افغان امن مذاکرات : امکانات اور مشکلات

کیا نئی امریکی انتظامیہ کے آنے سے عالمی سٹرٹیجک منظر نامہ بدل رہا ہے ؟ ان تبدیلیوں کی نوعیت اور سمت کیا ہوگی ؟ اوراس کے ہمارے علاقے پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ ۔ یہ سوالات آجکل ہر جگہ پر زیر بحث ہیں ۔ عالمی اور علاقائی طاقت کے مراکز میں نئی امریکی انتظامیہ کی ممکنہ پالیسیوں اور اس کے اثرات کے حوالے سے غوروحوض جاری ہے اور پالیسی سازوں کی توجہ نو منتخب امریکی صدر کے بیانات ، اقدامات اور حتی کہ ٹویٹس پر مرکوز ہیں۔ ہمارے خطے کیلئے اور ایشیوز کے علاوہ تین امور یعنی افغانستان ، ایران اور چین کے حوالے سے امریکی پالیسیاں اہم ہیں۔
امریکہ میں اقتدار کی منتقلی اور نئی انتظامیہ کی افغان پالیسی ابھی تک سامنے نہیں آئی مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی مہم کے دوران تقاریر ، بیانات اور انتخابات کے بعد کچھ اقدامات سے ایسے اشارے ملے ہیں کہ نئی امریکہ انتظامیہ کی پالیسیوں سے علاقے میں عالمی رقابتیوں میں اضافہ ہوگا اور خاص کر نو منتخب امریکی صدر کی چین اور ایران کے بارے میں جارحانہ انداز فکر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ مسائل پر ڈونلڈ ٹرمپ پسپائی اختیار کر رہے ہیں ۔
گزشتہ جمعرات کے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فون کے زریعے بات چیت کی ہے۔ بات چیت کی تفصیلات تو معلوم نہ ہوسکی مگر اس بات چیت سے چند گھنٹے قبل افغانستان میں تعینات بیرونی افواج کے امریکی جنرل جان نکلسن نے سینٹ کی آرمڈ سروسز کی کمیٹی میں کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کو کمزور کرنے کیلئے چند ہزار مزید فوج کی ضرورت ہے ۔
علاقے میں امریکی اثرورسوخ کو زائل کرنے اور بالواسطہ یا بلاواسطہ نئی امریکی انتظامیہ پر اثرانداز ہونے کیلئے علاقے میں پراکسی وارز کے نئے راونڈز کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ چین اور ایران نئے صورتحال کے مطابق اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی اور نئی علاقائی صف بندی کیلئے کوشاں ہیں ۔ روس اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے اور علاقے خاص کر وسطی ایشیا میں اپنا کھویا ہوا اثرورسوخ بحال کرنے کی کوشش میں ہے۔ روس کی افغانستان کے حوالے سے بڑھتی گہما گہمی اس کی داخلی صورتحال اور وسطی ایشیا کے حوالے سے پالیسی سے جڑی ہوئی ہے ۔
روس کی جانب سے افغانستان کے حوالے سے چھ فریقی کانفرنس کا انعقاد جس میں چین اور پاکستان کے علاوہ افغانستان ، ایران اور انڈیا کو بھی دعوت دی گئی ہے ایک خوش آئند بات ہے ۔ روس نے امریکہ کو بھی مشروط طور پر دعوت دی ہے ۔ کچھ علاقائی ممالک افغان حکومت اور طالبان دونوں پر زور دے رہے ییں کہ امن مذاکرات بحال اور افغان حکومت میں طالبان کو شامل کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔
ماضی کی طرح اب پھر افغانستان پراکسی وارز کا ایک ممکنہ مرکز ہوسکتا ہے ۔ اگرچہ گزشتہ چار دہائیوں سے افغانستان عالمی اور علاقائی رقابتوں اور ریشہ دوانیوں کا مرکز ہے ۔ اب نئے راونڈز کا امکان ہے ۔ ہمسایہ ملک اور افغانستان میں پراکسی وارز یا عسکریت پسندی کیلئے ایک لانچنگ پیڈ کی حیثیت سے پاکستان کی حیثیت اور کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر ماضی قریب تک امریکہ پاکستان کے زریعے افغانستان میں اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہے تو اب دیگر علاقائی قوتیں مثلا چین ، روس اور ایران بھی پاکستان کی افغان مسلح مخالفین میں خیر سگالی اور اثرورسوخ نفوذ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش میں ہے ۔ پاکستان کی مرضی اور منشا کے بغیر افغان طالبان کا ایران ، چین اور حتی روس کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام ممکن نہیں تھا ۔ اس سلسلے میں ان ممالک کو پاکستان کی مکمل سہولت کاری اور تعاون حاصل رہی ہے ۔
علاقائی سیاست میں پاکستان کی چین اور روس کی طرف جھکاؤ اور پالیسیوں کا حصہ بننے کی کوششوں کو امریکہ میں شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ اگرچہ ابھی تک بہت سے ملکی تجزیہ نگار پاکستان کی چین اور روس سے قربت کو امریکی انتظامیہ پر اثرانداز ہونے اور اسلام آباد یا راولپنڈی کی اس کی خوشنودی دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں قرار دیتے ہیں ۔ کیونکہ پاکستانی پالیسی سازوں کی امریکی خوشنودی حاصل کرنے کی سر توڑ کوششیں تاحال جاری ہیں۔ نئی امریکی انتظامیہ کے آنے سے پاکستان پر جوہری ہتھیاروں اور عسکریت پسندی کی روک تھام کے حوالے سے دباؤ میں اضافے اور پابندیوں کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
بدلتے ہوئے حالات میں ایران اور چین کیلئے پاکستان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ایران اور چین دونوں کی خواہش ہوگی کہ امریکہ ان کے ہمسایہ ملک پاکستان کو ان کے خلاف استعمال نہ کرے۔ چین پہلے ہی پاکستان میں قدم جما چکا ہے اور آہستہ آہستہ اور غیر محسوس انداز میں پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے ۔ روس کو پاکستان کے قریب لانے میں چین کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ پہلے چین اور اب روس کی بھی یہی کوشش ہوگی کہ پاکستان امریکہ کے اثر سے نکلے۔ ایران پہلے ہی سے پاکستان کی امریکہ سے انتہائی قربت سے شاکی رہا ہے ۔
ان سطور میں ماسکو میں سہ فریقی اجلاس سے قبل اس بات کی پیشن گوئی کی گی تھی کہ سہ فریقی کانفرنس کے حوالے سے پاکستانی پالیسی سازوں کی خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں سے قطع نظر روس اور چین دیگر علاقائی طاقتوں خاص کر ایران اور بھارت سے بہتر تعلقات اور افغان مسلے کے حوالے سے ان کے کردار کی اہمیت کے پیش نظر اگلے کسی بھی مرحلے پر ان ممالک کو اس پراسس میں شامل کر سکتے ہیں۔ روس اور چین دونوں کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ وسیع علاقائی مفاہمت کے بغیر افغان مسلے کا پرامن اور مستقل حل ناممکن ہے۔ علاقائی اور عالمی طاقتیں اب افغان مسلے کا فوری حل چاہتی ہیں کیونکہ بہت سی وجوہات کی بناء پر اب یہ مسلہ ہر فریق کیلئے ایک بھاری بوجھ بن گیا ہے۔
طالبان کی جانب سے جنگی تیاریاں اور ان کے پاس نئے ہتھیاروں کی موجودگی اور ایران اور روس پر ان کو ہتھیاروں کی فراہمی کے الزامات علاقے میں قوتوں کی نئی صف بندی اور نئی علاقائی سٹرٹیجک منظرنامے کی عکاسی کر رہی ہے ۔ طالبان میں حالیہ فوجی اور سیاسی تبدیلیاں اگر ایک طرف ان میں خود اعتمادی تو دوسری طرف طالبان صفوں میں موجود اندرونی کشمکش کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے۔ ملا عمر کا خاندان طالبان پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے ۔ ملا اختر منصور کے دور میں یہ گرفت کمزور پڑگئی تھا ۔
طالبان کی جانب سے منصب صدارت سنبھالنے سے پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط جس میں ان سے سابقہ حکومتوں کی پالیسی ترک کرنے اور افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا پر سرد مہری کا اظہار کیا گیا ۔ ساتھ ہی طالبان نے سیاسی اور فوجی دباؤ بڑھانے کی کوششیں شروع کی ۔ انتظامی تبدیلیوں ، نئے اسلحے اور ھتھیاروں اور فوجی تربیت کی خبریں اور ویڈیو کی ریلیز دباؤ بڑھانے کی مختلف کوششیں ہیں ۔ جس کا مقصد نئی امریکی انتظامیہ پر اثر انداز ہونا ہے ۔ نئی امریکی انتظامیہ کو آئے کم عرصہ ہوا ہے اور افغانستان کے بارے میں ابھی تک اس کی کوئی واضع پالیسی سامنے نہیں آئی۔ مگر امریکہ کی جانب سے مزید امریکی فوج بھیجنے کے اشارے اور حالیہ فوجی کاروائیاں اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں فی الحال کسی بنیادی تبدیلی کا امکان نہیں ۔
روس اور ایران بڑی برائی یعنی داعش کی نسبت کم برائی یعنی افغان طالبان کو تسلیم کر رہے ھیں ۔ وہ افغان طالبان کو داعش کو کچلنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں مگر ساتھ ہی وہ ان کو افغان حکومت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بھی نہیں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ افغان طالبان کی کابل پر قبضے کا مطلب علاقے میں مذہبی عسکریت پسندی کا فروغ اور دوبارہ عروج ہے جو کہ داخلی عسکریت پسندی سے نبرد آزما ایران ، چین اور روس کیلئے کسی طور قابل قبول نہیں ۔ اس وجہ سے یہ تمام ممالک افغان امن مذاکرات کی بحالی اور کامیابی میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اورمذاکرات کی بحالی کیلئے فریقین سے رابطے میں ہیں ۔
مسلہ افغانستان خصوصا عسکریت پسندی کے حوالے سے بین الاقوامی رائے عامہ اور بدلتی ہوئی صورتحال نئے انداز فکر اختیار کرنے اور داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر تجدید نظر کی ضرورت ہے ۔ اگر بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ مطابقت پیدا نہیں کی گی نئی پالیسیاں نہیں اختیار کی گئیں تو مزید تباہی اور بربادی کو ٹالا نہیں جاسکتا ۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply