احمد سلیم بھی رخصت ہوئے/حیدر جاوید سیّد

احمد سلیم بھی رخصت ہوئے، وقت مقررہ کا کھیل ہے یا کچھ اور، سفر حیات طے کرنے والے ہر ذی نفس کو بالآخر موت کا ذائقہ چکھنا ہی ہے۔ احمد سلیم نے بھی اگلے روز موت کا ذائقہ چکھا، پیاروں دوستوں اور کتابوں سے دائمی رخصت لے لی۔

وہ ادیب تھے، صحافی، مرتب، محقق، پنجابی کے شاعر، تاریخ و سیاسیات کے روشن فکر طالب علم اور دانشور ، کئی درجن کتابوں کی تدوین و تصنیف ان کے حصے میں آئی۔ متعدد جریدوں کے مدیر رہے۔ سادہ لفظوں میں عرض کروں تو اہل پاکستان ایک صاحب علم اور دردمند انسان سے محروم ہوگئے۔

ان سے 19990ء کی دہائی میں تعارف ہوا تھا، برسوں ملاقاتیں رہیں خصوصاً ان دنوں جب وہ “فرنٹیئر پوسٹ پبلیکشنز ” کے مدیراعلیٰ تھے اس ادارے نے بہت ساری نئی کتابوں کے ساتھ نایاب کتابوں کی اشاعت میں بہت نام کمایا۔ پھر ایک دن وہ “فرنٹیئر پوسٹ پبلیکیشنز” سے الگ ہوگئے۔ مالکان نے ’’بہت کچھ‘‘ کہا مگر وہ کبھی کوئی شکوہ اور گراں گزرنے والی بات زبان پر نہ لائے یہ ان ک بڑا پن تھا۔

اپنی ایک تصنیف ’’ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں‘‘ میں انہوں نے فاروق لغاری اور زرداری کے تنازع (یہ تنازع بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کی وجوہات میں سے ایک وجہ رہا) پر ‘‘دستک‘‘ کراچی میں شائع ہونے والی میری سٹوری شامل کی۔ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے اسکے لئے صحافت و سیاست کے مجھ سے عام طالب علم سے باقاعدہ اجازت لی اور پھر کتاب کی اشاعت کے بعد ایک نسخہ عنایت کیا۔
1990ء کی دہائی میں جب ان سے تعارف ہوا تب وہ دوستوں کے ہجوم اور کتابوں میں رہنا پسند کرتے تھے۔

کتابوں سے انکی محبت بھری دوستی مثالی تھی۔ کپڑے کا ایک تھیلا ہمہ وقت کاندھے پر رہتا اور اس میں کتابوں کے ساتھ کچھ تازہ جرائد ہوتے تھے۔

1990ء کی دہائی کے دوسرے نصف کے برسوں میں جب میں نشتر آباد پشاور کے ایک فلیٹ پر مقیم تھا انہوں نے شرف میزبانی بھی عطا کیا۔ دو اڑھائی دن مقیم ہوئے۔ ان دو اڑھائی دنوں میں ہمارے درمیان صرف تاریخ اور کتابوں پر ہی گفتگو ہوئی۔ ان جیسے صاحب علم نے ایک ادنیٰ سے طالب علم کی لائبریری کی تحسین کی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ ایک مخصوص رقم ہر ماہ کتابوں کے لئے مختص کردو پھر مسکراتے ہوئے بولے شاہ جی کبھی سگریٹ اور کتابوں میں سے ایک کے انتخاب کی نوبت آئے تو سگریٹ پر کتابوں کو ترجیح دینا۔

26 جنوری 1945 ء میں اس وقت کے ضلع گجرات کے گائوں میانہ گوندل میں پیدا ہوئے یہ گائوں اب ضلع منڈی بہاء الدین میں شامل ہے۔ گزشتہ روز طویل پرعزم اور محنت و مشقت سے عبارت سفرحیات طے کر کے دنیا سرائے سے پڑائو اٹھاگئے۔

ایک وقت میں کمیونسٹ پارٹی کا باقاعدہ حصہ بھی رہے۔ غالباً اس پارٹی کے ایک جریدے کے مدیر کے طورپر بھی فرائض ادا کئے۔ 1990ء کی دہائی کے آخری برس میں جب وہ پشاور میں میرے مہمان ہوئے تو دیگر کاموں کے علاوہ وہ پشاور جیل میں قید پیپلزپارٹی کے رہنما سید قمر عباس شہید سے ملاقات کے خواہش مند تھے۔ اس ملاقات کے لئے عزیزم سہیل قلندر مرحوم نے اہتمام کیا۔ احمد سلیم، میں اور سہیل قلندر لگ بھگ اڑھائی تین گھنٹے جیل میں سید قمر عباس کے ساتھ رہے۔

سید قمر عباس سے جیل میں ایک اور ملاقات عزیزم شبیر حسین امام کے ہمراہ ہوئی تب شاہ جی نے مجھے یاد کیا تھا میں ان دنوں ’’مشرق‘‘ سے الگ ہوکر فرنٹیئر پوسٹ گروپ کے اردو اخبار ’’میدان‘‘ میں فرائض ادا کررہا تھا۔

جن دنوں وہ دو اڑھائی دن میرے مہمان ہوئے تب وہ گفتگو کرتے کرتے اچانک گفتگو روک دیتے اور کاغذ قلم لے کر چند منٹ کے لئے تحریر نویسی کرتے پھر دوبارہ گفتگو وہیں سے شروع کرتے جہاں روکی تھی۔

سیاستِ عصر، تاریخ، پاکستانی سیاسی جماعتوں کی اٹھان، ریشہ دوانیوں، اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھاڑے کی سیاست اور خصوصاً سماجی ناہمواری پر وہ گھنٹوں بے تکان گفتگو کرتے تھے۔ ان موضوعات پر اظہار خیال کے دوران وہ کبھی اپنی کسی نظم کا حصہ سناتے کبھی شفیع عقیل کی پنجابی نظم۔
ان کا حافظہ بلا کا تھا۔ ان کی زندگی محنت اور کتاب دوستی کی شاندار مثال رہی اور رہے گی۔

کیامجال کبھی اکثر مرتبین کی طرح ان کے چہرے پر کبھی کوئی شکن آئی ہو۔ ہم نے گزرے برسوں میں د یکھا ہے کہ ایک دو کتابیں مرتب کرلینے والے بناوٹی انداز میں ایسی گفتگو کرتے تھے کہ جی اچاٹ ہوجاتا تھا۔ ان سے جب بھی ملاقات رہی انہوں نے علم اور مطالعے کے موتی لٹائے ہم سے طالب علموں نے فیض حاصل کیا۔

بھلے مانس انسان تھے حوصلہ افزائی کرنے میں بخیلی نہیں کرتے تھے۔ اپنی رائے کا دوٹوک انداز میں اظہار کرتے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ایک مرتب کردہ کتاب پر میراایک مشہور محقق و تاریخ دان سے تنازع سوشل میڈیا کی زینت بنا تو انہوں نے مجھے فون کیا اور بولے ’’حیدر شاہ جی جس نے جو کام جب کیا وہ تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے، وہ بزرگ ہیں درگزر سے کام لو‘‘۔

میں نے عرض کیا احمد بھائی پہل میں نے نہیں ان کے بلونگڑوں نے کی ہے۔ اب برے کو گھر تک تو چھوڑ کر آنے دیں۔ انہوں نے میری بات کاٹی اور بولے ’’او شاہ جی میں جوکہہ ریا واں دفع مار اس بحث نوں تیری مرتب کیتی کتاب وی موجود اے تے اس بزرگ دی وی پڑھن آلے آپے فیصلہ کرلین گے کہ زیادتی تے سرقہ کس کیتا‘‘۔

اس ٹیلیفون کے دو تین دن بعد ان کا دوبارہ فون آیا انہوں نے اس کتاب کے مسئلہ پر “مشرق” پشاور میں شائع ہونے والے میرے کالم پر ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ کی پھر کہنے لگے مجھے اچھا لگا کہ تم نے بزرگ کے علم و فہم اور ذات کا احترام کیا بات صرف کتاب تک محدود رکھی لیکن یہ بتائو کالم کیوں لکھا میں نے منع جو کیا تھا؟ عرض کیا کالم پہلے لکھ کر بھجوا چکا تھا۔

قابل احترام دوستوں میں سے احمد سلیم واحد شخص تھے جنہوں نے مجھے 2015ء میں دوبارہ ’’فرنٹیئر پوسٹ گروپ ‘‘ جوائن کرنے سے منع کیا کہہ رہے تھے ” وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔ محض دوستی کی بنیاد پر جذباتی فیصلے سے گریز کرو ” ۔
ان کے سانحہ ارتحال سے تاریخ و سیاسیات کے طلبا ایک بڑی شخصیت سے محروم ہوگئے۔

وہ معدوم ہوتی وضعدار نسل کی بچی کھچی نشانیوں میں سے، ان کی رحلت کے بعد ان کے لائق احترام دوستوں نے سوشل میڈیا پر اپنی یادوں کے دفتر کھولے اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوئوں سے اپنے احباب کے ساتھ نئی نسل کو روشناس کروایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگ کے مختلف پہلوئوں پر جتنا لکھا جائے وہ کم ہے۔

ایک طویل سفر حیات وہ بھی کڑی مشقت سے عبارت۔ کچھ کرنے اور اگلی نسلوں کوکچھ عطیہ کر جانے کی دھن اس کے بیچوں بیچ بعض میڈیا ہائوسوں کے بخیل مالکان کے ستم جو محنت کشوں کو اجرت دیتے ہوئے مرتے ہیں مگر اپنی اولادوں کے لئے پٹرول پمپ، پلازے اور فیکٹریاں لگاتے ہیں۔

پاکستانی صحافت کے قلم مزدوروں کی اکثریت کا قصائی مزاج میڈیا مالکان سے ہمیشہ واسطہ پڑا ان میں سے بعض تو اٹھتے بیٹھتے بسم اللہ و سبحان اللہ کے ساتھ اللہ تیرا شکر ہے کا ورد کرتے نہیں تھکتے لیکن ان کی گردنوں پر انگنت محنت کشوں کے دبائے محنتانے کا بوجھ ہے۔

عجیب بے احساس مخلوق ہے محنت کشوں کے گوشت سے اپنی نسلیں پالتی ہے رتی برابر شرم بھی نہیں ان میں۔
دوسرے انگنت محنت کشوں کی طرح احمد سلیم مرحوم کو بھی ان ’’گوشت خور‘‘ میڈیا مالکان سے وابطہ پڑا۔
بسا اوقات وہ اس بات پر حیران ہوتے تھے کہ صحافی پڑھتے پڑھاتے کیوں نہیں حالانکہ لکھنے کا پڑھتے رہنے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔

زرداری فاروق لغاری تنازع پر میری جو تحریر انہوں نے اپنی کتاب میں شامل کی اس پر انہیں بعض حلقوں کے بہت دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دبائو کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار کہنے لگے
’’حیدر شاہ جی فاروق لغاری کنہدا سی سٹوری لکھن والا عام جیا صحافی ای ہے وے ایدی گل نوں میں اہمیت نئیں دیندا” میں کہیا، لغاری صاحب فیر غصہ کہڑی گل دا”
کہن لگا ” اونے اے زرداری دے آکھن تے مضمون لکھیا وے‘‘۔ احوال مکمل کرچکے تو کہنے لگے
’’شاہ جی سچی گل اے وے کہ اے وڈے لوک سجھدے نے کہ او پنج ست پردیاں وچ وس رئے نے کسے نوں کی پتہ کہ اندروں اندریں کی ہوریا وے‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ایک بھلا مانس کتاب دوست اور محبتی و محنتی انسان رخصت ہوا اب ان جیسا کون ہوگا چار اور میں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply