آہ !انسانوں کے کالے کرتوت۔۔۔رضوانہ سیّد علی

بے شک انسان کے خمیر میں اچھائی اور برائی دونوں عنصر موجود ہیں اور ازل سے انسان اسی کشمکش میں جھولتا چلا آ رہا ہے لیکن موجودہ دور میں یہ کشمکش عروج پہ نظر آتی ہے ۔ ارتقاء کا سفر بلندیوں کی انتہا پہ ہے ۔ انسانی شعور بلوغت کو پہنچ چکا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے آرام و آسائش میں کوئی کمی نہیں رہنے دی ۔ پھر بھی انسانوں کی اکثریت دل کے سکون اور روح کے اطمینان سے کوسوں دور ہے ۔ اسکی بنیادی وجہ صرف  یہ ہے کہ آئندہ نسلوں کی تربیت سے ہاتھ اٹھا لیا گیا ہے ۔ موجودہ دور کے لوگ ہر پابندی سے بے نیاز رہنا چاہتے ہیں ۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو سہولتیں اور نعمتیں تو وافرمہیا کی جاتیں ہیں لیکن وہ ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش سے کوسوں دور رکھے جاتے ہیں ۔ موبائل فون کچے ذہنوں کے ہاتھوں میں تھما کر ہم نے شیطان کو کھلی چھٹی دے دی ہے کہ وہ بے دھڑک نقب لگاتا چلا جائے ۔

چند ماہ پہلے ایک امریکی والد نے پولیس کو اطلاع دی کہ اسکی بیس 22 سالہ بیٹی اپنے ایک دوست کے ساتھ چھٹیاں گزارنے ہانگ کانگ گئی تھی ۔ چھٹیاں کب کی ختم ہو چکی ہیں ۔ پر وہ ابھی تک نہیں لوٹی ۔ ہاں دو تین مرتبہ وہ گھر سے پیسے منگوا چکی ہے لیکن مجھے شک ہے کہ وہ میسج میری بیٹی کے نہیں تھے ۔ کیونکہ وہ میسج کرتے ہوئے حرف ” اے ” ایک خاص انداز سے لکھتی تھی ۔
امریکی پولیس نے ہانگ کانگ پولیس کی مدد سے تفتیش شروع کر دی ۔ مطلوبہ ہوٹل پہ چھاپہ مارا گیا تو پتہ چلا کہ دو لڑکے اور ایک لڑکی چند دن یہاں رہ کر چلے گئے تھے ۔ لڑکی ایک میڈیسن کمپنی میں کام کرتی تھی جو کینسر کی دوائیں بناتی تھی ۔ اس کا مریضوں کے ساتھ بہت اچھا رویہ تھا اور وہ انہیں دواؤں کے بارے میں بہت اچھا سمجھاتی تھی ۔ اسے موسیقی سے بھی شغف تھا ۔ اس کا باس اسکے کام سے خوش تھا اور کولگیز بھی اسے پسند کرتے تھے ۔ ان سب کی مدد سے ٹریس کیا گیا کہ جان نامی لڑکا انٹرنیٹ سے ماریا کا دوست بنا تھا ۔ اور شواہد یہ اکٹھے ہوئے کہ جان بارہ برس کی عمر سے انٹرنیٹ کرائم کا ماہر ہو چکا تھا ۔ اسے اس کا ایک ہم مزاج دوست بھی مل گیا تھا ۔ یہ ایک اورسیز فیملی کا بنگلہ دیشی لڑکا اسلام تھا ۔ دونوں نے مل کر بٹ کوائن  سکیم کے ذریعے خوب کمایا ۔ پھر وہ کریڈیٹ کارڈ ز ہیک کرنے کے ماہر ہوئے اور آخر جان ماریہ کو بہلا پھسلا کر ہانگ کانگ لے گیا ۔

بہت تلاش کے بعد ایک روز پولیس نے اسلام کو ایک مار کیٹ سے گرفتار کر لیا اور اسکی مدد سے جان بھی پکڑا گیا اور بمشکل ان سے اگلوایا گیا کہ جان نے لڑکی کو قتل کرکے اسکی لاش ٹکڑوں کی صورت پلاسٹک میں لپیٹی اور اسلام بازار سے ایک لکڑی کا بکس خرید لایا اور لاش اس میں بند  کر کے دریا برد کر دی گئی ۔ دونوں لڑکوں کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے اور وہ امریکہ کی اصلاحی جیل میں ہیں ۔ اسلام تو کہتا ہے کہ میں نے قتل نہیں کیا ۔ میں تو رہتا بھی الگ تھا ۔ ہاں دوست نے جو مدد مانگی وہ میں نے کر دی ۔ اسے بکس خرید دیا اور اسے دریا برد کرنے میں مدد دی ۔ جان کو ایک انسانی جان لینے پہ کوئی شرم نہیں ۔

پولیس جب دریا کو کھنگال رہی تھی تو دریا کے پانی پہ آلودگی کی کئی فٹ موٹی تہہ موجود تھی ۔ ٹھیک اسی طرح انسانوں کے ذہن بھی کچھ اس طرح آلودہ ہو چکے ہیں کہ اب خیر و شر کے درمیان کا فرق مٹ چکا ہے ۔ پڑھنے والوں سے میری درخواست ہے کہ اسے مغرب کی روداد سمجھ کر ایک طرف نہ رکھ دیں ۔تباہی کی یہ طغیانیاں ہمارے معاشرے میں داخل ہو چکی ہیں ۔ کبھی گھر سے نکل کر اردگرد نظر دوڑائیں ۔ سکول یونیفارم میں ملبوس بچیوں بچوں کو ہوٹلوں میں بیٹھا دیکھیں ۔ ان کے ہاتھوں میں موبائل ، ہونٹوں میں دبے سگرٹ اور چہروں سے عنقا معصومیت کو تلاشیں اور پھر اپنی جواب دہی کریں کہ اس سب میں ہمارا حصہ کیا ہے

؎ مدعا محوِ تماشائے شکست دل ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

آئینہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply