سیدہ طاہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

سترہ رمضان المبارک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا یوم وفات ہے۔اور اس دن کی مناسبت سے جب میں نے یہ ارادہ کیا کہ کچھ لکھا جائے اور آج کے عصر میں اسے لکھا جائے تو اچانک مجھے بہت کم مائیگی کا احساس ہوا۔میں اس حوالے سے ایک واقعہ ذکر کرنا چاہوں گا۔میں ایک مرتبہ پاکستان کی بہت بڑی فیمنسٹ دانشور خاتون سے ملنے گیا ہوا تھا اور ملاقات کے دوران ان سے میں نے کہا کہ آپ مسلم تاریخ کی اولین نسائی کرداروں پہ کچھ لکھیں اور کچھ ایسا لکھیں جیسا لکھنے کی کوشش فاطمہ مرینسی اور لیلی احمد نے کی تھی۔ اور میں نے فاطمہ مرینسی کی کتاب ” پردہ اور مرد اشرافیہ ” کا ذکر کیا اور کہا کہ کیسے فاطمہ مرینسی نے اس کتاب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے کردار کی تعبیر نو کرتے عورتوں کی سیاسی و سماجی تحریکوں کی رہبری کرنے کے ساتھ ساتھ عورتوں کے دانشورانہ کردار کے جواز کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذات گرامی میں دیکھا تھا۔ تو مجھے وہ مہان فیمنسٹ دانشور خاتون استاد کہنے لگی کہ ان کی بڑی خواہش رہی ہے کہ وہ فاطمہ مرینسی کی حضرت عائشہ صدیقہ کے کردار کی تعبیر نو کے اجمال کو کھل کر بیان کرنا اور اسے کتابی شکل میں لیکر آئیں لیکن ان کو شک ہے کہ پاکستانی سماج اتنا فراغ دل ثابت ہوگا جتنا فاطمہ مرینسی کے باب میں ان کا معاشرہ ثابت ہوا تھا۔کہنے لگیں کہ فاطمہ مرینسی نے جو بات فرانسیسی زبان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قائدانہ کردار بارے لکھی تھی اسے اردو میں کہہ ڈالنا بہت مشکل ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ آخرکار فاطمہ مرینسی نے کون سی غلط بات کی تھی جب انہوں نے یہ کہا کہ اسلام کی پہلی صدی ہجری کے وہ سال جس میں پیغمبر اسلام موجود تھے اس زمانے میں مرد و عورت دونوں برابری کی سطح کے سلوک سے ہمکنار ہوتے تھے۔انہوں نے کہا کہ مدینہ میں مسجد کے دروازے صرف مردوں کے لئے ہی نہیں بلکہ عورتوں کے لئے کھلے رکھے گئے تھے۔اور مسجد سیاسی، سماجی ، نفسیاتی ، معاشرتی غرض کہ ہر طح کے بحث و مباحثہ کا مرکز تھی اور اس میں مرد و عورت دونوں برابر کی حصّہ داری ڈالتے تھے۔ یہ سنکر وہ خاتون زرا خاموش ہوگئیں اور ابتک میں ان کی کتاب لکھے جانے کا منتظر ہوں۔
فاطمہ مرینسی کا کہنا ہے کہ جنگ جمل میں اگر جمہور کی تعبیر کے ساتھ بھی دیکھا جائے تو ان کا فوج کی کمانڈ کرنا، سیاسی تحریک کی سب سے بڑی طاقتور آواز کے طور پہ حضرت عآئشہ صدیقہ کا سامنے آنا ‘بدعت ‘ کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ایک بڑی سیاسی تحریک کی قائد کے طور پہ اس وقت کے بڑے بڑے جید صحابہ کرام نے تسلیم کیا اور ان کا یہ تسلیم کرنا اس بات کی جانب کم از کم اشارہ کرتا ہے کہ عورتوں کی جانب سے سیاسی راہنمائی کرنا معمول کی بات ہے۔
فاطمہ مرینسی کا یہ بھی کہنا ہے خود حصرت ‏عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جنگ جمل میں شرکت پہ افسوس کا جو اظہار کیا اس سے ظاہر ہوتا کہ لشکر کو لیڈ کرنا ، سیاسی تحریک کے رہبر کے طور پہ کام کرنا ان کے نزدیک بدعت نہ تھا۔بلکہ افسوس اس بات پہ تھا کہ وہ ناحق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مدمقابل آئیں۔فاطمہ مرینسی کہتی ہیں کہ مسلم عرب تاریخ میں جو عورتیں آج کی جدید مسلم دنیا میں رول ماڈل بنی ہیں ان میں حضرت خدیجۃ الکبری فداک ابی و امی کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نام سرفہرست آتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مسلم بن شھاب زھری کے الفاظ قابل غور ہیں:
اگر حضرت عائشہ کا سارا علم جمع کیا جائے اور پھر اس کے مقابلے میں باقی ازواج مطھرات کا علم جمع کیا جائے اور ایسے ہی ساری عورتوں کا علم جمع کرلیا جائے تو بھی علم عائشہ ان سب سے زیادہ نکلے گا۔
عطاء ابن رباح کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ مکّہ کے اندر موجود سب فقیہوں میں سب سے زیادہ بڑی فقیہہ تھیں۔سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھی۔
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ فقہ شناس،شعر شناس ، طب شناس نہیں دیکھا۔اور جتنی روایات ( ابوھریرہ کو چھوڑ کر ) ان سے روایت ہوئی ہیں اور کسی مرد یا عورت سے روایات نہیں ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زندگی بارے بعد از جنگ جمل جو احوال کتب ہائے تاریخ میں مرقوم ہوئے ہیں ان کا ایک سرسری سا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ اس جنگ سے واپسی کے بعد اگرچہ وہ پھر کسی تحریک کی قائد نہیں بنیں لیکن نظری طور پہ ان معاملات پہ غور و فکر انہوں نے ترک نہ کیا۔کتب تواریخ میں مذکور ہے کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ کا قصد کیا اور یزید کی بطور ولی عہد نامزدگی کرکے اس کے لئے بیعت لینا شروع کردی اور اس ضمن میں حمایت کے لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے گھر آیا تو آپ نے پوچھا کہ جب ابوبکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان و حضرت علی نے اپنا جانشین مقرر خود نہ کیا تو وہ کیسے یہ کررہے ہیں؟ اور زبردستی یا لالچ سے بیعت لینے پہ تنقید کی۔ایسے ہی محمد بن ابی بکر یعنی اپنے چھوٹے بھائی کی شہادت پہ سخت غم و غصّے کا اظہار بھی کیا۔اور ایسے نظر آتا ہے کہ جیسے اموی اشراف کے سیاسی و معاشی نظریات سے اور روش سے ان کا اختلاف بڑھتا ہی چلاگیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ایک اور بڑا کارنامہ ہے اور یہ ہے کہ یہ ان کی ذات تھی جس نے فقہ مکّہ کی بنیادیں استوار کیں اور انہی بنیادوں پہ آگے چل کر عطا ابن رباح ، عروہ بن زبیر ،مجاہد اور دیگر لوگوں نے مکّی فقہی مکتب کی عمارت کھڑی کی۔
فاطمہ مرینسی اور لیلی احمد کا کہنا ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مسلم عرب معاشرے کی ابتدائی دور کی انٹلیکچوئل ایکٹوسٹ تھیں جنھوں نے نظری،فکری اور عملی میدانوں میں اپنے گھوڑے دوڑائے۔یہ نظریہ اور عمل کے باہمی امتزاج کا حصّہ بنیں۔
ویسے حضرت ‏عائشہ صدیقہ کے سیاسی۔مذہبی نظریات کا ارتقائی جائزہ لینے کے لئے ان سے علمی فیض حاصل کرنے والوں کی سیاسی روش کا جائزہ لینا دلچسپ ہوسکتا ہے۔اہل مکّہ اور اہل مدینہ جن کی بہت بڑی تعداد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرچکی تھی نے نہ تو یزید کی جانشینی کو قبول کیا اور نہ ہی ان کے آگے ہتھیار ڈالے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ حکمرانی میں مکّہ و مدینہ کی گورنری امویوں کے پاس رہی خاص طور پہ مروان کی حکمرانی کے زمانے میں مروان کے خلاف فضاء بہت استوار ہوچکی تھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے امام حسن کی شہادت کے بعد ان کے اہل خانہ کی درخواست پہ اپنے لئے حجرہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مختص قبر کی جگہ دینے پہ رضامندی ظاہر کی لیکن مروان اور ان کے ساتھیوں نے اس کی مخالفت کی۔ایسے ہی جونہی حضرت معاویہ کا انتقال ہوا تو پھر اہل مکّہ و مدینہ کی اکثریت نے ان کے جانشین کے خلاف بغاوت کردی۔حجاج بن یوسف عطاء ابن ابی رباح ، مجاہد اور عروہ بن زبیر کو اہل الشقاق کہتا تھا جبکہ ان کبّار تابعین کی حضرت ‏عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا شاگردی ثابت ہے اور ان کی بنو امیہ سے سخت مخالفت بھی۔اس سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ کے آخری عمر میں کیا خیالات اور رجحانات تھے۔وہ حریت فکر کی نمائندہ بنکر سامنے آئیں۔
اس حوالے سے یہ حوالے کافی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا حجر بن عدی الکندی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے قتل بارے کیا موقف تھا اسے پڑھ کر آپ کے خیالات کا پتا چلایا جاسکتا ہے۔ اور جب مروان نے عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو وہ جان بچانے کے لئے حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر آگئے ،اس موقعہ پہ مروان نے جو کہا اور جواب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا اس سے بھی بہت کچھ واضح ہوجاتا ہے۔
امام احمد بن حنبل: مسند عائشہ، ج 4 صفحہ 92، مطبوعہ قاہرہ، مصر۔
ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، ج 4 حصہ اول، صفحہ 102، تذکرہ تحت سنہ ہجریہ 51ھ۔مطبوعہ لاہور۔
بن جریر طبری: تاریخ الامم والملوک، جلد 7 صفحہ 145، مطبوعہ قاہرہ، مصر۔
ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، ج 4 حصہ اول، صفحہ 101، تذکرہ تحت سنہ ہجریہ 51ھ۔مطبوعہ لاہور۔
حضرت عائشہ صدیقۃ رضی اللہ عنہا کے سیاسی و سماجی خیالات کی آج کا جو آل سعود نواز اور سعودی وہابی مذہبی اسٹبلشمنٹ کا حق نمک ادا کرنے والا ملائیت کا ٹولہ جو ہے وہ علمی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس زمانے کی شامی اسٹبلشمنٹ کے سیاسی و سماجی خیالات سے ناحق ہم آہنگی دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور درپردہ اپنی تکفیریت کے لئے جواز بھی تلاش کرتا نظر آتا لیکن مدینہ و مکّہ بلکہ اگر ہم حجاز کہیں تو اس کی جمہور کی روش بتاتی ہے کہ اس زمانے کی اموی اور شامی اسٹبلشمنٹ سے حجاز کی اکثریت کی سیاسی و سماجی ہم آہنگی رفتہ رفتہ بالکل ختم ہوگئی تھی۔اہل مکّہ و مدینہ نے صلح امام حسن رضی اللہ عنہ کا خیرمقدم کیا اور وہ پابند بیعت بھی رہے لیکن یزید کی جانشینی اور خلافت پہ براجمان ہوتے ہی انہوں نے علم بغاوت بلند کرڈالا جس کی سزا ان کو مسلم بن عقبہ کے حملے کی شکل میں دی گئی اور یہ سانحہ حرہ کے طور پہ سامنے آیا۔آپ کی بہن اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور زبیر بن عوام کے بیٹے عبداللہ بن زبیر شہید کردئے گئے۔
آخر میں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر کی سند صیحیح کے ساتھ ایک حدیث درج کررہا ہوں اور یہ کم از کم اموی اسٹبلشمنٹ اور ملوکیت کے خلاف خانوادہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے احباب کے نظریہ کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کرتی ہے:
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا عَوْفٌ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ أَنَّ الْحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ دَخَلَ عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَمَا قُتِلَ ابْنُهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ فَقَالَ إِنَّ ابْنَكِ أَلْحَدَ فِي هَذَا الْبَيْتِ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَذَاقَهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ وَفَعَلَ بِهِ مَا فَعَلَ فَقَالَتْ كَذَبْتَ كَانَ بَرًّا بِالْوَالِدَيْنِ صَوَّامًا قَوَّامًا وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ثَقِيفٍ كَذَّابَانِ الْآخِرُ مِنْهُمَا شَرٌّ مِنْ الْأَوَّلِ وَهُوَ مُبِيرٌ
ابو الصدیق ناجی کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کر چکا تو حضرت اسماء کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ کے بیٹے نے حرم شریف میں کجی کی راہ اختیار کی تھی، اس لئے اللہ نے اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھا دیا اور اس کے ساتھ جو کرنا تھا سو کر لیا، انہوں نے فرمایا تو جھوٹ بولتا ہے، وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنیوالا تھا، صائم النہار اور قائم اللیل تھا، واللہ ہمیں نبی علیہ السلام پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ بنوثقیف میں سے دو کذاب آدمیوں خروج عنقریب ہوگا، جن میں سے دوسرا پہلے کی نبست زیادہ بڑا شر اور فتنہ ہوگا اور وہ مبیر ہو گا۔
مسند امام احمد بن حنبل حدیث 6842 ( نوٹ اس سے خود امام احمد بن حنبل کے نظریہ کی عکاسی بھی ہوتی ہے )
وکیپیڈیا پہ اس لنک میں بھی اس معاملے پہ کافی روشنی ڈالی گئی ہے۔
https://ur.wikipedia.org/…/%D8%B9%D8%A7%D8%A6%D8%B4%DB%81_%…

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply