• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہمارا معاشرہ واقعی ہم جنس پرست نہیں ہے؟۔۔لیاقت علی ایڈووکیٹ

ہمارا معاشرہ واقعی ہم جنس پرست نہیں ہے؟۔۔لیاقت علی ایڈووکیٹ

ہمارا عمومی بیان ہے کہ ہمارے سماج میں سیم سیکس جنسی تعلقات سرے سے موجود نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو بہت ہی تھوڑے ہیں اور اس قابل نہیں ہیں کہ ان کا ذکر کیا جائے یا ان کو زیرِ  بحث لایا جائے۔ یہ چند گم کردہ راہ افراد ہیں جو اس   نوعیت کے جنسی تعلقات قائم کرنے میں ملوث ہیں، حالانکہ صورت ِ حال اس سے قطعی برعکس اور مختلف ہے۔ ہمارے ہاں بھی دوسرے معاشروں کی طرح یہ جنسی رحجان اپنی تمام تر جہتوں کے ساتھ موجود ہے بس ہم نے اس کو چھپانے کے لئے اس پر کمبل ڈال رکھا ہے اور اس کی موجودگی کا انکار کرکے خوش ہوتے اور اپنی سماجی کوتاہی پر پردہ ڈالنے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات   ہے کہ یہ جنسی رحجان اکثر و بیشتر کمبل اٹھا کر جب اپنا چہرہ ہمیں دکھاتا ہے تو ہم خوف زدہ ہوکر چیخنے چلانے لگتے ہیں۔

مدارس میں زیر تعلیم( یرغمال) بچوں کے ساتھ اساتذہ کی طرف سے جنسی تشدد معمول کی بات ہے اور یہ اب تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے، لیکن مدارس کے علاوہ بھی بچوں کو جنسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا عمل ہمارے سماج میں مختلف سطحوں پر جاری و ساری ہے۔ مین سٹریم سکولوں میں بھی اس جرم کا ارتکاب ہوتا ہے لیکن اس بارے بہت کم یا بالکل کچھ نہیں کہا جاتا۔ اور  کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری ایلیٹ اکیڈیمی میں بھی مستقبل کے افسروں کو ان کے ٹرینرز انھیں اس عمل سے گزارانا پسند کرتے ہیں۔

سیم سیکس کے دوپہلو ہیں ایک ہے دو بالغ افراد کا اپنی مرضی سے یہ جنسی تعلق قائم کرنا۔ اس تعلق کو پوری دنیا نے چند ممالک کو چھوڑ کر حقیقت کے طور پر تسلیم کرلیا ہے اور اسے کوئی جرم نہیں سمجھا جاتا۔ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں دِلّی ہائی کورٹ اس کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے لیکن ساتھ ہی اس فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بچوں اور نابالغوں کی حد تک یہ جرم ہی ہوگا اور قابل سزا بھی ہوگا۔

ہمارا سماج چونکہ سیم سیکس تعلق کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا ہے اس لئے اس بارے کسی قسم کی قانون سازی یا سماجی مشاورت بحث و مباحثہ کی اجازت دینے سبے انکاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی کوئی ایسا واقعہ سامنے آتا ہے تو ہمارا مجموعی ردِ عمل ہذیان پرمبنی ہوتا ہے اور ہم غصے اور نفرت سے اس فعل کےمرتکب افراد کو عبرت ناک سزا دینے کے مطالبات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن چند ماہ گزرتے ہیں تو ہم سب بھول بھال کر ایک دفعہ پھر سیم سیکس تعلق کی عدم موجودگی کا پرچم اٹھالیتے ہیں

بچوں کی حد تک لواطت پتہ نہیں یہ اصطلاح باہمی رضامندی کے تعلق پر منطبق کی بھی جاسکتی ہے یا نہیں، تو قابل سزا جرم رہنا چاہیے۔۔ لیکن دو بالغ افراد کی حد تک اس کی سزا ختم کردینا چاہیے۔ تاآنکہ کوئی بالغ فریق ریپ کا الزام نہ لگائے اور اسے عدالت میں ثابت بھی کرے۔ ہمارے سماج میں سیم سیکس جنسی رحجان پوری قوت سے موجود ہیں۔اور یہ کوئی غربت کی بنا پر نہیں ہے جیسا کہ ہم عام طور پر سمجھ لیتے ہیں۔ اس جنسی رحجان کے حامل افراد میں اعلی پڑھے لکھے پیشہ ورنوجوان شامل ہیں اور ان کے اپنے کلب اور گروپس ہیں جن کے پلیٹ فارمز سے وہ زیر زمین سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں

اب کچھ باتیں مولوی عزیزالرحمن بارے۔۔ مولوی کی  سب سے زیادہ مذمت اور تضحیک  لبرل اور روشن خیال افراد نے کی ہے۔ ان کے نزدیک مولوی کا سب  سے بڑا جرم مدرسے میں جنسی فعل کرنا ہے۔ مولوی کے لئے مدرسہ اور مسجد تقدس کی حامل نہیں ہوتی وہ محض اس کا ذریعہ روزگا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ نمازی ہیں جو مسجد یا مدرسے کو تقدس دیتے اور اس کا احترام کرتے ہیں۔مولوی کا نماز وجمعہ پڑھانا اور اذان دینا یا دیگر مذہبی فرائض سرانجام دینا اسی طرح ایک پیشہ ہے جس طرح دوسرے پیشے ہیں۔ وکیل کے لئے قانون کچھ نہیں ہے وہ جب چاہتا ہے اس کا مذاق اڑادیتا ہے۔ ڈاکٹر مریض کو مرتا چھوڑ کر فیس کی وصولی پر اصرار کرتا ہے۔ مریض مرتا مرجائے یہ اس کے لئے روزمرہ کا معمول ہے یہی حال مولوی کا ہے اس کے لئے مسجد اور مدرسہ اس کی روزگاہ کا اڈا ہے کوئی مقدس مقام نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مولوی عزیزالرحمن کو سوشل میڈیا مہم کے دباؤ کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا ہے اس کا کیس جب عدالت میں پہنچا تو اس پر کچھ ثابت نہیں ہوگا کیونکہ مفعول بالغ ہے یہ زیادہ سے زیادہ ابیوز آف اتھارٹی  ہوگا ۔اس  سے زیادہ کچھ نہیں اور بہت جلد لوگ  اسے بھول کر ایک دفعہ پھر دعوے کرنے لگیں گے  کہ ہمارے سماج میں سیم سیکس تعلقات موجود نہیں ہیں یہ مغرب اور امریکہ ہی ہیں، جہاں یہ گند موجود ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply