تمہارے لئے نہیں ہیں۔۔۔رابعہ الرَبّاء

میری کہانیاں ،میری نظمیں، میرے لفظ، میرے حرف
تمہارے لئے نہیں ہیں،
اگر
تمہیں نہیں پتا “گبیریلا” نے کیوں لکھا
اگر
تمہیں نہیں پتا” ہرمن ہیس” پہ “سدھارت” کے ساتھ نیم موت راج کرتی رہی
اگر
تمہیں نہیں پتا
“سدھارتا “کا اپنے باپ سے کیا سوال تھا،
“کافکا” کا اپنے باپ کو لکھا ایک خط،
اگر
تمہیں نہیں پتا “مونا لیزا” کے پیچھے کیا سحر ہے،
اگر
تمہیں نہیں پتا “افلاطون” کے درودیوار میں کیا تھا،
اگر
تمہیں نہیں پتا” ڈکنز” کے وقت کی تکرار نے اس کو کیسے زندہ کر دیا،
اگر
تمہیں نہیں پتا “کماسوترا “کے رنگ کیا ہیں،
تو
میری کہانیاں، میری نظمیں،
تمہارے لیے نہیں ہیں۔۔۔۔۔
بخدا تمہارے لیے نہیں ہیں!

میرے لفظ، میرے استعارے، یہ رمز
تمہاری بے علمی کی لذت بھی ہو ں گے،
تمہاری ہنسی کا سبب بھی ہوں گے،
احسانِ  شر سے تم واقف نہیں ہو،
“نہج الباغہ” علم کا دروازہ ہے بس،
اس میں داخلے کے لیے بہشتی زیور کام نہیں آتا،
مگر
تم تو بہشتی زیور بھی بہشت میں پڑھو گے،
سو۔۔۔
میرے لفظ ،میری کہانیاں، میری نظمیں، تمہارے لیے نہیں،
ان سے دور رہو۔۔
کہ
تم کو دنیا داری کا زہر مار چکا ہے،
تم کو مطلب پرستی کی بیچارگی سمجھ آ گئی  ہے،
اس سے کھیلو،
کہ
یہ لفظ تمہارے لیے نہیں ہیں،
کیونکہ
تم کو نہیں پتا “بلھے شاہ” عورت میں حلول ہو کر کلام کرتا ہے،
“وارث شاہ” اسی وجود کو سلام کرتا ہے،
“ایلف شفل” جو کھو جاتی ہے،
راز سے پردے اٹھا دیتی ہے،
“قونیہ” اگر شہر سمجھو۔۔
تو۔۔
میرے لفظ ،میری نظمیں، میری کہانیاں، تمہارے لیے  نہیں ہیں!
انہیں نہ سنو ، نہ پڑھو ، نہ سناؤ،
کہ مجھے درد ہوتا ہے،
اگر
نہیں جانتے عیار عقل پہ عشق کو فوقیت کیوں ہے،
اگر
نہیں جانتے” موسی” و “خضر” کا بھید کیا ہے،
اگر
نہیں جانتے صبر طوفانوں کا امین ہے،
اگر
نہیں جانتے ” لا” کا فلسفہ “کُن ” ہے،
تو۔۔۔میری نظمیں، میری کہانیاں، میرے حرف ،تمہارے لیے نہیں ہیں!

یہ رمز ،یہ بھید، تمہارے لیے  نہیں ہیں،
یہ “لا” یہ “کُن ” تمہارے لیے نہیں ہیں،
.اگر پھر بھی کچھ شوق باقی رہے،
تو اپنے دامن میں جھانک لینا،
اپنے پیرہن کی جھلملاہٹ کے بھیک پیوند سے پوچھ لینا
کدھر سے آئے،
کدھر کے ہو مسافر،
کس کو لُوٹنا تھا،
کس سے لُٹوا لیا ہے
اور
زندگی کیا مقافات بھی ہے ؟
معصوم بن کر مسکرا کر
آنکھوں کو تھوڑا سا نچا کر
کسی شوخ کو جو زیر کیا ہے
تو
زیر کبھی جو زبر ہوئی  تو،
پیش بھی کرنا پڑ گیا تو،
مسکرا سکو گے۔۔۔؟
کیا اپنے باپ کا قرض چکا سکو گے؟
یہ تمہارے مہرے،
یہ تمہارے رشتے،
بے خبر نہیں ہیں سارے،
مروتوں کے ہیں یہ مارے،
ورنہ
دنیا تو دیکھی ہے سب نے،
خامشی کی بابت تم کب تک نچا سکو گے،
مظلومیت کی بھی اک عمر ہوتی ہے،
گزر جو گئی۔۔
تو
بڑھاپے کی سچائی  سے اپنی،
کب تک آنکھیں چڑا سکو گے،
اگر
تم غور نہیں کرتے کہ
دنیا کی ساری خدائی  ، انا ، غیرت ،عزت، پگڑ، تاج، کوہ نور،
سب سر پر برجمان ہیں۔۔
ستارے ، چاند ،سورج ، سات آسمان اور براق
ہوائی جہاز اور پھر خلائی  جہاز
بارش کے واسطے آب کا خشک قطرہ
روح کا جسم سے جدائی  کا سفر
سب آسمان کی اور ہیں
تو
جنت کیسے قدموں تلے ہو سکتی ہے
کبھی تم نے سوچا، مقام دوزخ کہاں ہے؟
یہ بھید۔۔
یہ راز۔۔
یہ سوال۔۔
اگر تم میں نہیں گنگناتے
تو
میرے لفظ ،میرے حرف ، میری نظمیں ، میر ی کہانیاں
تمہارے لیے نہیں ہیں

فرائڈ سے ژوک کے نفسیاتی فلسفوں کی الجھن
باڈی مینٹیننگ سے بافی شیمنگ تک کے قانون
اُف! ایسے زمانے انجان ہو تم،
جب تم کو نہیں پتا کہ “گورکی” ناول “ماں” کا خالق ہے
جب تم کو “ہندہ “یاد نہیں ہے،
جو کلیجے چبا جاتی ہے،
یہ طاقت” یزید ” میں آ جاتی ہے،
جب تم کو نہیں پتا “منصور حلاج” کا قصور نیا نہیں تھا،
“رابعہ” کی بہنوں نے اسے کھو بھی دیا تھا،
“زلیخاں” بس اک کردار ہے تمہارے لیے،
“خدیجہ” کوخیر تقدس سے آگے نہیں جانتے،

Advertisements
julia rana solicitors

“خدیجہ ” محبت کا استعارہ بنی تھی،
وہ اک با علم گھرانے میں پلی تھی،
دیوی عورت ، پیروں کی جنت اس پہ بھی کئی مینار کھڑے،
یہ سب تمہارے لیے ہیں
سو
آؤ زمانے والو
آگ لگاؤ
کہ “علم دین” کا عشق بازی لے جائے
تم ٹک ٹاک ، سیلفی ، برگر کے مزے لو
تم بیٹھو
باتیں کرو
سنیکس کے ساتھ غیبت کے مزے لو
یہ دنیا ، یہ مادی یہ فانی یہ دنیا۔۔۔
تمہاری ہے،
تم شیکسپئر کا نام لے کر فخر محسوس کرو
وہ اسی میں خوش ہے،
کہ
تم نے اس کو پڑھا نہیں ہے
” نے لی ساش” “وٹسن چرچل” “جارج برنارڈشا” سے “انا تول “تک
سب،
تمہارے انجان ہو نے سے خو ش ہیں
ورنہ
تم ان کا لکھا بھی ان پہ بہتان بنا دیتے
ان پہ اپنی دانش کا الزام لگا دیتے
سو مجھے معاف کر دو
میری نظمیں ،میری کہانیاں میرے لفظ
“ماں”،” عشق کا دربار”
” رات کی رانی ” “جگنوؤں کے دیس” سے “سویٹ ہارٹ” تک
اور
“سویٹ ہارٹ “سے “درویشوں کا ڈیرا” تک
کچھ بھی تمہارے لیے نہیں ہے۔۔
سو اپنے برینڈڈ کپڑوں جوتوں جیولری میک اپ ہوٹلز تک محدود رہو۔۔
نیا فیشن کیا ہے ،
نیا سیشن کیا ہے،
نئے دور کے نئے قبرستانوں کا سفر بھی پرانے جیسا ہی ہے،
اگر سمجھو
مگر
یہ لفظ یہ کہانیاں یہ نظمیں تمہارے لیے  نہیں ہیں
کہ
تم ان کی تشہیر کرو،
تم ان سے اپنا مطلب نکالو
تم ان سے آگ لگاؤ
آگ پہ تیل گراؤ
اور
خود ہی اس میں جل جاؤ،
یہ لفظ یہ حرف یہ کہانیاں یہ نظمیں تم سے معذرت خواہ ہیں
کہ
یہ تمہارے لیے نہیں تھے
یہ تمہارے لیے نہیں ہیں!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply