میڈیا کچھ ان کہی کہانیاں

میڈیا کچھ ان کہی کہانیاں
فیض اللہ خان
کچھ احباب زخمی و جان بحق صحافیوں کی تصاویر شئیر کرکے بتلا رہے ہیں بڑی مشقت اور مشکلات میں ہم کام کر رہے ہیں اور اسکے نتیجے میں جان سے چلے جاتے ہیں ، انکو سراھنا یقیناً اچھا عمل ہے لیکن اس معاملے کا ایک الگ زاویہ بھی ہے مثلاً سماء ٹی وی کے نوجوان ملازم تیمور کے قتل کی ذمہ واری اس بریکنگ نیوز سسٹم پہ بھی عائد ہوتی ہے جسکے مطابق خبر اور فوٹیج کے حصول کے لئیے مار دھاڑ کرکے سب سے پہلے پہنچنا ضروری ہے ویسے تو بریکنگ نیوز ہر ادارے کا مسئلہ ہے لیکن اپنے ملازمین کو جتنا نفسیاتی اس حوالے سے سماء ٹی وی بناتا ہے اتنا دوسرا چینل نہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ تیمور کی ہلاکت سے چند روز قبل ہر بات میں بازی لیجانے کا دعوی کرنے والے چینل کے ڈائریکٹر نے نوجوان صحافیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ کیا تمہیں کوئی اسٹوری بریک کرنے پہ دھمکی آمیز کال ملی ؟ اگر نہیں ملی، تو یہی سمجھو کہ تم کام نہیں کر رہے بلکہ دو دانت کے کھسی ہو شیر نہیں ، امید ہے کہ تیمور کے گرم سرخ اور تازہ لہو بہنے کے بعد وہ کسی کو کھسی ہونے کا طعنہ نہیں دیں گے ۔
سماء ٹی وی کے مالک ظفر صدیقی سے عام ملازم رابطہ کر ہی نہیں سکتا لیکن اس کھلے فورم کے زریعے ان سے استدعا ہے کہ اپنے ادارے کے لوگوں پہ رحم کریں اور کام کا ایسا ماحول فراہم کریں کہ اسکے نتیجے میں ملازمین ٹینشن ڈپریشن شوگر اور بلند فشار خون کے مرض میں مبتلا نہ ہوں ۔
انکے ہاں کام کرنے والے لوگ اس بات پہ خوش ہوتے رھتے ہیں انکی تنخواہ ہر مہینے کی پچیس چھبیس تاریخ تک آجاتی ہے لیکن وہ بیچارے یہ بات فراموش کر دیتے ہیں جس طرح ہر چینل کے ملازمین کی مہینہ میں ایک بار تنخواہ آتی ہے اسی طرح انکی بھی ایک بار ہی آتی ہے ایک ماہ میں دو تنخواہیں نہیں ملتیں ۔
سماء کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انکے یہاں ملازمین کا الگ سے فنڈ مختص ہوتا ہے جو استعفے کی صورت میں ملتا ہے یہ شاندار پہلو دیگر چینلز کے واسطے قابل تقلید ہے ۔
سماء کی بابت لکھنے کا خیال یوں آیا ایک تو وہاں کے کئی دوستوں کی فرمائش تھی اور پھر میں وہاں خود بھی ایک سال اسی ماحول میں کام کرچکا ہوں ۔
میڈیا گھروں کا ایک دکھڑا یہ بھی ہے صحافت کمرشل ہوچکی جس طرح ایک فلم بارہ مصالحہ جات سے تیار ہوتی ہے اسی طرح مختلف نیوز بلیٹن بھی تیار کئیے جاتے ہیں مقصد صرف اور صرف ریٹنگ کا حصول ہے بدقسمتی سے میڈیا گھر مختلف سیاسی جماعتوں اسٹیبلشمنٹ یا سرکار کے مابین تقسیم ہیں اور انہی کی جنگ لڑ رہے ہیں جسے اینکرز اپنی چرب زبانی سے ملکی مفادات کی خاطر کیجانے والی جدوجہد کا عنوان دیتے ہیں ۔
ایک اور بات بھی پیش نظر رہے کہ دھشتگردی یا اسلام خلاف عالمی یا علاقائی سطح پہ لڑی جانیوالی جنگ میں میڈیا براہ راست مہرے کے طور پہ استعمال ہورہا ہے اور اسکے نتیجے میں کئی فوائد سمیٹے جارہے ہیں اسی طرح مسلم معاشروں کو مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگنے کے لئیے میڈیا اپنے کندھے فراہم کر رہا ہے ۔
اسی کے ذیل میں عرض ہے پولیس فوج صحافت و وکالت کے شعبے ہم نے مرضی سے اختیار کئیے ہیں کسی نے مجبور نہیں کیا اسکے خطرات مراعات فائدے یا نقصان ہمارے سامنے ہوتے ہیں کسی نے زور زبردستی کرکے ہمیں ان شعبوں میں نہیں دھکیلا ہمیں اپنے کام کے پیسے ملتے ہیں چاھے ہم سرحد پہ مورچے میں کھڑے ہوں کسی ناکے پہ مجرموں کے منتظر یا کیمرہ و قلم لئیے بریکنگ اسٹوری تلاش میں ہوں ۔ ہم میں سے کوئی بھی فی سبیل اللہ یہ کام نہیں کر رہا ہے فوجی پولیس صحافی یا وکیل کی مراعات تنخواہ اور طاقت ختم کردیں ،پھر ہم بھی دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ یہ بھاری پتھر اٹھاتے ہیں ہم صحافیوں کی بہت سے لوگ عزت صرف اس بنیاد پہ کرتے ہیں وہ ہماری بریکنگ نیوز کے شر سے محفوظ رہیں ، ہم بھی مراعات یافتہ طبقے یا اشرافیہ کا حصہ بن چکے سرکار ہمیں بہترین مناصب دیتی ہے پلاٹ و پرمٹ ملتے ہیں سرکاری اداروں میں بغیر لائن میں لگے کام کراتے ہیں ریل و ہوائی جہاز کے سفر کے دوران رعایتی ٹکٹ ملتے ہیں سیاسی جماعتیں ہمیں کاروبار پلاٹس و دیگر الاؤنس دیتی ہیں ہم ٹرانسفر پوسٹنگ کے ذریعے مال بناتے ہیں فقط دس سال میں پیدل سے ویگو پہ آجاتے ہیں لیکن کوئی نیب کوئی اینٹی کرپشن ہم سے پوچھ نہیں سکتا ۔
ہماری برادری کے یہ بڑے ہی تلخ حقائق ہیں ہم حکومتوں کی میرٹ پالیسی پہ تنقید کرتے ہیں لیکن کسی کو نہیں بتلاتے کہ ہمارے یہاں ترقی یا نوکریاں لگنے کا معیار قابلیت نہیں افسران بالا یا مخصوص اینکرز کی منظور نظری ہے اسی کیساتھ ترقی کے واسطے ازحد ضروری ہے سیاسی جماعتوں حکومتوں یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی آپ کو حاصل ہو ، اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہر نوکری یا ترقی انہی کے مرہون منت ہو لیکن نوے فیصد بہرحال ایسا ہی ہے ۔ ہم سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں دنگل دکھاتے ہیں مگر اپنی تنظیموں کے الیکشن کے دوران مار دھاڑ یا ایک دوسرے کی کردار کشی کی بابت کوئی خبر نہیں چھاپتے بلکہ ہمیشہ کوشش رھتی گند کے اوپر قالین پڑا رہے ۔
دل کے کچھ پھپھولے تھے سو سامنے رکھ دئیے اندازہ ہے کہ یہ ساری باتیں اپنی برادری میں معتوب قرار دینے کے واسطے کافی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں پہلے کب پسندیدہ کی فہرست میں تھا جو اب ہو جاؤں گا خیر ، لیکن جو یہ سب نہیں کرتے اور خوش قسمتی سے انکی تعداد ہے بھی زیادہ انکے دل کی یہی آواز ہے ۔

Facebook Comments

فیض اللہ خان
ایک عملی صحافی جو صحافت کو عبادت سمجھ کر کرتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply