محبت اب نہیں ہوگی(2،آخری قسط)۔۔محمد افضل حیدر

دو دن بھی ایسے تیسے گزر گئے قاری صاحب کلاس پڑھا رہے تھے اور فیضان کا وہ پیریڈ خالی تھا اس لیے اس سے صبر نہیں ہوا اور وہ سیدھا ان کے پیچھے ان کی کلاس تک چلا گیا۔ اسے دیکھتے ہی وہ فوری باہر آئے کندھے پر ہاتھ رکھا چشمہ اتارا اور سرد آہ بھرتے ہی گویا ہوئے۔
“میں کل مغرب کی نماز کے بعد منیر صاحب کے گھر گیا تھا بہت تپاک سے ملے۔خوب خاطر کی۔ میں نے ان سے کھل کر بات کی۔ کہا کہ بچی کی شادی کی عمر ہے میری نظر میں اچھی فیملی کا پڑھا لکھا لڑکا ہے مستقل نوکری ہے خوش شکل ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو رشتے کی بات چل سکتی ہے۔

حاجی منیر صاحب رکھ رکھاؤ والے آدمی ہیں۔بہت مناسب انداز میں بات کرتے ہیں ادھر بھی انہوں نے دو ٹوک اور مناسب بات ہی کی کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ کہنے لگے:”
“محترم قدوس صاحب! آپ میرے ہاں وقت نکال کر تشریف لائے مجھے اس کی بے حد خوشی ہے,آپ میرے لئے انتہائی قابل احترام ہیں۔مومنہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے شروع دن سے ہی یہ مجھے تمام اولاد سے زیادہ عزیز رہی ہے۔اس کی پسند نا پسند کا میں نے ہر لحاظ سے خیال رکھا ہے۔ مگر شادی بہرحال ایک ایسا فیصلہ ہے جو کہ والدین ہی کو کرنا ہے۔مختصر یہ کہ ہمارے ہاں بچیوں کی شادی خاندان سے باہر کرنے کا رواج نہیں ہے,میں خاندان میں ہی مومنہ کے لئے کوئی مناسب رشتہ تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔باقی ہوگا وہی جو اللہ کو منظور ہوگا فی الحال میرا یہی ارادہ ہے”

قاری صاحب کی بات سن کر ناجانے کیوں اسے زیادہ مایوسی نہیں ہوئی۔ وہ شا ید  اسی قسم کے جواب کی توقع کر رہا تھا جو قدوس صاحب نے اسے بتایا تھا۔اس نے اس موقع پر یہ فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے آج ہر صورت مومنہ سے اپنی محبت کا اظہار کرنا ہے۔ اگر وہ اس موقع پر بھی اس سے کچھ نا بول پایا تو بہت دیر ہو جائے گی۔ رات نیند کے بستر پر بے چین لیٹے رہنے اور کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے مومنہ کو ایک مختصر سا وٹس ایپ میسج بھیجا۔
“مجھے ٹھیک سے کچھ نہیں پتہ یہ سب کیسا ہے کیوں ہے,ہونا چاہیے تھا یا نہیں میں سچ میں کچھ نہیں جانتا,یہ بھی نہیں پتہ کہ میرے دل میں پنپنے والے احساسات کو کیا نام دیا جائے,یہ سب محبت ہے یا کیا ہے یہ بھی معلوم نہیں۔بس اتنا معلوم ہے جب سے آپ کو دیکھا ہے تب سے بس آپ ہی کو دیکھا ہے۔کوئی پل کوئی لمحہ ایسا نہیں جب آپ سے متعلق نہ  سوچا ہو,ایسے لگتا ہے جیسے یہ سب اب میری زندگی کا لازمی حصہ ہے۔اور ایسا نہ کرنا میرے اختیار میں نہیں رہا۔ مجھے لگتا ہے یہ احساسات محبت جیسے پاکیزہ جذبے سے ذرا کم نہیں ہیں, سچ پوچھیں تو میں آپ کو دل و جان سے چاہتا ہوں اور اپنی آنے والی زندگی آپ کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے آپ میرے جذبات کی قدر کریں گی۔ اور ہاں! میں یقین دلاتا ہوں ایک ساتھ زندگی گزارنے کے لئے میں ایک مناسب انتخاب ثابت ہوں گا”

پیغام بھیجنے کے کافی بعد تک وہ بار بار اس کے پروفائل میں آکر دیکھتا رہا کہ اس نے پیغام پڑھا ہے یا نہیں۔اس کے جواب کا انتظار کرتے کرتے اسے نیند نے آ لیا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سو گیا۔
اس نے صبح اٹھتے ہی وٹس ایپ کھول کر دیکھا تو خوشگوار حیرت سے جھوم گیا۔مومنہ نے رات کے پچھلے پہر جو میسج کیا تھا وہ کچھ یوں تھا۔

“میں نے آپ کا پیغام پڑھا,پڑھ کر کافی دیر تک سوچتی رہی کہ میں اسے نظر انداز کردوں یا مجھے اس کا جواب دینا چاہیے۔خیر! مجھے اچھا لگا کہ آپ نے اس معاملے کو کسی اور کے سامنے اچھالنے کی بجائے سیدھا مجھ سے بات کی۔چاہا جانا اور کسی کو چاہنا بہت خوبصورت طرز احساس اور خوش قسمتی کی بات ہے مگر میرے جیسی لڑکیوں کی قسمت میں شاید یہ سب نہیں ہے۔ میں اپنی دانست میں اپنے بڑوں کی ناموس کی پہرے دار بننا چاہوں گی راہزن ہرگز نہیں۔مجھے اس چیز پر فخر ہوگا کہ میں نے اپنے والدین کے فیصلوں کے احترام میں اپنی خوشیوں کی قربانی دی تھی۔ہو سکتا ہے وہ قربانی بھی نہ ہو کل کو وہ خوشیاں بھی میری بن جائیں جو کہ میرے والدین نے میرے لیے چنی تھیں۔ شاید  کچھ دنوں بعد جاب چھوڑ دوں کیونکہ میرے ابو جہاں میری شادی کرنا چاہتے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ میں نوکری نہ  کروں۔باقی ہونا وہی ہوتا ہے جو نصیب میں ہو میں بھی اپنی قسمت کے لکھے کو پڑھنے کے انتظار میں ہوں۔ دعا گو ہوں ایسا کچھ نہ  لکھا ہو جس سے نہ  میرے خواب ٹوٹیں اور نہ  میرے گھر والوں کی مجھ سے جڑی امیدیں۔
بے شک اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ ”

مومنہ نے اپنے اس مختصر سے پیغام میں نہ  کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ دیا تھا ,وہ خواب ضرور دیکھتی تھی مگر تعبیر کی تمنا کیے بغیر وہ محبت پر ایمان بھی رکھتی تھی مگر اس سے زیادہ بڑوں کی عزت و ناموس پر بھی۔وہ شخصی آزادی پر یقین تو رکھتی تھی مگر اس کی قیمت چکائے بغیر۔

فیضان نے اس وقت خود سے عہد کیا کہ وہ اس کے خواب اس کی آزادی کسی بھی قیمت پر اس کو لوٹائے گا۔

اگلے دن مومنہ نے کالج سے چھٹی کی تھی شاید  فیضان سے نظریں نہیں ملانا چاہتی تھی۔دن بارہ بجے کا وقت تھا سٹاف اور انتظامیہ کی تمام نظریں ویٹنگ ایریا میں لگی ایل ای ڈی پر گڑی  ہوئی تھیں کچھ ہی دیر بعد وہی اعلان ہوا جس کی سب کو توقع تھی ملک کے تمام سکول اور کالجز عالمی وبا کے پھیلاؤ کے پیش نظر غیر معینہ مدت تک کے لئے بند کر دیئے گئے تھے, تعلیمی اداروں کا یوں بند ہونا اس کے لئے سوہانِ روح ثابت ہوا کیونکہ اس نے کالج چھوڑ کر پتہ نہیں کتنے دن کے لئے گھر چلے جانا تھا۔لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں اپنے گھر والوں سے بات کرکے اور انہیں منا کر مومنہ کے گھر بھیجنا اس کے لئے پریشانی کا باعث تھا۔کالج سے فراغت کے بعد گھر پہنچتے ہی اس نے بڑی بہن سے بات کی۔اس نے اس کی بات سننے کے بعد اسے مومنہ سے رابطہ کرکے اسے قائل کرنے کو کہا۔ان کے ہاں رشتہ بھیجنے سے پہلے مومنہ کی رضامندی بے حد ضروری تھی۔ بہن کے اصرار پر اس نے رات دس بجے کے قریب مومنہ کو مخاطب کے ایک دو پیغامات بھیجے مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔

وہ صبح نیند سے جاگا تو دماغ اس وقت بھی مومنہ کی طرف ہی اٹکا ہوا تھا دل و دماغ میں طرح طرح کے وسوسے اُمڈ آئے تھے کہیں اس کا رشتہ تو نہیں طے ہو گیا,گھر والوں نے موبائل تو نہیں لے لیا اس سے۔۔معاملہ جو بھی تھا اس سے رابطہ نا ہونا فیضان کے لئے باعث کرب تھا۔ اس روز وہ مسلسل رات گئے تک اس کو پیغامات بھیجتا رہا مگر دوسری طرف سے صبر آزما خاموشی اس کا جی ڈبوتی رہی۔

اس رات بار بار کوشش کے باوجود اسے نیند نہ  آئی تو اس نے اپنی کانٹیکٹ لسٹ کو کھول کر یوں ہی بے دھیانی میں سکرول کرنا شروع کیا تو سامنے اچانک افشین کے نام اور فون نمبر نے اس کی توجہ کو کچھ دیر کے لئے جذب کیا۔اسے من ہی من خیال گزرا کیوں نا افشین سے رابطہ کرکے اس کو ساری صورت حال بتائی جائے ہو سکتا ہے اس کے پاس اس مسلئے کا کوئی حل ہو۔
اس نے فوری سے بھی پہلے اسے میسج کیا۔
“ہیلو افشین ”
دوسری طرف کافی انتظار کے بعد بھی کوئی جواب نہ  آیا۔اس نے لمبے توقف کے بعد اسے پھر پیغام بھیجا افشین پلیز جواب دو ۔کافی الجھن میں ہوں،تمہارے علاوہ ایسا کوئی نظر نہیں آیا جس سے یہ بات کر سکوں۔پلیز میری بات کا جواب دو۔

کچھ دیر کے وقفے کے بعد اس کے موبائل کی وٹس ایپ سکرین پر افشین کا پیغام نمودار ہوا۔مجھے نہیں پتہ میں اب بھی تمہیں کوئی جواب لکھ رہی ہوں شاید نہ  ہی  لکھتی مگر تم نے الجھن میں ہونے کی بات کی تو نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو روک نہیں پائی۔
خیر !بتاؤ کیسی الجھن؟
اب سوچ رہا ہوں کس منہ سے تم سے یہ بات کروں۔
منہ سے کرنے کی ضرورت نہیں صرف ہاتھ سے لکھ دو جو بھی بات ہے اگر نہیں کہنا چاہتے تو کوئی بات نہیں یہ تمہاری چوائس ہے۔
افشین! مجھے محبت ہو گئی  ہے۔
اوہ! بڑی بات ہے۔آپ جیسے لوگوں کو بھی محبت ہو جاتی ہے۔ جان کر حیرت ہوئی۔
محبت بس ہو جاتی ہے افشین۔۔خود پہ کوئی اختیار نہیں رہتا۔۔
اچھا۔۔۔۔بڑی بات ہے۔۔۔اور۔۔۔
اور کیا۔۔؟
اب رابطہ تم نے کیا تھا تم ہی بتاؤ گے ۔
میں نے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے تمہیں اپنا جان کر تم سے بات کی افشین۔
اپنا۔۔۔ویری فنی۔۔۔
افشین ایسے کیوں بی ہیو کر رہی ہو میرے ساتھ۔۔

میرے خیال میں یہ رویہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا آج سے تین سال پہلے یونیورسٹی کانووکیشن والے دن میرے ایک کلاس فیلو کا تھا۔میرے خیال میں وہ  زیادہ سخت اور غیر متوقع تھا،جس کی شدت اور تلخی کو کسی نے پل پل محسوس کیا ہے۔بات خواہ مخواہ لمبی ہو رہی ہے تم بتاؤ آج کیوں رابطہ کیا ۔
افشین مجھے محبت ہے کسی سے مومنہ نام ہے اس کا میرے ساتھ کالج میں پڑھاتی ہے۔تمہارے دل کی طرح خوبصورت اور پاک ہے۔
ہاہاہا تم آج بہت عجیب عجیب باتیں کررہے ہو۔میرا دل کہاں خوبصورت ہے ۔۔دل ویسے بھی کون دیکھتا ہے۔چہرے نظر آتے ہیں جنہیں لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔اینی ہاؤ ۔۔نام تو پیارا ہے تمہاری مومنہ کا۔۔کوئی تصویر وغیرہ ہے تو مجھے بھیجو میں بھی دیکھوں کون خوش نصیب ہے وہ۔
تصویر تو نہیں ہے۔۔
خیر ویٹ کرو میں کالج کے فیس بک پیج پر فیکلٹی پورٹل ہے وہاں سے کاپی کرکے بھیجتا ہوں تمہیں۔۔
اوکے۔۔
ہاں تو کیسی لگی میری مومنہ۔۔؟؟
کچھ دیر کے توقف کے بعد۔۔
بہت خوبصورت۔۔۔ لیکن
کیا لیکن۔۔؟
لیکن یہ کہ آج پھر دیر کر دی تم نے۔
پورا نام مومنہ منیر۔سول لائن کے بڑے پبلک سکول میں بائیو پڑھاتی ہے ؟؟؟
ہاں بالکل۔۔تم کیسے جانتی ہو اسے؟؟
سنا تھا اتفاقات زمانہ نام کا بھی کچھ ہوتا ہے آج سچ میں دیکھ لیا۔۔
اس بار تم نے رانگ انٹری مار دی فیضی۔۔
سن کر حیران ہو گے پتہ نہیں یقین بھی کرو یا نہیں مگر یہ سچ ہے کہ اس وقت وہ میرے سامنے ہی بیٹھی ہے۔
ہیں۔۔ سامنے بیٹھی ہے۔۔۔کیا مطلب ؟
مطلب یہ کہ تم جس مومنہ منیر کی بات کر رہے ہو وہ اور میں ایک ہی کمرے میں ایک ہی بیڈ پر ایک ساتھ بیٹھے ہیں اس وقت۔۔میرے ماموں کی بیٹی ہے۔
آج میرے سگے بھائی کے ساتھ نکاح ہے اس کا۔
کیا مذاق ہے یہ۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ یقین کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اس وقت۔
اب مذاق کی میری عمر نہیں رہی فیضی! تھوڑا ویٹ کرو ابھی ثبوت بھیجتی ہوں تمہیں۔۔
کچھ ہی دیر میں عروسی لباس میں ملبوس مومنہ اور سبز رنگ کے لہنگے میں سجی افشین کی تصویر اس کی موبائل سکرین پر اس کے ہوش اڑا رہی تھی۔
وہ ابھی بھی اس خواب سے جاگنے کی کوشش کر رہا تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قسمت اس کے ساتھ اس وقت اتنا بڑا کھیل کھیل جائے گی۔
“زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں فیضان۔

اگر ہمت اور وقت ہے تو چند باتیں سن لو میری۔سب کچھ اپنے وقت پر اور قدرت کی طرف سے لکھے گئے سکرپٹ کے مطابق ہوتا ہے۔ آج سے تین سال پہلے جب تم یونیورسٹی کے کانووکیشن والے دن مجھے میری محبت سمیت اپنے پاؤں تلے روند کر اپنے حسین خوابوں کی تلاش میں وہاں سے چل دیے تھے۔ایک بار بھی نہ  سوچا کہ میرے بھی کچھ خواب تھے ارمان تھے جنہیں تم نے اپنے خوابوں کے عوض بیچ ڈالا اس دن۔محبت کسی کے سامنے چیخ چیخ کر   بتائی یا سمجھائی نہیں جاتی۔۔محبت تو خوشبو کی طرح محسوس کی جاتی ہے۔محبت تو سوالی کے ضرورت کی طرح آنکھوں سے پڑھ لی جاتی ہے۔ میں ان دنوں یہ کہہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دیتی رہی کہ میرا فیضی اتنا بے مروت نہیں۔۔ایک دن آئے گا تم شہزادوں کی طرح گھوڑے پر سوار ہو کر آؤ  گے اور مجھے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے جاؤ گے۔مگر وہ دن کبھی نہیں آیا آج تم نے رابطہ کیا بھی تو کسی اور کے لئے۔میں یہ ماننے پر مجبور ہوں کہ محبت صرف خوبصورت چہروں کے ساتھ اور میرے جیسیوں کے ساتھ صرف دھوکا ہوتا ہے۔مجھ میں اب مزید قربانی دینے کی سکت نہیں ہے فیضی! یہ توقع ہرگز مت رکھنا کہ مووی کے کلائمکس کی طرح تمہیں یہ کہوں کہ مومنہ تیری ہے اور تجھے ہی ملے گی آسکتے ہو تو آ جاؤ۔ یہ سب قصے کہانیوں اور فلموں میں تو ضرور ہوتا ہوگا مگر حقیقی زندگی کی حقیقتیں اس سے بہت مختلف ہیں۔

اس کا نکاح اس کی مرضی اور خوشی سے ہو رہا ہے اس نے ایک موقع پر بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔اور ہاں!

Advertisements
julia rana solicitors london

تم یکطرفہ محبت کی رسوائی اور نا رسائی کے کرب سے گزرو تو مجھے ضرور یاد کرنا کیونکہ مجھے ان دونوں کا خوب تجربہ ہے۔

Facebook Comments

محمد افضل حیدر
محمد افضل حیدر شعبہء تدریس سے وابستہ ہیں.عرصہ دراز سے کالم , اور افسانہ نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھا رہے ہیں..معاشرے کی نا ہمواریوں اور ریشہ دوانیوں پر دل گرفتہ ہوتے ہیں.. جب گھٹن کا احساس بڑھ جائے تو پھر لکھتے ہیں..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply