نایاب پرندے جنھیں آج تک ہم نے صرف نیشنل جیوگرافک اور انسٹاگرام پر ہی دیکھ رکھا تھا ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو رہے تھے۔۔۔۔اور انسانی آوازوں میں وزیر اعظم کے قصیدے گا رہے تھے۔۔۔ جسے سن کر چند حسین و جمیل دوشیزائیں سرو ں پر ڈوپٹے اوڑھے،نظریں جھکائیں پرندوں کے گیت پر مانندِ بسمل تڑپنے لگیں۔۔مطلب باحیا رقص پیش کرنے لگیں ۔۔۔یہ منظر دیکھ کر تو ہماری آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔۔۔ جی چاہا ابھی کہیں سے وہ اہل ویرا عظم سامنے آجائے اور ہم اس کے” سیاہ۔سی” ہاتھ پر بیعت کرلیں۔۔۔ ہمیں یاد آیا کہ ایسا لغو خیال ہمیں کچھ دیر پہلے بھی آیا تھا۔۔

گتھی تھی کہ الجھتی ہی جا رہی تھی اور ہم تصور کے کوہِ طور پر چڑھے اللہ میاں کے سامنے اس راز کو ہماری آنکھوں کے سامنے فاش کرنے کی فرمائش کر رہے تھے۔۔کہ عالم غیب سے آواز آئی۔۔۔”ہجے نہیں بالِکے،ذرا سانہہ لے”۔۔
اور ہم اپنا سا منہ لے کر نیچے اتر آئے۔۔

ہواؤں میں عجب چنچل پن تھا،ہر ایک کو چھیڑ کر گزرنا جیسے اپنا فرض سمجھ رہی تھی۔ہم نے سرگوشی میں دریافت کیا “کس مستی میں ہو بی بی”۔۔ سرشاری سےلبریز جواب آیا “وزیراعظم آرہے ہیں”۔۔ ابھی شوخ و شنگ ہوا سے گفتگو جاری تھی کہ اچانک بارش شروع ہو گئی،ایک ادھیڑ عمر خاتون جن کا میک اپ بہہ کر منہ میں جا رہا تھا ،اپنی ساتھی خاتون سے فرما رہی تھیں۔۔”جب یہ دنیا والے کسی وزیراعظم کونااہل قرار دے دیتے ہیں تو پوری کائنات مل کر اسے اہل ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتی ہے”۔ہمیں شک گزرا جیسے خاتون کا ذہنی توازن بگاڑ کا شکار ہو۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیال آیا کاش کہیں وہ مافوق الفطرت وزیراعظم کی ایک جھلک ہم بھی دیکھ سکتے۔۔۔۔انہی سوچو ں میں غلطاں و پیچاں آگے بڑھے جا رہے تھے کہ شور مچا۔۔اہل ہے وزیر اعظم اہل ہے۔۔ایک شخص دوڑتاہوا کالی گاڑی کے پاس پہنچا اور بونٹ پر” بوسوں کی برسات “کردی۔۔یہ منظردیکھ کر ہمیں ٹھوکر لگی۔۔اور ہم بستر سے نیچے آن گِرے،آنکھیں ملتے سیدھے ہوئے تو صبح کے نوبج رہے تھے،اور سامنے چلتے ٹی وی پر عمران خان مکا لہرا لہرا کر کہہ رہا تھا۔۔۔سارے خاندان کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا۔۔اورہم چشمِ زدن دے “کالی گاڑی کو سڑک پر رنگتا دیکھنے لگے”!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply