دماغ کی حفاظت/ڈاکٹر راؤ کامران علی

پورے پاکستان میں ناکام معیشت اور بڑھتی غربت ایک ناسور کی طرح پھیل رہی ہے۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ایک عام انسان کا دو وقت کا کھانا آج بھی سو ڈیڑھ سو روپے میں ممکن ہے؛ پرتعیش نہیں لیکن دال روٹی! ایک دو سوٹ میں گزارہ ہو سکتا ہے اور بجلی نہ بھی ہو تو زندہ رہا جا سکتا ہے؛ بچپن میں گاؤں جاتے تھے تو بجلی کے بغیر بھی لوگ خوش اور خوشحال رہتے تھے۔ درحقیقت آج کا سب سے بڑا مسئلہ ذہنی یا دماغی توازن کا ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ انسان اتنے انسانوں سے انٹرایکشن کے لئے بنا ہی نہیں ہے۔ امریکہ میں لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہیں لیکن ایئرپورٹ پر عملہ عموماً مسکراتا نہیں! کیوں؟ روز دس ہزار بندوں کو دیکھ کر مسکرا مسکرا کر بتیسی پیٹ میں آجائے گی! اتنے لوگوں کے لئے سوشل سمائل نہیں بنی ہے اور نہ ہی ممکن لہے۔ اکثر سیلیبرٹی کو دیکھتے ہیں؛ کیمرہ مین چیخ رہے ہوتے ہیں وہ انجان بن کر نکل جاتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے یار کاش ہمیں اتنی اہمیت اور عزت ملتی لیکن شاہ رخ خان ایک ارب فینز کو دیکھ کر محض ہاتھ بھی ہلا دے تو ہاتھ کا کام تمام ہوجائے گا۔ یہی صورتحال دماغ کی ہے! ہمارے جینز لاکھوں سالوں سے ایک قبیلے پھر ایک محلے یا خاندان یا قصبے کے لوگوں سے میل ملاپ کے لئے ٹریننگ لئے ہوئے ہیں؛ کوئی زیادہ ہی تیز ہو تو سیاستدان یا مارکیٹر بن کر زیادہ لوگوں کو جان لیتا ہے لیکن انھیں بھی دماغ کو ٹرینڈ کرنا پڑتا ہے۔ اب آپ سوچیں مجھ جیسے آپ جیسے بندے کے دماغ کے جینز محض پندرہ بیس سال پرانے سیٹ اپ میں لاکھوں سال کا میک اپ کیسے ایڈجسٹ کریں گے؟ کیسے دماغ ہزاروں کے فیس بک اسٹیٹس؛ جو ٹیوب لیکچرز؛ ریل اور ٹک ٹاک کو ہضم یا جذب کرسکتا ہے- اس سے بے چینی پیدا ہوتی ہے۔
پہلے مقابلے بازی گلی محلے اسکول کالج تک محدود تھی؛ ایک یا دو لڑکیوں کے لمبے بال یا نکھری رنگت باقی لڑکیوں کو پریشان کرتی تھی، ایک آدھ قابل اسٹوڈنٹ سے حسد ہوتا تھا جو اسکے امتحان میں نقل کروا دینے پر ختم بھی ہوجاتا تھا؛ اب تو دنیا کے کونے کونے سے لوگوں کے نظارے اپنی کم مائیگی کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پہلے “بار کے ملک” سے رشتہ دار آتے تھے؛ انکا ٹور ٹپہ دیکھ کر لمبی لمبی چھوڑنی سُن کر انکے واپس چلے جانے پر وہ سب رعب بھول جاتے تھے لیکن اب مسلسل اضطراب؛ کسی کے اچھے کھانے، کسی کے اچھے کپڑے تو کسی کی چمک دمک دنیا کے کونے کونے سے آشکار ہورہی ہوتی ہے وہ بھی چوبیس گھنٹے!
میں نشتر میں ہاؤس جاب میں نائٹ ڈیوٹی پر تھا تو ایک بہت ہی قابل سینئر دوست جو اپنی کلاس کا ٹاپر تھا نے کہا کہ میرے ساتھ چائے پیو؛ وہ بہت پریشان تھا۔۔ اس نے بتایا کہ کوئی امریکہ سے آیا ہے اور بتایا ہے کہ اسکی کلاس کا کا ایک ہونہارلڑکا تھا جو یو ایس ایم ایل ای کرکے امریکہ چلا گیا اس نے حال ہی میں ہنڈا اکارڈ لی ہے جبکہ وہ ٹاپر خود رات کو ایمبولینس کا انتظار کررہا ہے کہ اس میں بیٹھ کر ملتان کے مضافات میں اپنے گھر جاسکے اور کرایہ بچا سکے۔ خیر اگلے دن وہ نارمل ہوگیا اور اب خود ماشا اللہ سے پاکستان میں بہت کامیاب ڈاکٹر ہے؛ لیکن میں سوچتا ہوں کہ آج سوشل میڈیا کے زمانے میں روز ایسی مثالیں آنکھوں کے سامنے گھومتی ہوں گی اور نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔
اب اسکا حل کیا ہے؟ کم سے کم سوشل میڈیا کا استعمال؛ صرف مثبت اور منطقی تحریروں کو پڑھنا- (میں پورے پاکستان میں محض وسعت اللہ خان اور یاسر پیرزادہ کو سنجیدگی سے پڑھتا ہوں)- ہر وہ شخص یا ٹاپک جس سے اینگزائٹئ ہو اسے ان فالو کردیں۔ ہیجان خیز مواد سے پرہیز کریں۔ یہ کوئی بزرگانہ نصیحت نہیں؛ اگر بالغ ہیں تو بیشک ہفتے میں کوئی ایک آدھ گھنٹہ رکھ کر بالغوں کی فلمیں دیکھیں لیکن یہ ہر وقت کی فضول ریلز اور بیہودہ ویڈیوز؛ بنانے والوں کو ویوز سے پیسے ملتے ہیں جبکہ دیکھنے والوں کے ذہنی توازن پر اثر ڈالتی ہیں؛ بالخصوص جب دماغ sharpening the saw کے دور سے گزر رہا ہو۔ کامیابی اور جائز طریقے سے دولت کمانے کے لئے توجہ اور فوکس بہت ضروری ہے اور توانا دماغ نئے راستے نکالتا ہے ( بلکہ ناجائز سے کمانے کے لئے تو اور بھی زیادہ فوکس ضروری ہے کیونکہ کما کر ٹھکانے بھی لگانا ہے)۔ دماغ کی حفاظت کریں؛ جسم کبھی بھی دبلا موٹا ہوسکتاہے؛ ڈولے پچپن سال کی عمر میں بوبی دیول کی طرح بن سکتے ہیں لیکن بگڑا دماغ دوبارہ ٹھیک نہیں پوسکتا اور نہ ہی اسکے آپکی زندگی پر اثرات بدلے جاسکتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply