• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نواز شریف کو عمران خان جیسی سہولت کاری مل رہی ہے؟(2)-ڈاکٹر ابرار ماجد

نواز شریف کو عمران خان جیسی سہولت کاری مل رہی ہے؟(2)-ڈاکٹر ابرار ماجد

پہلے حصّے کا لنک

 

 

 

 

 

اسی طرح تجزیہ کاری کی بنیاد چونکہ خدشات پر بھی ہوتی ہے اور اس بارے ماضی اور موجودہ منظر نامے میں ملے جلے رجحانات موجود ہیں لیکن اگر تحریک انصاف اور مسلم لیگ یا دوسری جماعتوں کے متعلق تقابلی جائزہ لیا جائے تو عمومی طور پر تو کوئی بھی اس طرح کی سہولت کاریوں سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا لیکن میثاق جمہوریت کے بعد والے منظر نامے میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے حق میں موجود حقائق کو چھٹلانا نا ممکن ہے اور دوسری جماعتوں کے کھاتے میں اس وقت تک خدشات سے بڑھ کر کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔

اگر خدشات کے متعلق میڈیا میں موجودہ تبصروں کو ماضی کے ساتھ جوڑ کا دیکھیں تو ان کا تحریک انصاف کی سہولت کاریوں کا تحفظ کرنے والوں کے ساتھ ایک خاص تانہ بانہ ہے جس سے یہ غالب تاثر ملتا ہے کہ دراصل وہ اس طرح کے خدشات کو پیدا کرکے نواز شریف سے کی گئی زیادتیوں اور اپنے سابقہ تبصروں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بیانیہ گھڑ رہے ہیں جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سازش بھی ہوسکتی ہے۔ اور اس سازش کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ نواز شریف کو مصالحتی بیانیے سے ہٹا کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف لایا جائے تاکہ مسلم لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش کی صورتحال کو پیدا کیا جاسکے۔ لہذا نواز شریف کو اس حساس پہلو کو بڑے تدبر اور احتیاط کے ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کے معاشی حالات اس وقت اس طرح کی لغزشوں کے متحمل نہیں ہوسکتے اور ریاست مفاہمتی عمل کا تقاضہ کر رہی ہے۔ جس کا میں نے ایک گزشتہ کالم میں ذکر بھی کیا ہے۔

نواز شریف صاحب کو اس سہولت کاری کے تاثر کو ختم کرنے پر غور کرنا ہوگا وگرنہ انتخابات متنازع ہوجائیں گے۔ اور اس تاثر کا چونکہ تعلق حقائق سے نہیں بلکہ میڈیائی وار سے ہے تو اس کا مقابلہ بھی وہیں کرنے کی ضرورت ہے جس میں ڈس انفارمیشن کو حقائق کی روشنی میں واضح کرکے عوام میں رائے کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک مسلم لیگ کے بیانیے میں سے مفاہمتی اور مزاحمتی تاثرات کے اتار چڑھاؤ سے اندازے لگانا ہے تو یہ شہبازشریف اور نواز شریف کے مزاج کے فرق اور اس کے جماعت کے اندر گروہی تاثرات اور ان کے بیانیے پر اثرات سے بھی ہے جس کی جھلک کبھی ملکی مفاد میں کم ہوتی ہوئی تو کبھی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے زیادتیوں کا ذکر کرکے احتساب کے مطالبے کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ اور اس بیانیے کا کسی بھی قسم کا موجودہ فوجی قیادت سے تو کوئی تعلق نہیں اور سابقہ قیادت میں بھی جنرنل باجوہ کی توسیع کے بعد سے کافی حد تک سرد مہری آئی تھی جس سے “ووٹ کو عزت دو” کے نعرے کی مقبولیت پر بھی منفی اثرات پڑے تھے۔ ویسے بھی ان تعلقات کی بنیاد پر کبھی بھی کسی سول حکومت کو فائدے نہیں ملے جیسا کہ ماضی میں تینوں اپنے ادور میں نواز شریف صاحب نے فوجی سربراہاں کی تعینایتاں اپنی ترجیحات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سنیارٹی سے ہٹ کر کیں مگر ان سے فائدے کے بجائے چیلنجز زیادہ دیکھنے کو ملے لہزا موجود تعیناتی سے بھی اس طرح کا تاثر دینے کو خدشات کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔

اسی طرح اگر مقبولیت اور کارکردگی کی بنیاد پر موجودہ منظر نامے کو دیکھا جائے تو سوشل میڈیائی تاثرات جن کا تعلق حقائق سے زیادہ ڈس انفارمیشن سے ہے کو نکال کر مارچ 2022 تک عمران خان کی مقبولیت ان کی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ختم ہوچکی تھی اور مسلم لیگ باقی جماعتوں میں اپنی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر لیڈ کر رہی تھی اور عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت کی تبدیلی نے اس تناسب کو مکمل طور پر الٹآ کر رکھ دیا جس کی وجہ عمران خان کے امریکہ و اسٹیبلشنٹ مخالف بیانیے پر ان کے ساتھ ہمدردیاں اور پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومت کا مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا بہت بڑا کردار تھا۔ جس سے پاکستان کے سیاسی اور مقتدر حلقے کافی حد تک خائف ضرور تھے مگر عمران خان نے اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنی اس مقبولیت کو مشکلات کا شکار کردیا ہے۔

لیکن 9 مئی کے بعد یہ تناسب بھی کافی حد تک بدلا ہے جس میں فوج کا گراف تو کافی بہتر ہوا ہے جس سے تحریک انصاف کی نیچے جانا بھی یقینی ہے لیکن باقی سیاسی جماعتوں کے لئے ابھی بھی یہ ایک چیلنج ہے جسے وہ آپس میں انتخابات سے پہلے سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کی صورت قابو پانے کی کوشش کرہی ہیں اور اس کو جمہوریت مخالف ہوا دینا یا سہولت کاری سے جوڑنا صحافتی نا انصافی ہے کیونکہ بغیر کسی ریاستی دباؤ کے سیاسی جوڑ توڑ اور الحاق شہریوں اور سیاسی جماعتوں کا ایک جمہوری حق ہے۔

اور سیاسی حلقوں میں اس جوڑ توڑ اور الحاق کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ نون کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ان پر سیاسی حلقوں میں پاکستان کے چیلنجز سے نمٹنے اور مستقبل میں ریاستی معاملات سنبھالنے پر اعتماد کی طرف اشارہ ہے۔ اور اس سے یہ غالب تاثر بھی ملتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں مسلم لیگ کی مقبولیت اور کارکردگی دوسری جماعتوں کی نسبت بہتر ہے۔ اسکے برعکس کوئی بھی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کے تاثر کے باوجود کوئی سیاسی اتحاد کی بات کرنے کو تیار نہیں جس کی وہ کوشش بھی کر چکے ہیں جن میں ان کو الٹا رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا انتشاری انداز سیاست ہے جس میں عوام کو ریاست کے خلاف اور جمہوریت کو آئین و قانون کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

اور اگر میڈیا کو سہولت کاری اور جمہوریت کے فرق کو سمجھنے کے لئے لیا جائے تو ہمیں موجودہ منظر نامے میں کسی بھی جماعت کے بارے سہولت کاری کا تاثر پیدا کرنے کے شواہد نہیں ملتے۔ ہاں ماضی میں عوامی رائے کو ہموار کرنے کے لئے میڈیا کے زریعے سے سازگار ماحول کا بیانیہ چلوایا جاتا رہا ہے مثلاً میڈیا کو کہا جاتا تھا کہ خاص لوگوں کے لئے سافٹ امیج بلڈ کرنا ہے۔ اور موجودہ میڈیا کا بیانیہ تو مکمل طور پر نواز شریف کے خلاف جارہا ہے جس میں ماضی پر استدلال کرکے اسے سہولتکاری سے جوڑنے کا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور اگر اس تاثر کو سچ فرض کر لیا جائے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت میڈیا ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہے کیونکہ اس تاثر سے نواز شریف کو فائدہ پہنچنے کے بجائے ان سے کئی گئی زیادتیوں کی طرف سے توجہ ہٹا کر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جارہا ہے اور انتخابات سے قبل ہی اس کو متنازع بناکر آنے والی حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں۔

جس طرح چند صحافیوں کی طرف سے ایک طرف سہولتکاری کے بیانیے کو چلایا جارہا ہے اور ساتھ ہی میڈیا پر دباؤ کی بھی شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ جوانتہائی مضحکہ خیز ہیں اگر اس سہولت کاری کے بیانیے کو صحافتی دباؤ کے خدشات سے جوڑتے ہوئے دباؤ کو سچ مان لیا جائے تو پھر نواز شریف کے خلاف بیانیہ ممکن کیسے بنا ہوا ہے اور دوسری صورت میں طاقتور حلقوں کی بے بسی کو ماننا عقلی تقاضوں کے خلاف ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ واقعی سہولت کاری دے رہی ہے تو پھر کیا وہ مکمل حمائت کی طاقت نہیں رکھتی کہ ماضی کی طرح میڈیا کو انکی سہولت کاری پر بولنے کی بجائے ان کے لئے ماضی کی طرح سافٹ امیج بلڈ کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ لہذا میرے خیال میں تو ان افواہوں کی بنیاد خدشات کے سوا کچھ نہیں اور فوج کی نیوٹریلٹی کو ماضی کے اندازوں سے موازنہ کرکے یہ بیانیہ چلایا جارہا ہے۔

حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے تحقیق کروانی چاہیے کیونکہ اس سے ان کی ساکھ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور اداروں کی پروٹیکشن بھی حکومت کی ہی انتظامی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔ اور الیکشن کمیشن کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بارے اقدامات اٹھائے اور اگر کسی جماعت کو تحفظات ہوں تو ان کو دور کیا جائے۔

سیاسی جماعتوں کو بھی ایک دوسرے پر بے بنیاد الزامات لگانے کی بجائے ثبوتوں کے ساتھ اداروں سے رجوع کرنی چاہیے اور اس پر تحقیقات کی چارہ جوئی کا قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح جن سیاسی جماعتوں پر الزامات لگائے جارہے ہیں وہ بھی اس پر وضاحت دیں یا اگر وہ سمجھتے ہیں کہ الزامات بے بنیاد ہیں تو اس متعلقہ افراد یا جماعت کی جوابدہی کے قانونی عمل کو حرکت میں لائیں تاکہ یہ بے بنیاد الزامات کا سلسلہ ختم ہو سکے۔

اس میں سوشل میڈیا کا بھی ایک اہم کردار ہے جس میں جھوٹ اور سچ کو غلط ملت کرکے پیش کیا جارہا ہے۔ اس پر بھی نگرانی کا کوئی میکنزم بنائے جانے کی ضرورت ہے اور حکومت کی طرف سے بھی حقائق کو سامنے لانے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقت سے عوام کو آگاہ کیا جاسکے

تحریک انصاف کا اب انتخابات میں برابری کی بنیاد پر شرکت کا فیصلہ جہاں جائز ہے وہاں آئینی و قانونی تقاضوں کو پورا کرنا بھی ریاستی فلاح کا تقاضہ ہے۔ یہ بات بھی کسی حد تک ٹھیک ہے کہ صلاحیتوں اور کارکردگی سے قطعہ نظر محض لفاظی کی بنیاد پرحاصل شدہ مقبولیت کے بلبوتے پر یہ حق مان بھی لیا جائے تو بھی ان کو اپنے انداز سیاست کو بدلنے کی یقین دہانی کروانی ہوگی کیونکہ انتشاری سیاست کی روائت ڈال کر ملک کے نظام کو تو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا مگر اس کا یہ بھی قطعاً مطلب نہیں کہ کسی کو غیر جمہوری اور بے اصولی سیاست کے برتاؤ کا نشانہ بناکر عوامی مینڈیٹ کی توہین کی جائے۔

انصاف اور برابری کا آئینی و قانونی تقاضہ یہی ہے کہ جرم اور بد عنوانی پر آئینی او قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں اور جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کو ریلیف دیا جائے مگر کسی کو غیر جمہوری اور بے اصولی سیاست کے زریعے سے سہولت کاری دے کر ملکی سلامتی و بقاء کو بھی خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔

اس لئے سیاسی جماعتوں اور صحافتی حلقوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ جب ادارے خود خود احتسابی کا عمل شروع کر چکے ہیں تو پھر ان کو کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے چہ جائے کہ اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پھر سے سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھا جائے۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور اور سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر اپنی الیکشن کمپین چلانی چاہیے نہ کہ الزامات کی سیاست کے بلبوتے پر اور عوام کو بھی اسی بنیاد پر اپنا ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہر ایک کو اداروں کے اپنے فرائض کی ادائیگی میں آئینی تقاضوں کو بھی سمجھنے اور پورا کرنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ حالات میں حکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں اور اگر ابھی سے انتخابات کو متنازع بنانے کی سازشیں شروع ہوگئیں ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کا آغاز ہوچکا تو ایسے میں حکومت کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ لہذا ان الزاماات اور خدشات کی تحقیقات انتخابات سے پہلے ضروری ہیں تاکہ یہ سلسلہ رک سکے۔ اور سیاسی جماعتوں کو جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کا دامن کسی صورت بھی نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ غلطیوں کے ازالے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن ملک کے نظام کو نقصان پہنچانا جس کی اساس آئین ہوتا ہے، قومی جرائم میں آتا ہے جس کی معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی

عوام کو حقیقت پسندی کی بنیاد پر موجودہ حالات کو خدشات کے ساتھ جوڑنے کی بجائے ملک و قوم کی فلاح کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی کی کارکردگی کے ریکارڈ کے ساتھ جوڑ کر مستقبل کو محفوظ بنانے کے اقدام کی حمائت پر توجہ دینی چاہیے۔

اسی طرح اگر نواز شریف ماضی کی زیادتیوں پر خاموش ہیں تو اس کی وجہ ملک وقوم کی فلاح کو ان ذیادتیوں پر ترجیح دینا ہوسکتی ہے اور اس کو کسی ڈیل سے جوڑنا بھی ان کی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان چپکلش کروانے کی مزموم کوشش کا حصہ ہوسکتا ہے جس کو سمجھتے ہوئے ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

with best regards,

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply