خواہشات کا بت

امبر جهگی میں پلی بڑهی بچپن سے جوانی تک بهوک افلاس ہی دیکها کئی بار تو دو دو دن گزر جاتے کهانے کے نام پر اناج کا دانا بهی نصیب نہ ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔جب کبهی کسی سیٹھ کو کار میں بیٹهے خوش رنگ کپڑے پہنے بازاروں میں خریداری کرتے اور ہوٹلوں میں کهانا کهاتے دیکهتی تو سوچتی اور شکؤه کرتی کہ، یا الله اس کو بهی تو نے پیدا کیا اور مجهے بهی۔۔ پهر اس کو عرش پر کیوں بٹهایا اور مجھے فرش پر کیوں پٹخ دیا ۔ ۔ ۔
ایک دن وه اپنی خواہشات کی تاب نہ لا سکی اور جهگی چهوڑ کر بڑے شہر کی راه لی ۔ ۔ ۔ کئی دن کی بهوک اور پیاس سے نڈهال ایک گلی کی نکڑ پر گری اور بے ہوش ہو گئی وہاں سے اسے ایک عورت نے اٹهایا اور اپنے گهر لے آئی ۔ ۔ ۔گهر بہت خوبصورت تها نقش و نگار نفیس پردے اور سنگ مرمر کا فرش ۔ ۔ ۔ امبر کو جب ہوش آیا تو سامنے خوش شکل عورت کو دیکها جو اسے پیار سے سہلا رہی تهی پوچهنے پر پتہ چلا کے اس کا نام نور بانو ہے اور یہ اسی کا گهر ہے ۔ ۔ ۔ ۔
امبر کو ہوش میں آنے کے بعد اس کو دودھ پلایا دوا دی اور کهانا دیا  ۔ ۔ ۔  کهانا گویا امبر نے یوں کهایا جیسے کسی بهٹکے کو منزل مل گئی ہو۔ جیسے کسی مامتا کی ماری دکهیاری ماں کو اپنا کهویا ہوا لعل واپس مل گیا ہو ۔ ۔ ۔ نور بانو نے بڑے پیار سے پوچها کہ کہاں سے آئی ہو اس نے اپنی ساری داستان بیان کر دی ۔نور بانو نے اسے بتایا کے یہ گهر دراصل ایک کوٹها ہے یہاں بڑے بڑے خریدار آتے ہیں جو عورتوں کو ایک رات کی دلہن بناتے ہیں اور اس کے بدلے میں ڈهیروں پیسے دیتے ہیں۔۔
 بڑا اعلیٰ کهانا ملتا ہے۔ پہننے کو اچهے کپڑے ملتے ہیں کیا تم یہاں رہنا چاہو گی ۔ ۔ ۔چونکہ نور بانو کے پاس کافی عرصے سے کوئی نیا مال نہیں آیا تها اور اس نے ایک جوہری کی طرح گلی کی نکڑ پر بیہوش ہیرے کی رعونت کو بهانپ لیا تها  ۔ ۔ ۔ اچهے کهانے اور کپڑے اور بے بہا دولت کی چکاچوند میں امبر بہہ گئی اور ہاں کر دی ۔ ۔ ۔ پهر امبر کو ایک رات کی دلہن بنانے کی تیاری شروع کردی گئی اس کو خوب نہلایا دهلایا گیا ۔۔بڑے نفیس کپڑے اور زیور پہننے کو دیئے گئے اس کو خوب پهل فروٹ کهانے کو دیئے گئے وه ابهی آنے والے وقت سے بے خبر بہت خوش تهی جیسے قربانی والے بکرے کو قربان کرنے سے پہلے اس کی خوب تواضع کی جاتی ہے ۔ ۔ ۔
نور بانو کے سب بڑے کسٹمرز میں منادی کرا دی گئی کے نور بانو کے پاس ایک اجلا ہوا ستاره آیا ہے جو ابهی تک مکمل ان چهوا اور کنوارا ہے ۔ ۔ ۔ یہ سنتے ہی ہوس کے پجاریوں کی رال ٹپکنے لگی اور سب آن کی آن میں نور بانو کے کوٹهے پر پہنچ گئے ۔ ۔ ۔سب نے دیدار حسن کیا ۔سب کی آنکهیں چندهیا گئیں گویا کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا تها کے یہ حسن اور جمال کا پیکر ایک جهگی سے آیا ہے جس کی طرف یہ امیرزادے تهوکنا بهی پسند نہیں کرتے تهے ۔ ۔ ۔ ۔ بولیاں لگنا شروع ہوئیں سیٹھ طفیل نے تیس لاکھ بولی لگا کر پورے مجمعے کو خاموش کرادیا  ۔
سیٹھ طفیل جو کے سونے کا تاجر تها اور دیکهنے میں معمولی شکل و صورت کا مالک موٹا پیٹ چهوٹا سا قد بات کرتا تها تو تهوکوں کا انبھار سامنے کے منہ پر جاتا لیکن چونکہ پیسے والا آدمی تها تو کوئی منہ پیچهے کرنے کی جرات نہیں کرتا تها ۔ ۔ ۔
وہاں امبر کی عزت کو پوری رات اس سیٹھ طفیل نے کرچی کرچی کیا یہاں نور بانو نے نوٹ گنے اور امبر کا حصہ یعنی پندره لاکھ ایک سائڈ پر کر دیا ۔ ۔ ۔ صبح ہوئی امبر کو ہوش آیا تو  رات والا منظر ایک بار پهر اس کی آنکهوں کے سامنے سے گزر گیا تو وه رو رو کرہلکان ہوئی ۔ ۔ ۔  پهر کچھ سنبھلنےکے بعد وه کمرے سے باهر آئی تو نور بانو نے اسے گلے لگا لیا اور اس کو اس کے پیسے دیئے ۔۔روز چند سکے اکٹهے کرنے والی نے جب ایک ساتھ اتنے پیسے دیکهے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹهکانا نہ رہا  ۔ ۔ 
یوں امبر روز کسی نہ کسی کے بستر کیزینت بنتی اور دیکهتے ہی دیکهتے وقت کی مشہور طوائف بن گئی ۔ ۔ اور کچھ ہی عرصے میں گاڑی بڑا گهر اور جو جو اس کی خواہشات تهیں پوری ہو گئیں ۔ ۔ ۔شراب اور دوسرے نشوں کی لت بهی امبر کو پڑ چکی تهی ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دن شراب پیتے پیتے امبر نے سوچا کے خواہشات کا بت جو اس کے اندر چهپا تها اس سے کیا کیا کروایا اب کوئی عزت دار شخص اس کا نام سنتے ہی تهو تهو کرتا ہے۔ ہاں وہی عزت دار لوگ جو ایک رات امبر کے ساتھ سونے کے لاکهوں دینے کو تیار بیٹهے ہیں مگر محفلوں میں سب اس کو ننگی ننگی گالیوں سے نوازتے ہیں جس کی خبر امبر کو بخوبی تهی ۔ ۔ ۔ ۔ایک دن امبر نے ایک شاپنگ مال کا رخ کیا جہاں اس کو سیٹھ طفیل ملا ۔اپنی بیوی بچوں کے ہمراه اس کو دیکهتے ہی امبر نے جهٹ اسے جا لیا اور اپنے دل کا سارا غبار نکال دیا اور اس کے بیوی بچوں کے سامنے سیٹھ کی وه تذليل کی کے دنیا نے دیکها ۔ ۔ ۔ ۔
پهر اس دن کے بعد امبر کو کسی نے نا دیکها اس کی شاندار گاڑی اس کا شاندار گهر اب کسی کے استعمال میں نہیں ۔ ۔ ۔ 

Facebook Comments

سلمان شوکت
اپنی تلاش میں گم۔۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply