میں عوام ہوں،
مجھ پر تالے ظلم کر رہے تھے،
کالے کالے تالے،
وہ بھی لگے ہوئے۔
“دس تالے کھول لو!
نجات مل جائے گی۔”
آواز آئی۔
چابیاں ڈھونڈنے لگا،
پر تکلیف ناقابل برداشت تھی۔
بہت ظالم تالے تھے،
سخت اذیت دے رہے تھے،
مار پیٹ تو تھی ہی،
گالیاں سنا رہے تھے،
برا بھلا بھی کہہ رہے تھے۔
کوشش کی،
چابیاں ڈھونڈ نکالیں،
تالے کھولنے لگا،
ایک، دو ۔۔۔۔ آٹھ، نو،
“یہ تو نو ہیں،
دسواں کہاں ہے؟”
میں چیخا۔
وہی آواز آئی:
“ظلم سے لڑنے کے لیے
سارے تالے کھول دو،
ایک تالا تمھاری زبان پر لگا ہوا ہے۔”
Related
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں