شادی گیندا پھول ۔۔۔۔ثنا اللہ خان احسن

مہندی کا فنکشن شادی کا سب سے زیادہ پرلطف اور پر رونق فنکشن سمجھا جاتا ہے جس میں جی بھر کر گانا بجانا اور ناچ باجا کیا جاتا ہے۔ آجکل مہندی کے فنکشن باقاعدہ بڑے پیمانے پر ارینج کئے جاتے ہیں جن میں میوزیکل بینڈز اور پروفیشنل گلوکاروں کو بلایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہرے اور پیلے رنگ کے لباس سلوائے جاتے ہیں جب کہ لڑکی کے لیے بھی پھولوں کا زیور تیار کیا جاتا ہے۔ لڑکے سفید کپڑوں پر ہرے اور پیلے رنگ کے پٹکے گلوں میں ڈالتے ہیں۔ تمام رات ناچ گانا اور ہلہ گلا ہوتا ہے۔ اسی فنکشن کے دوران نہ جانے اور کتنے مستقبل کے جوڑے ایک دوسرے کو پسند کر لیتے ہیں کہ اکثر زرد رنگ کے چولی گھاگھرے یا شرارے یا چوڑیدار اور پشواز میں ملبوس خوشبوؤں  میں بسی بیوٹی پارلر سے تیار شدہ نوجوان لڑکیوں کی اس کیل کانٹوں سے لیس یلغار اور جھکی شرمیلی نگاہوں کے گاہے بگاہے وار سے اکثر کنوارے ڈھیر ہو جاتے ہیں جبکہ شادی شدہ حضرات کے دل میں بھی ایک مرتبہ پھر سہرا باندھنے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے لیکن ، ہزاروں خواہشیں ایسی ۔۔۔۔۔
رسم مہندی کا پس منظر:
اس رسم کا بھی مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ ہندو عقیدے کے مطابق جب شیوا جی کی بھوانی دیوی سے شادی طے ہوئی تو انھیں دیگر دیویوں نے مہندی لگائی تھی۔ویدوں نے غالباً  مہندی اس لئے تجویز کی تھی کہ مہندی دراصل ٹھنڈی تاثیر رکھتی ہے اور شادی سے کچھ دن پہلے کی گرمی و گھبراہٹ اور طبیعت میں موجود انتشار کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے ۔ تلووں اور ہتھیلیوں میں مہندی لگانے سے طبیعت میں سکون پیدا ہوتا ہے۔ مہندی لانے کے لئے آجکل باقاعدہ انتہائی  دیدہ زیب باسکٹیں، اور دیگر ڈیزائن کی ٹرے اور برتن استعمال کئے جاتے ہیں جن میں خوبصورتی سے مہندی سجا کر اس کے چاروں طرف چراغ اور مومی شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔ دلہا کی بہنیں اور خاندان کی دیگر خوبصورت لڑکیاں جب فل میک اپ اور شیمپو و کنڈیشنر شدہ ریشمی کھلے بالوں کی خوشبوئیں اڑاتی ، کلائیوں میں موتیا اور گلاب کے کنگن ، بالوں میں گجرے لگائے، ان چراغی تھالیوں کو اپنے حنائ ہاتھوں میں اٹھائے جب ایک ساتھ گیت گاتی پنڈال میں داخل ہوتی ہیں تو چراغوں کی روشنی کے ہالے میں چمکتے ان کے گلابی چہرے نہ جانے کتنے کلیجوں پر تیر چلاتے ہیں۔ تو نے ماری انٹری اور دل میں بجی گھنٹی ٹن ٹن ٹن ٹن۔۔۔۔۔
لڑکیاں بھی اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں کہ ایسا طلسماتی ماحول اور تمام تر لچک مٹک دکھانے کا اس سے بہتر موقع کوئی  اور نہیں ہوتا۔ ہر لڑکی کو بہت اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ کون کون سی نظر اس پر جمی ہے اور کس کس کونے میں کون کون سا مرغ ان کی اداؤں کے خنجر سے بسمل ہو رہا ہے لیکن مجال ہے جو ذرا سا بھی ظاہر کردیں بلکہ انتہائی  معصوم اور بھولی شکل بنائے اپنی مسکارا زدہ آنکھوں کو ان کےنارمل سائز سے ڈبل کھولے بالکل معصوم و انجان بنی جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی بظاہر تمام تر توجہ چراغوں پر رکھتی ہیں کہ کہیں بجھ نہ جائیں… تمام تر حرکات و سکنات سے یہ ظاہر کرتی رہتی ہیں کہ گویا ان کو ان تمام تر باتوں کا کوئی  علم ہی نہیں اور وہ معصوم بچیاں تو محض مہندی لے کر آئی  ہیں۔ ۔ ۔ بلکہ شادی کے بعد اگر ان بسملوں میں سے کسی ایک کا رشتہ ان کے گھر آتا ہے تو آنکھیں پھاڑ کر حیرت کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ ہائے اللہ میں ان کو کیا پسند آگئی!!!! انہوں نے مجھے کب دیکھ لیا؟؟!! وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ویسے حقیقت یہی ہے کہ مہندی کی رات بسمل شدہ مرغا اگر اس وقت گھر میں موجود اس لڑکی کو آلو جیسا جوڑا باندھے ، بغیر میک اپ شدہ زرد چہرہ اور اکا دکا پمپلز پر بیٹنوویٹ کریم لگائے اس کو دیکھ لے تو اپنا سر پیٹ لے کہ یہ مجھ کو کیا پسند آگئی تھی!!!؟ مہندی کے فنکشن میں تمام تر سجاوٹ کے لئے عام طور پر گیندے کے پھول استعمال کئے جاتے ہیں۔ پورا اسٹیج گیندے کے پھولوں کی لڑیوں سے خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے جس کے لئے فلاور ڈیکوریشن والے اچھی خاصی رقم لیتے ہیں۔ بہرحال مہندی کی رات کو بھرپور طریقے سے انجوائے کیا جاتا ہے بلکہ اب تو ماڈرن گھرانوں میں باقاعدی دلہن بھی ڈانس کرتی ہے۔ انڈین فلموں کے رقص اور گانوں کی بھرپور نقل کی جاتی ہے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں باقاعدہ گروپ میں انڈین گانوں پر رقص کرتے ہیں جس کہ ہفتوں پہلے پریکٹس شروع کردی جاتی ہے۔ ایسی بے شمار وڈیوز آپ یو ٹیوب پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مہندی میں عام طور پر کھانے میں سیخ کباب، بہاری کباب، چکن تکہ بوٹی اور پراٹھا وغیرہ سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ پہلے مہندی کی رسم دلہا اور دلہن کے گھر الگ الگ ہوتی تھیں لیکن اب باقاعدہ دونوں خاندان مل کر ایک ہی دن ایک ساتھ یہ فنکشن ارینج کرتے ہیں جس کے لئے بھی باقاعدہ ھال بک کروایا جاتا ہے یا پھر گلی میں پیلے اور سبز رنگ کا ٹینٹ لگا کر یہ تقریب کی جاتی ہے۔ اس موقع پر ڈھولچیوں کو بھی بلایا جاتا ہے ۔کراچی کی ہر معرف چورنگی پر یہ ڈھولچی زرد اور ہرے سرخ لباس اور پگڑیوں میں سر شام سے ہی جمع ہوجاتے ہیں جہاں سے ان کو فنکشن کرانے والے مناسب معاوضے پر لے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر افراد کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔جب یہ ڈھول بجاتے ہیں تو مہندی میں شریک افراد ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے اور لڈیاں ڈالتے ہیں۔
بارات یا شادی کا دن:
یہ شادی کی سب سے بڑی تقریب ہوتی ہے دونوں خاندانوں کےتمام رشتہ دار دوست و احباب اس تقریب میں مدعو ہوتے ہیں۔شادی والے دن دلہن تقریبا سہ پہر تین بجے ہی بیوٹی پارلر پہنچا دی جاتی ہے ۔ دلہن کا عروسی جوڑا اور زیورات بھی ایک سوٹ کیس میں دلہن کے ساتھ جاتے ہیں۔ جہاں اس کو مکمل دلہن بنانے میں تین سے چار گھنٹے بلکہ اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہوتا ہے- شادی کی۔ یہ تقریب کسی بڑے شادی ہال یا ہوٹل یا بینکوئٹ میں منعقد کی جاتی ہے۔ ھال کی سجاوٹ بھی قابل دید ہوتی ہے۔ آجکل باقاعدہ شادی ھال والے بکنگ کے وقت ایک البم پیش کرتے ہیں جس میں ہال کی سجاوٹ اور فلاور ارینجمنٹ کے درجنوں ڈیزائن یا تھیمز ہوتے ہیں جو لوگ اپنی اپنی پسند اور ذوق کے مطابق منتخب کرتے ہیں۔آجکل تازہ پھولوں کی سجاوٹ زیادہ مقبول ہے جس میں امپورٹڈ ٹیولپس، للی، گلاب ، نرگس اور دیگر انواع اقسام کے پھولوں کی مدد سے ھال کو اس خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے کہ نگاہیں چکا چوند ہو جاتی ہیں۔ ساتھ میں مختلف اقسام کے لیمپس، واز، فائونٹینز، فانوس و دیگر آرائشی اشیا بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ دلہن بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر سیدھی شادی ہال پہنچتی ہے جہاں اس کو پہچاننا بھی مشکل ہوتا ہے کہ یہ وہی عام شکل و صورت کی لڑکی ہے جو چند گھنٹے پہلے پارلر پہنچائی گئی تھی۔ ہال میں اس کے لئے ایک ائر کنڈیشنڈ کمرہ مختص ہوتا ہےجہاں اس کو بٹھا دیا جاتا ہے۔۔ دلہا والے بارات لے کر کوئی  دس گیارہ بجے تک شادی ہال پہنچتے ہیں – شادی والے دن دلہا عموما دلہن کے گھر والوں کی طرف سے دیا گیا لباس زیب تن کرتے ہیں جو عام طور پر شیروانی، اور شلوار یا پاجامے پر مشتمل ہوتا ہے۔اب تو دلہا بھی باقاعدہ سیلون سے اپنی گرومنگ و میک اپ کرواتے ہیں۔ ساتھ ہی سر پر سجانے کے لئے مختلف ڈیزائن کی پگڑیاں یا قلع ہوتا ہے۔ بارات پہنچنے پر جہاں ایک مرتبہ پھر وہی مہندی والا سین دہرایا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر دلوں کی گھنٹیاں ٹن ٹن بجنے لگتی ہیں۔ کنواروں کی نظریں مہندی والے دن کی اپنی پسند کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں جو آج کچھ نیا ہی جلوہ بکھیر رہی ہوتی ہے۔ ادھر یہ نظروں کے تیر چل رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف ہال کے داخلی دروازے کے دونوں جانب قطار میں کھڑے دلہن کے عزیز و اقارب بارات کا استقبال کرتے ہیں۔ دلہا اور بارات پر پھول نچھاور کئے جاتے ہیں اور گلابوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ ہلکی ہلکی موسیقی اور خوبصورت ہری، نیلی پیلی گلابی پیسٹل روشنیوں و لیزر لائٹس کے تال میل، شنیل، جاڈور، اینوائے، آرگنزا اور دیگر مختلف پرفیومز اور میک اپ کی ملی جلی خوشبوئوں کے سیلاب ، بیلے، چنبیلی اور گلاب کے پھولوں کی تیز مہک ، ہلکے ہلکے قہقہوں کے جلترنگ سے ہال میں ایک سحر زدہ ماحول نظر آتا ہے۔۔ لڑکیاں زرق برق جدید لباسوں میں ملبوس ہائی ہیلز میں ٹک ٹک کرتی ایک ہاتھ سے شرارے یا غرارے کو سنبھالے، بالوں کو کاندھے پر ڈالے تھوڑی سی ترچھی اٹھلاتی ہوئی  ادھر سے ادھر گھوم رہی ہوتی ہیں۔ اسٹیپ کٹ یا فیدر کٹ ریشمی بالوں میں بار بار انگلیاں پھیرتی ایک دوسرے سے گلے مل کر گالوں سے گال ملا رہی ہوتی ہیں۔ شادی شدہ خواتین اکثر ساڑھیوں میں بھی ملبوس نظر آتی ہیں۔ اکثر پاکستانی گھرانوں کی خواتین ساڑھی پہنتی نہیں بلکہ لپیٹتی ہیں۔ ناف سے نیچے تک کا بلائوز اور اس کے بالکل نیچے تہہ در تہہ گولائی میں لپیٹی ہوئی  ساڑھی دیکھ کر لگتا ہے کہ گویا کسی ڈھول کے گرد کپڑا لپیٹ دیا گیا ہو۔ساڑھی کو ساڑھی کی طرح باندھنا اور اس کو ایک خاص انداز سے سنبھال کر چلنا بزات خود ایک آرٹ ہے جو بہت ہی کم خواتین جانتی ہیں۔ساڑھی کی چنٹیں اور اس کا فال، ساڑھی کی ایک خاص لمبائی  کہ ناف کے نیچے سے کہاں باندھنا ہے، بلائوز کا سائز اور فٹنگ ، جب سے بھارتی فلموں اور ڈراموں کی بھرمار ہوئی  ہے اور لوگ خود کو روشن خیال اور ماڈرن کہلانا پسند کرتے ہیں تو کچھ خواتین کرینہ کپور اسٹائل مختصر چولی نما بیک لیس اور سلیو لیس بلائوز کے ساتھ ناف سے کافی نیچے نزاکت سے لپیٹی چنٹوں دار مہین ساڑھی میں بھی نظر آتی ہیں جس سے گوری لچکتی کمر کا خم اور اس سے متعلقہ چست صراحی نما حصہ اکثر مرد حضرات کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتا ہے۔ ہائی  ہیل پہنے اس خاتون کا ہر قدم ہر مرد کی نظروں میں ایک ہی سوال دہراتا ہے ۔۔۔
یہ کیسی چال ہے کہ آگ لگاتے نہ چلو ۔ ہر قدم پر اس خاتون کی کمر کی لچک اور نچلے حصے کا زیرو بم حضرات کے دل کو اکہتر بہتر کرتا رہتا ہے۔ نوجوان اور مرد حضرات کرسیوں پر بیٹھے نگاہیں سینک رہے ہوتے ہیں. بہانے بہانے سے موبائل فونز سے سیلفیاں اور وڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ پرچوں پر لکھ کر فون نمبرز گرائے جاتے ہیں۔ سب سے مظلوم مخلوق زن مرید شادی شدہ مرد حضرات بچے سنبھال رہے ہوتے ہیں یا دوسرے بچوں سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ تم نے پاپ کارن کہاں سے لئے ہیں؟ کہ بیگم اس موقع پر اپنا قیمتی جوڑا اور پارلر کے میک اپ کو برباد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ ایک مرتبہ پھر وہی نگاہوں کے تیر اور مرغ بسمل کا کھیل دہرایا جاتا ہے کہ اگر کوئی  کسر مہندی والے دن رہ گئی ہو تو آج شکار بچ کے نہ جانے پائے۔ اب بھی اکثر شادیاں شادی کی تقریبات میں ہی ایک دوسرے کو پسند کرنے پر طے پاتی ہیں۔ اس تقریب کی سب سے اہم رسم نکآح کی ہوتی ہے۔ دونوں طرف کے بزرگ اور ذمہ دار حضرات سر جوڑ کر آپس میں مشورے و گفت و شنید کرتے ہیں۔ حق مہر وغیرہ کی رقم طے کی جاتی ہے۔ دلہا اور دلہن کے شناختی کارڈز کی مدد سے مولوی صاحب نکاح کا فارم پر کرتے ہیں۔ نکاح خواں کے نکاح پڑھانے اور ایجاب و قبول کے بعد مبارک سلامت کے شور میں مہمانوں میں چھوارے تقسیم کئے جاتے ہیں۔ آجکل باقاعدہ تیار شدہ پیکٹ ملتے ہیں جن میں چھواروں کے ساتھ خشک میوہ جات؟، چاکلیٹس، ٹافیاں، سپاریاں، و دیگر کنفیکشنری آئٹمز ہوتے ہیں۔ نکاح کے بعد مووی بنانے والے فوٹو گرافرز دلہا اور دلہن کے ایسے ایسے پوز بنواتے ہیں کہ بھارتی فلموں کے ڈائریکٹرز اور اداکار ان کے سامنے طفل مکتب نظر آتے ہیں۔اس کے بعد اسٹیج پر دلہا دلہن کے ساتھ گروپ فوٹو کا ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے جس میں شادی میں شریک ہر خاندان دلہا دلہن کے ساتھ گروپ فوٹوز بنواتا ہے۔ اسی دوران دلہن کے رشتہ دار دلہن کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نقدی لفافے میں رکھ کر پیش کرتے ہیں جس کو سلامی کہا جاتا ہے۔ بعض رشتہ دار اس موقع پر دلہن کو زیورات بھی پہناتے ہیں ۔ خاندان اور رشتہ داروں کی حیثیت کے مطابق اس سلامی کی کل رقم ہزاروں سے لاکھوں میں ہو سکتی ہے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر منچلے بھی اپنی اپنی پسند کی لڑکیوں کے خوب فوٹوز لیتے ہیں۔ اس تمام کارروائی  کے دوران تیز آواز میں ساؤنڈ سسٹم پر رومانس سے بھرپور گانے چلتے رہتے ہیں۔ گاہے بگاہے ہال کی لائٹس بند کر کے ڈسکو اسٹائل لیزر لائٹس سے ایک نائٹ کلب کا ماحول بنا دیا جاتا ہے۔ شادی والے دن دلہن زرا شرمائی  لجائی  اور ٹینس نظر آتی ہے جبکہ دلہا میاں کافی خوش باش اور ریلکس نظر آتے ہیں ۔ ان سب سے فارغ ہو کر وہ کھانا ہوتا ہے کہ کس کے انتظار میں لوگ بے چین ہوتے ہیں اور اکثر لوگ صرف اسی ایک کشش کے باعث شادیاں اٹینڈ کرتے ہیں۔ لمبی لمبی ٹیبلز پر سفید اجلے میز پوش بچھے ہوتے ہیں جن پر ہلکی آنچ والے اسٹووز کے اوپر قطار در قطار مختلف قابیں سجی ہوتی ہیں۔ جن کے خالی ہونے پر ویٹرز ان کو دوبارہ بھر دیتے ہیں۔ ۔ آجکل شادی کے کھانوں کی بھی بے شمار ورائٹیز اور مینیو موجود ہیں۔ وہ دن گئے کہ جب شادیوں پر لوگ زردہ بریانی یا روٹی اور قورمہ کو ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھتے تھے۔ اب تو دس سے بارہ ڈشز ہونا ایک عام بات ہے۔ بوفے میں فش فرائی ، چکن فرائی ، کڑاھی، قورمہ، وائٹ قورمہ، مٹن فرائی ، پلاؤ  یا بریانی، پران فرائی ، بروسٹڈ چکن، تکے، شیرمال، نان، شاشلک، چکن فرائیڈ رائس، سلاد بار، فرائ بٹیر، چرغہ، اور اس کے علاوہ بھی بے شمار چائنیز اور بدیسی فاسٹ فوڈ ورائیٹیز، مختلف اقسام کی چٹنیاں، میٹھے میں، قلفی فالودہ، کھیر، گلاب جامن، لب شیریں، گاجر کا حلوہ، لوکی کا حلوہ، کیک، ربڑی، دودھ دلاری، کسٹرڈ، شاہی ٹکڑے، رس ملائی ، وغیرہ وغیرہ۔ ٹھنڈے گرم مشروبات چائے کافی کولڈ ڈرنک کی ورائٹی اس کے علاوہ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اب تو کچھ لوگ باقاعدہ میٹھے پان کا اسٹال بھی لگواتے ہیں جہاں سے آپ اپنی پسند کا پان بنوا کر بھی کھا سکتے ہیں۔ کیٹرنگ کا کاروبار باقاعدہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کھانے کا اعلان ہوتے ہی ایک لوٹ مچ جاتی ہے۔ بھائ لوگ چکن بریانی کے اوپر بٹیر اور بروسٹ بھی رکھ لیتے ہیں۔ بوفے ڈنر ہو تو کافی لوگ نان روٹی سے سختی سے پرھیز کرتے ہوئے ہر طرح کے گوشت کے ذائقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک نابینا مولوی صاحب دعوتوں اور کھانے پینے کے بڑے شوقین تھے۔ اپنے ساتھ ایک شاگرد کو رکھتے تھے۔ اس کا کام یہ تھا کہ کسی تقریب میں جیسے ہی کھانا شروع ہو تو وہ ہلکے سے مولوی صاحب کو ٹہوکا ماردے کہ شروع ہوجائیے۔ ایک مرتبہ دسترخوان پر بیٹھے تھے اور ابھی کھانا کھلا نہیں تھا کہ غلطی سے شاگرد کی کہنی مولوی صاحب کے پہلو سے لگ گئ۔ مولوی صاحب نے اس کو گرین سگنل سمجھ کر کھانا شروع کردیا۔ شاگرد نے گھبرا کر دوسرا ٹہوکا مارا کہ مولوی صاحب رک جائیں۔ دوسرے ٹہوکے پر مولوی صاحب نے مزید تیز رفتاری سے کھانا شروع کردیا۔ اب شاگرد نے گھبرا کر جلدی جلدی مسلسل ٹہوکے مارنا شروع کردئیے۔ مولوی صاحب دونوں ہاتھ پھیلا کر دستر خوان پر اوندھے گر گئے اور چلا کر پوچھنے لگے کہ ابے کیا لوٹ مچی ہوئی  ہے؟؟ تو پھر آپ کب شادی کر رہے ہیں؟؟؟ انویٹیشن کا انتظار رہے گا۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply