کیا ہم آج آزاد ہیں؟۔۔عدیل رضا عابدی

ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم

اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم

کیا ہم آزاد قوم ہیں؟ پاکستانی قوم رواں سال اگست میں75 واں یوم ِ آزادی منانے کی طرف جارہی ہے۔ لیکن اس سے قبل گزرے ہوئے گزشتہ سالوں کو سامنے رکھیں اورخود سے ایک سوال کریں کیا ہم اتنے سال گزرنے کے بعد بھی آزاد قوم ہیں؟

ہرآنے والا ہر یوم آزادی ایک طرف تاریخ کے لہو رنگ اوراق کی یاد تازہ کرتا ہے، تو دوسری طرف وہ آزادی کے حسین خواب پر قربان ہوئی قیمتی جانوں اور لٹی عصمتوں سے تجدید عہد وفا کا ایک اور موقع بھی فراہم کرتاہے تاکہ ہم اپنے ماضی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حال کا محاسبہ کریں اور مستقبل کے لئے ان راہوں کا انتخاب کریں جو ہماری قوم کو زندہ ضمیر کے ساتھ حقیقی معنوں میں آزاد قوموں کی فہرست میں لا کھڑا کریں۔ ہم آج تک اجتماعی احتساب سے نگاہیں چراتے ہوئے ہر سال یوم آزادی کو بھر پور جوش وخروش سے مناتے چلے آرہے ہیں۔

اگر ہم ایک مرتبہ جرمنی اور جاپان پر نظر دوڑائیں جو دوسری جنگ عظیم1945ء کی بھیانک تباہی کے بعد دوبارہ نئے سرے سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں مصروف ہوگئے تھے اور ہم نے بھی ان کے دو سال بعد 1947ء میں ایک نوزائیدہ آزاد مملکت کے طور پر اپنا سفر شروع کیا تھا۔ مگر افسوس ہمارا یہ 75 برس کا عرصہ ہمیں آگے کے بجائے پیچھے کی جانب لے گیا، جبکہ ان اقوام کے حوصلے اور قوت ارادی نے انہیں ایک بار پھر سے دنیا کی عظیم ترقی یافتہ قوموں میں سر فہرست لا کھڑا کیا۔

جہالت اور ضمیر فروشی نے ہمیں اوجِ ثریا سے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دے مارا اور آج ہمیں آزادی کا دن تو یاد رہا مگر حقیقی آزادی کیا ہے؟ ہم بھول گئے۔

آج ہم بحیثیت قوم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ہر طرف سے ہمیں بحرانوں نے گھیر رکھا ہے۔ ایک طرف ہم نظریاتی یکجہتی ،فکری وحدت اور اتحاد و اتفاق سے محروم ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی و انتہاء پسندی سے دوچار ہیں۔ لا قانونیت اور کرپشن کی بھرمار نے ہمارا اصل چہرہ کو ہی بگاڑ دیا ہے۔ طبقاتی تفریق ، استحصالی نظام، ہنر کی ناقدری، تعلیمی ڈھانچے کا کھوکھلا پن، اختیارات کا ناجائز استعمال، اخلاقی اقدار کا فقدان اور ریاستی دہشت گردی جیسی خوفناک آندھیوں سے ہمارا حال بری طرح لرز رہا ہے۔

حقیقی جمہوری روایات کا نہ ہونا، ہچکولے کھاتی معیشت، اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، پینے کے صاف پانی سے محرومی، لوڈ شیڈنگ کا عذاب اور نظام صحت کے گھمبیر مسائل ناقابل برداشت اور ایک عام انسان کے بس سے باہر ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں عدالتوں میں انصاف، درسگاہوں میں ڈگریاں، اسمبلیوں میں ضمیر ، اسپتالوں میں جعلی ادویات اور مساجد میں ایمان بکتےہیں وہاں نام نہاد حکمران بھی ریاستی دہشت گردی اور ظلم و بربریت کا ایک بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔

کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے ؟؟؟؟
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے۔۔۔۔۔!!!!

ہمارے پرُکھوں کے گلے میں دو قومی نظریے کا جو ہار ڈالا گیا تھا وہ دراصل ہمارے لئے پرُ خار طوق ِ گلو ثابت ہوا ہے، 1947 کے بعد تیسری نسل اس سانحہ کے اثرات اور عذابوں کو جھیل رہی ہے جسے ” آزادی ” کہا جاتا ہے جبکہ چوتھی نسل بھی جوانی کی دہلیز پر آپہنچی ہے۔ 75 سال گزرجانے کے باوجود ہم آزاد نہیں، اگر آزادی کی بات کروں تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آزادی کے نام پر ہمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ کبھی لسانی طور پر ،کبھی فرقہ واریت کے ذریعے اور کبھی اسٹیٹس کانشسنس کی وبا پھیلا کر، برطانوی تسلط سے نجات کے بعد نوزائیدہ پاکستان میں ہماری آزادی کی حفاظت جن چوکیداروں کو کرنا تھا انہوں نےابتدائی دنوں میں ہی ہمارے نرخروں کو دبوچ لیا تھا۔

ہماری سرحدوں سے شہ رگوں تک ان پہنچے ہیں
محافظ اپنے پنجوں سے رہائی اب نہیں دیتے۔۔۔!

ہم خود کو آزاد کہتے اور سمجھتے ہیں لیکن ہم آزاد نہیں ، اگر ہم آزاد ہیں تو اس ملک میں ہزارہ مغل قبیلے کے افراد لسانیت اور مسلک میں جدا ہونے کی بنیاد پر اس قدر کیوں مجبور کردئیے گئے کہ انہیں اپنے ہی آبا و اجداد کی بسائی ہوئی زمین پر شہر سے دور الگ کالونیوں میں رہنا پڑتا ہے۔ ضیایوں کی گود میں پلنے والے جھنگوی ان کے شکاری ہیں۔ گلگت بلتستان آپ کے اپنے ملک کا ایک حصہ ہے لیکن انہیں اب تک دل سے پاکستانی کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آخر گلگت اور بلتستان والوں نے تو ڈوگرا راج سے اپنے حصے کی آزادی خود کمائی تھی اور آپ کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ جب محرمیوں سے نبرد آزما ، حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں تو کیوں گلگتی جوان کراچی اور اسلام آباد سے سڑکوں سے غائب ہوجاتے ہیں اور ان کی لاشیں چناب کنارے کسی گاوں سے ملتی ہیں۔

نرخروں سے صدائیں آتی ہیں
شہر کا شہر ۔۔۔۔۔سر بریدہ ہے۔۔۔۔!!!

اگر آپ خود کو آزاد سمجھتے ہیں تو یہ آزادی اسی دن ختم ہوگئی تھی جس دن فاطمہ جناح کو تشدد کرکے قتل کیا گیا ، اس کے بعد 16 دسمبر 1971 کو محمد علی جناح کا پاکستان اپنے اختتام کو پہنچا۔ہمیں عصبیت و تعصب کی قید میں جکڑا گیا۔ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی لیکن لسانیت کے شکنجے میں آگئے۔ عصبیت بری بلا ہے۔ ہم نے سمجھا کہ مشرقی پاکستان والے ہم سے مختلف رنگ، زبان اور تہذیب رکھتے تھےان کا ہم سے الگ ہونا ضروری ہے۔۔ عصبیت و تعصب کا سلسلہ آگے بڑھا تو ہم نے اپنے ملک کی سب سے بڑی اقلیت، مسیحی برادری کو خود سے الگ سمجھ لیا، ان کی بستیاں الگ بسائیں، معاشرتی طور پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک اپنایا، بات بات پر ان پر توہینِ مذہب کے الزام لگا کر ان کو ایک خوف زدہ اقلیت میں تبدیل کر دیا۔ کراچی جیسے شہر میں مختلف قومیتوں والوں کے الگ الگ علاقے بن گئے۔مسلک پرستی کو عروج حاصل ہوا، غیر مسلک کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر مارا جانے لگا، نتیجے میں جان و مال کی حفاظت کے خاطر ملک میں علاقے اور محلے مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہوگئے۔کوئٹہ شہر کی گلی گلی اس بات کی گواہ ہے کہ کس طرح وہاں شیعہ ہزارہ قبائل کو مسلک اور نسل کے نام پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان سے ملنے والی آئے دن کی مسخ شدہ لاشیں آپ سے سوال کرتی ہیں کہ کیا آپ آزاد ہیں ؟؟؟

شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اٹ گئے
روشن دماغ لوگ بھی فرقوں میں بٹ گئے ۔ ۔ ۔

دیکھا جائے تو ہمیں یہاں تک لانے میں ہمارے چوکیداروں اور ہمارے ہی ووٹ سے منتخب ہوکر آئے حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ یہ سب کچھ باہمی بندربانٹ کا شاخسانہ ہے۔ عوا م کو الجھا دو، لڑا دو، انہیں بھوکا، بے روزگار مارو، جو اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائے اسے لاپتا کردو۔۔۔ میرے شہر کراچی کے ویرانے اس بات کے گواہ ہیں کہ حقوق آوری کیلئے آواز اٹھانے والے کتنے سر وہاں بریدہ ہوئے، سینے چھلنے ہوئے۔خود سے سوال کریں کہ ہم آزاد ہیں؟؟؟؟ نہیں ہم اشرافیہ، امراء اور متوسط و غریب حال کی طبقاتی تقسیم کے قیدی ہیں۔ ہمیں تقسیم کی زنجیر پہنانے والے، ہمیں محرومیوں سے دوچار کرنے والے کرپشن میں گردن تک دھنسے ہمارے حکمران،۔۔۔ہم ان کے قیدی ہیں ۔۔۔۔ زرداریوں ، شریفوں ، چوہدریوں اور چوکیدارو ں کے غلام ۔ ۔۔

یہ ملک دنیا کا واحد ملک ہے جہاں حکمرانی اسے ملتی ہے جو کرپشن میں سب سے آگے ہو، یہ وہ ملک ہے جسے غریب سمجھا جاتا ہے، مگر اس ملک کے حکمران اور سیاست دان اربوں روپے غیر ملکی بینکوں میں منتقل کر چکے ہیں۔ اس ملک میں وہ حکمرانی، سیاست اور کاروبار کرتے ہیں، ورنہ اُن کی اولادوں کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کے رہائشی منصوبوں کی پلاننگ بیرونِ ملک میں ہی کی جاتی ہے۔
یہاں آٹا، گھی، چینی، بجلی، گیس، پولٹری، ڈیری، اسٹیل، پراپرٹی اور ٹرانسپورٹ جیسے بنیادی ضروریات کے حامل شعبوں پر سیاست دان ہی قابض ہیں۔ اس ملک کی سیاسی قیادت اس حد تک اقتصادی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتی ہے کہ وہ چند لاکھ کا فائدہ اٹھانے کے لیے کروڑوں روپے کا بوجھ عوام کی طرف منتقل کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتی۔
ملک کی صنعتوں پر شریف ، زرداری، چوہدری، انصافی کابینہ کے وزیر، مشیروں اور چوکیداروں کا قبضہ ہے۔ ۔ ۔
دو بڑی نام نہاد سیاسی پارٹیاں باری باری اقتدار کی مسند پر کئی بار قبضہ جما چکی ہیں، تیسری پنڈی والی درگاہ کی پشت پناہی لئے ہوئے ہے، ملک کا قوم کا بیڑا غرق ھے، ہم قارونیت اور فروعونیت کے بعد اب یزیدیت سے بھی نبرد آزما ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اس خود ساختہ آزادی کی فضا میں ہمارے حوصلے بھی جواب دینے لگے ہیں، ایک جانب جمہوریت اور احتساب کے نام پر کرپشن کے عالمی ریکارڈ قائم کئےجارہے ہیں تو دوسری جانب نظام پر حاوی اشرافیہ مل بانٹ کر کھانے کے عمل کو تبدیلی کا نام دے کر قوم کو دھوکا دے رہی ہے۔

پاکستان میں پچھلی چار دہائیوں میں کمائی جانے والی دولت میں سے تقریباً 80 فیصد سیاسی اثر و رسوخ، اختیارات کے ناجائز استعمال، اور غیر قانونی طریقوں سے کمائی گئی دولت ہے، جس کے 75 فیصد حصے کے مالک سیاست دان اور بیوروکریٹ ہیں۔ ہماری سڑکوں پر دوڑتی مہنگی گاڑیاں، دن بہ دن تعمیر ہوتے شاپنگ مال، نئی مہنگی رہائشی اسکیمیں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کے مالکان بھی یہی حکمران اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہیں، جبکہ اس ملک کا سفید پوش اور غریب طبقہ سیاسی، معاشی، سماجی، قانونی، اور تعلیمی طور پر پسماندہ قوم کے طور پر جانا جاتا ہے۔

پاکستان کے موجودہ نظامِ میں اسمبلیوں میں موجود ہزار بارہ سو کے قریب سیاسی، مذہبی، علاقائی اور لسانی جماعتوں کے سربراہ اور اُن کے چیلے ہی چہرے اور پارٹیاں بدل بدل کر حکمرانی کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔ الغرض پاکستان کی موجودہ سیاست اور حکمرانی کا ڈھانچہ بین الاقوامی استعمار کا قائم کردہ ایک ایسا بندوبست ہے، جس میں ان کی وفادار پارٹیاں اُن کے سرمایہ دارانہ مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم اس موقع پر اس بات کا فیصلہ کرسکیں کہ اس ملک کے استحصالی طبقے اس کی ترقی اور آزادی میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں۔ کیونکہ اس اقلیت کا مفاد اور عوام دو متضاد چیزیں بن کر رہ گئی ہیں۔ اگر اس ملک میں اجتماعیت پر مبنی اور استحصال سے پاک کسی نظام کی داغ بیل ڈالنی ہے تو اس طبقے سے نجات ضروری ہے اگر ایسا نہیں کرسکتے تو مردہ نظام کے تحت زندگی بسر کرنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یوم آزادی منائیں۔۔۔ کیوں کہ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں دیا نہیں جگنو نہیں ستارہ نہیں
نہیں نہیں یہاں ہم جیسوں کا گزارہ نہیں
سنا ہے پہلے بھی بیعت طلب رہے تم لوگ
میں ” وہ ” نہیں ہوں، مگر پھر نہیں دوبارہ نہیں۔ ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply