“الأستاذ” فلسطینی فلم/منصور ندیم

یہ حالیہ ریڈ سی فیسٹیول میں پیشکش کی جانے  والی ایک فلسطینی فلم ہے جسے فلسطینی ہدایتکار فرح النابلسی نے بنایا ہے، مگر فرح  النابلسی کے علاوہ بھی ایک برطانوی اور قطری پروڈیوسر اس فلم میں شامل ہیں، اس فلم کو ایک اتفاق نہیں کہہ سکتے کہ موجود فلسطین کے واقعات سے اس کا ربط  بن رہا ہے، فرح النابلسی پہلے بھی اس موضوع پر ایک فلم بنا چکی ہیں، ان کے مقصود یہی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے معاملے کو بغیر کسی جھول کے فلم میں پیش کرسکیں، ان کا اصل مقصد مغربی ناظرین کی توجہ دلوانا ہے کہ وہ اس موضوع کو کبھی یکطرفہ موقف نہ سمجھیں۔ فلم کا مرکزی کردار (صالح بکری) دکھایا گیا ہے جو ایک اسکول ٹیچر ہیں۔ اس کے شاگردوں میں دو بھائی بھی شامل ہیں جن کا خاندان زیتون کے کھیت کا مالک ہے۔ ایک دن اس خاندان کا گھر عدالتی فیصلے کے ذریعے منہدم ہو جاتا ہے (فلم میں اس کی وجوہات نہیں بتائی گئیں مگر وجہ کے بارے میں تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے؛ یہ جبری آباد کاری کے لئے صرف مسمار کرنے کا جواز ہے)، جس کی وجہ سے وہ دوسری پناہ گاہ میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد، بڑا بھائی یہودی آباد کاروں کو زیتون کے درختوں کو جلاتے ہوئے دیکھ کر کھیت کی طرف بھاگتا ہے ، جہاں اس کا جھگڑا ہوجاتا ہے اور وہ اس جھگڑے میں دشمنی بنا لیتا ہے، جس کے بعد اسی بھائی کو کوئی  گولیاں مارکر ہلاک کردیتا ہے۔

فلم میں بیک وقت اقوام متحدہ کے ایک مندوب جس کا نام (اموجن پوٹس) ہے، کو بھی دکھایا گیا ہے، جو اس سارے واقعے کو قریب سے جانتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور اس مقدمے میں شرکت کرتا ہے جہاں اس واقعے میں ہلاک ہونے والے بھائی کے قاتل کو “ثبوت کی کمی” کی بنیاد پر رہا کردیا جاتا ہے، فلم میں یہاں وہ وقت آتا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد اب دوسرا چھوٹا بھائی اپنے ذہن میں ایک فیصلے کی بنیاد رکھتا ہے کہ وہ ایک دن ان آبادکاروں سے اپنے بھائی کا بدلہ لے گا۔ یہیں پر یہ اسکول ٹیچر صالح بکری اپنے آپ کو ایک مشکل صورت حال میں دیکھتا ہے، اسی فلم میں دوسری جانب ایک امریکی سفارت کار اور ان کی اہلیہ اپنے مغوی بیٹے کی واپسی کی درخواست کر رہے ہیں، ایک فوجی جو تین سال سے فلسطینی مزاحمتی گروپ کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ سپاہی کی رہائی کے بدلے میں، وہ گروپ 1,000 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے، ایک ایسا امکان جسے حکومت قبول نہیں کر سکتی یا نہیں کرے گی، اس خوف سے کہ اس سے دوسرے اغوا کاروں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ وہ والدین اس معاملے میں پیش رفت نہ ہونے سے مایوس ہو جاتے ہیں، تلاش کا دائرہ پوری قوت سے صالح بکری کے پڑوس میں منتقل ہو جاتا ہے۔

یہاں اصل موضوع اس لڑکے کے والدین کو دکھایا جاتا ہے اور ان کے احساسات کا اظہار دکھایا جاتا ہے کہ ایسے موقع پر دونوں اطراف میں نقصان ایک جیسا سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لڑکے کے والدین کے  احساسات اور صورتِ  حال جو اس داستان کے تناظر میں پیدا ہوتی ہے پھر اس استاد اور مندوب کے احساسات کا اظہار اور فلسطین کے حالات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ فرح االنابلسی نے اس فلم کی کہانی میں تمام پہلوؤں کا خیال رکھنے میں کوئی الجھن یا کمزوری نہیں دکھائی، صالح بکری نے فلم میں بہترین اداکاری دکھائی ہے۔ اس فلم کے آخر میں، ایک ٹی وی پریزینٹر کو اسرائیلی فوج کے چھاپوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، یہ فلم موجودہ جنگ سے پہلے  مکمل ہو چکی تھی، لیکن اس کا اختتام جس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ غزہ پر ہوائی جہازوں کے ذریعے یا کسی اور طرح سے بمباری عملاً کبھی نہیں رُکی اور یہ ایک تسلسل کا عمل جاری ہے۔ فلم میں مرکزی کردار کو انگریزی کا  استاد دکھایا ہے، اس لئے فلم میں ذخیرہ الفاظ بھی اس زبان میں بے ساختہ بولنے میں وسیع تر نظر آتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ فلم سنہء 2023 میں ہی سینما پر آئی ہے۔ اور اس کی بہت ساری مماثلت حالیہ واقعات سے ملتی نظر آتی ہیں۔ یہ فلم فلسطین میں مغربی کنارے میں بہت مشکل حالات میں فلمائی گئی، اس کا دورانیہ ایک گھنٹہ 55 منٹ ہے اور اسے ایک برطانوی، فلسطینی اور قطری نے پروڈیوس کیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply