خط بعنوان نسخہ ءعشق/علی عبداللہ

عزیزم!
بہت عرصے سے تمہیں کچھ لکھ نہیں سکا۔ تم جانتے ہو کہ یہ دنیا تضادات سے بھری ہوئی ہے؛ جہاں توجہ طلب چیزیں ہیں انہی میں توجہ ہٹانے والے عناصر کی بھی کثرت ہے۔ میں بھی شاید مقاصد سے ہٹ کر وسائل کی جانب بھٹک گیا تھا۔ ایسا نہیں کہ وسائل کی اہمیت نہیں ہے، لیکن وسائل مع مقاصد اگر ہوں تو مفید ہوتے ہیں۔ مقاصد سے نظریں ہٹا کر وسائل پرتوجہ مرکوز کرنے کی کوشش عموماً فطرت سے دور کر دیتی ہے اور یوں انسان کو دن اور رات کے بہترین لمحات کا احساس ہی نہیں رہتا۔ قدرت کے شاندار مظاہر اس کی نگاہ میں بے معنی ہونے لگتے ہیں۔

پچھلی رات طوفان برپا رہا ہے۔ موسلا دھار بارش کے ساتھ گرجتے بادلوں اور ہواؤں کے اودھم نے رات کی دھیمی اور سکون دہ خاموشی کو توڑ کر رکھ دیا اور نیند کی لوری کو شور کے باجوں نے کہیں اپنے اندر چھپا لیا۔ شور اس قدر بے چین کر دینے والا تھا کہ میں اپنی کٹیا میں دبکا رہا اور کروٹ بدل بدل کر بس یہی سوچتا رہا  کہ قدرت کے سامنے انسان کس قدر بے بس ہے۔۔ ذرا تصوّر کرو کہ رات کے اندھیرے اور تنہائی کی قید میں انسان کو اچانک تیز ہواؤں اور کڑکتے بادلوں سے واسطہ پڑ جائے۔۔۔ نتیجتاً کچھ دیر کا عارضی لطف محسوس ہونے کے بعد بے چینی دل و دماغ پر حاوی ہونے لگتی ہے۔ ان ہواؤں میں بڑی بےباکی پائی جاتی ہے۔ یہ پوری کی پوری آبادی کو اٹھا لے جانے کی سکت رکھتی ہیں۔ پر ہواؤں کے مزاج میں دلکشی اور نرمی بھی موجود ہے۔ بادل ذرا مزاج کے تیکھے ہوتے ہیں؛ گرجتے گرجتے اچانک غضب ناک ہو جاتے ہیں۔ اس غضب ناکی میں وہ قدیم دیومالائی ڈریگن کی طرح چنگاریاں نکالتے ہیں جو کم از کم مجھ جیسوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے کافی ہے۔

خیر بات کہیں اور نکل گئی۔ تو میں یہ کہنے لگا تھا کہ اسی رات سراج اورنگ آبادی کی شاعری پڑھی اور جب اس شعر پر پہنچا،
“وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی، لیا درس نسخہ عشق کا،
کہ کتاب عقل کی طاق پر، جو ں دھری تھی تیوں ہی  دھری رہی”
تو سوچنے لگا کہ آخر یہ “نسخہ ء عشق” ہے کیا؟ یہ کسی عمل کا نام ہے یا کوئی احساس ہے، جو ایک پَل میں عقل کی اس کتاب کو خاموش کروا دیتا ہے، جس پر انسان کو سب سے زیادہ ناز ہے۔ اسی عقل کی بنیاد پر اس نے چرند، پرند، اور درند پر فوقیت حاصل کی ہے۔ مگر پھر بھی یہ کتاب عقل کی دھری رہ جاتی ہے۔۔۔عقل محوِ تماشائے لب ِ بام ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے۔ کیوں؟ یہی سوچتا رہا کہ دل ہر موسم میں ہرا ہی رہتا ہے۔ خوف ہو یا طمانیت، خوشی ہو یا غمی، حیرت ہو یا پھر تجسس یہ ہر حال میں ہَرا رہتا ہے۔۔۔یعنی اس پر یہ سب کیفیات طاری ہوتی ہیں اور وہ ان کیفیات میں ڈوب کر نئے راز طشت ازبام کرتا ہے۔ بعض اوقات دل بھی کچھ کیفیات کو سمجھ نہیں پاتا مگر ان کا اقرار کرتا ہے اور کبھی کبھی انھیں من و عن تسلیم بھی کر لیتا ہے۔ کیفیات کے اس نزول کو دماغ کیوں نہیں سمجھتا؟ وہ ہمیں وقت، گنتی، لین دین، فائدہ و نقصان اور تسلیم بشرط دلیل تک کیوں محدود رکھتا ہے؟

اجنتا کے غاروں کا تو تم نے سنا ہی ہو گا۔ کہتے ہیں لوگ اس میں گوتم بدھ کی تقلید میں سب چھوڑ چھاڑ کر آئے کہ گیان لیں گے۔ مگر اس ترک دنیا اور تنہائی کے باوجود غاروں کے اندر جو دنیا انھوں نے تخلیق کی، وہ ان کی اپنی چھوڑی ہوئی دنیا کا ہی نقش نکلا۔ جن عورتوں کو وہ چھوڑ آئے، انہی کی صورتیں تخلیق کر بیٹھے۔ جس راج سے بھاگ کر آئے تھے، اس کی طاقت کی علامتوں کو غاروں کی دیواروں پر نمایاں کر بیٹھے۔ یہ دماغ ہی تو تھا جس نے ان کو مکمل دِلی کیفیات سے آشنا ہی نہ ہونے دیا۔ نتیجتاً ان کیفیات کے نزول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو بُدھا کے دل پر چھائی تھیں اور نروان میں بدل گئیں۔

دماغ جب تنہائی کا احساس دلاتا ہے تو وہ بھی مکمل تنہائی کا ثبوت نہیں دے پاتا۔ اس تنہائی میں بھی بہت کچھ مخلل ہوتا ہے۔ وہم، خوف، آرزو، ضرورت یا پھر حسرت۔ دماغ جب کہتا ہے، ” تم تنہا ہو” یہ کر لو، وہ کر لو، مگر اس لمحے دل باور کرواتا ہے، “وھو معکم این ما کنتم”۔ تو پھر یہ کشمکش نہ سمجھ پانے والا پکارتا ہے، “چلی سمت غیب سے اک ہَوا کہ چمن سُرور کا جل گیا” جو دل اس کیفیت کو پہچان گیا وہ نروان پا گیا۔ کیفیات ایک خاص پردے میں طاری ہوا کرتی ہیں اور اس پردے کو ہٹانے کے لیے ریاضت، محنت اور تربیت لینا پڑتی ہے۔ کسی کو یہ عطا ہو جاتی ہے اور کوئی سدا اس کی آرزو میں خانقاہوں میں خلوت نشین رہ جاتا ہے۔
ایک اور جگہ بیدل کا شعر پڑھا تھا،
“مابی خبران قافلۂ دشت خیالیم
رنگ است به گردش قدمی نیست در اینجا”
ہمارا وجود کیا ہے؟ دشت خیال سے گزرتا ہوا قافلہ ہے، یہاں رنگ کی گردش کا احساس ہوتا ہے، قدم کی آہٹ کا نہیں۔

یہ رنگ کی گردش کیا احساس اور کیفیات کا نام نہیں جو دل میں وارد ہوتی ہیں؟ جو سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے پر ہمارے اندر جنم لیتی ہیں؟ قدموں کی آہٹ، ان کی گنتی اور اس کا حساب تو بس دماغ ہی کرتا ہے۔ کیا بچ گیا، کتنا بچ گیا، مزید کیا اور کتنا بچا سکتا ہوں یہ سب دماغ کی شرارت نہیں تو پھر کیا ہے؟

اپنی کٹیا میں بیٹھا یہ سب تمہیں لکھ رہا ہوں۔ رات خاموشی کے ساز پر محو ِ رقص ہے اور خیالات کسی پروانے کی مانند کیفیات کی شمع کے گرد منڈلا رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کیفیات ہر اک خیال کو وصل کی راحت نہیں دیا کرتیں اور نہ ہی ہر خیال اس قابل ہوتا ہے کہ کیفیات کے الاؤ کا سامنا کر سکے۔ شاید وہ بھی کوئی ایک خوش قسمت خیال تھا جسے کیفیات کا وصل مِلا اور میں یہ سب کچھ تمہیں لکھنے کے قابل ہوا، وگرنہ تو یہ حال ہے کہ بقول ن م راشد،
میرے اِس جھونپڑے میں
کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں۔۔
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی، تنہائی کی،
یادوں کی، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،
پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدا تمہیں کھوکھلے خیالات کے انبار سے محفوظ رکھے!
تمہارا اپنا۔۔۔
عبداللہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply