سندھی ادب اور علوم کا تبادلہ۔۔۔ نعیم الدین جمالی

کراچی میں رہتے ہوئے میرے پوری توجہ  اردو ادب پر تھی، تمام تر کوشش یہ رہتی تھی کہ اردو کے ادیبوں کو پڑھا جائے، اردو سے شغف تو واضح ہے، لیکن علم وادب سے چاہ رکھنے والے کی خواہش ہوگی کہ ادب چاہے کسی زبان میں ہو وہ اسے پڑھے ، چاہے کسی زبان یا علاقے سے اس کا تعلق ہو. لیکن کبھی کبھی کوئی نہ کوئی رکاوٹ آجاتی ہے، یا تو اسی کتاب کا مطلوبہ زبان میں ترجمہ نہیں ملتا، یا پھر کتاب کی زبان صاحب مطالعہ کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے۔
تین مہینے قبل جب کراچی میں بارہ سال کا عرصہ بتانے کے بعد اپنے دیس بدین سندھ کا رخت سفر باندھا، کراچی میں رہتے ہوئے اپنی کوشش  کےمطابق اردو کی اکثر ادبی کتب کنگھال لی تھیں، اردو میں کافی حد تک سوجھ بوجھ آچکی تھی۔جب بدین آیا تو یہاں پورا جہان سندھی کا تھا، اخبارات، رسالے، مجلسیں محفلیں ہر جگہ سندھی بولنی اور لکھنی پڑتی تھی ، جب لکھنا یا بولنا شروع کیا تو چند کرم فرمائوں نے تجویز دی کہ آپ نے سندھی ادب کم مطالعہ کیا ہے، اردو میں پھر کچھ بہتر لکھتے ہیں لیکن سندھی میں وہ دم خم نہیں۔ سندھی جو کہ آپ کی مقامی اور مادری زبان ہے اس سے واقفیت آپ کے لیے لازمی ہے، اور آپ جیسے لوگوں کی ضرورت کہ وہ مثبت سوچ کے ذریعے معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں، عوام کی بہتر سے بہتر راہنمائی کر سکیں، اس کے لیے آپ سندھی ادب پڑھیں۔
ان کی بات معقول لگی، میں نے اردو ادب کے ساتھ سندھی ادب کوبھی پڑھنا شروع کیا، شاعری، نظم ونثر، سندھی ادبی اور تاریخی کتابیں خوب مطالعہ کیں، پڑھنے کے بعد میں نے کافی کچھ سندھی میں لکھنا شروع بھی کردیا ہے۔
سندھی ادب میں جتنی محنت ہوئی ہے یا ہورہی ہے، قابل اطمینان بخش ہے، بلکہ سندھی زبان شاعروں اور ادیبوں میں خوف کفیل ہے۔قدیم ادباء کی تو بات ہی الگ ہے، لیکن نئی نسل میں بھی، کہانی، ناول، شاعری، افسانے اور تاریخ لکھنے والے بہت سے جوان پیدا ہوچکے ہیں، سندھی میں آئے دن نئے نئے ناول اور شاعری کی کتابیں چھپ رہی ہیں، سندھی زبان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے۔
لیکن ایک بات جو مجھے کافی عرصے سے کھٹک رہی تھی کہ سندھی کی بہت ساری ایسی کتب ہیں جو اس لائق ہیں کہ ان کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو، ان میں پوشیدہ علم پوری دنیا تک پہنچے،فی الحال ان کی معلومات سندھی زبان میں قید ہوکر صوبہ سندھ تک محدود ہوگئی ہیں، یا صرف ان کتب سے وہ لوگ استفادہ حاصل کرسکتے ہیں جو سندھی زبان جانتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر زبان چاہے وہ سندھی ہو یا کوئی اور زبان، اس میں اگر ایسی کتابیں ہیں جو اس لائق ہیں کہ وہ دیگر زبان والوں کے لیے بھی مفید ہوں، لیکن زبان اس میں رکاوٹ ہے ، اس کتاب سے صاحب زبان کے علاوہ کوئی اور استفادہ نہیں کر سکتا، تو علم وادب سے شغف رکھنے والوں سے گذارش ہے کہ وہ کتابوں کے ترجمے کرکے سب کو استفادے کا موقع دیں۔
یا جو صاحب تصنیف اگر وہ زندہ ہوں تو اپنی کتب کا اردو اور دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کریں، یا کروائیں۔
اس سے دو فائدے ہوں گے، مختلف زبانوں کی وسعت کا اندازہ ہوگا ، باہمی پیار ومحبت بڑھے گی، ایک دوسرے کی باتیں پڑھنے کو ملیں گی، نظریات سامنے آئیں گے، صاحب تصنیف کی پہلے  پہچان اگر صرف اپنی زبان کی حد تک محدود تھی تو ان کا تعارف تمام زبانوں سے ہوجائے گا۔یوں علوم کے تبادلے سے علم وادب کی نئی راہیں کھلیں گی۔

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply