یومِ آزادی یا یومِ قربانی؟۔۔سید مصعب غزنوی

آئیے اب اگر ہمیں پاں پاں، ٹھا ٹھا اور بے جا سیاسی بیانات سے فرصت مل گئی ہو تو یوم آزادی پر ان کو بھی چند لمحات کے لیے یاد کرلیتے ہیں جن کی عصمت، عزت اور جان کی قربانی کے بعد ہی ہم اس دن کو دیکھنے کے قابل ہوسکے۔

یہ 14 اگست 1947 کے ایک دن بعد کا قصہ ہے شاید
ہندوستان کے کسی گاؤں میں مسلمان، سکھ اور ہندو عرصہ دراز سے ایک ساتھ رہ رہے تھے، بے تحاشا   خوشی و غمی کے ادوار ایک ساتھ بِتا چکے تھے۔ مگر آزادی کا اعلان ہوتے ہی یہ مسلمان باقی دھرم والوں کے لیے انجان ہوگئے۔

احمد صاحب اپنے سات بھائیوں، اور ان سب کی فیملی کو لے کر ایک قافلے کی صورت پاکستان کے لیے نکلے، وہ اپنی حویلی، مال و اسباب کو آخری بار الوداع کرنے کے بعد جیسے ہی مڑے تو سامنے کیا دیکھتے ہیں کہ شرپسندوں اور درندوں کا ایک گروہ برچھے اور کلہاڑے لیے دیوانہ وار ان کی جانب بھاگتا چلا آرہا ہے۔

یہ مرحلہ اس فیملی کے لیے کس کرب کا لمحہ ہوگا میں نہیں سمجھا سکتا، میں نقشہ نہیں کھینچ سکتا، میرے ہاتھ کانپ اٹھیں گے، میرے الفاظ بکھر جائیں گے، میری آنکھوں سے پانی رواں ہوجائے گا۔
مگر تھوڑی کوشش کرتے ہوئے وہاں کی منظر کشی کردیتا ہوں
احمد صاحب کی فیملی پر وہ درندے ایسے حملہ آور ہوئے جیسے کسی بدترین دشمن پر حملہ آور ہوا جاسکتا ہے، گھر کے تمام افراد کو مار دیا گیا۔ بزرگ اور بڑی عمر کی خواتین تک کو قتل کیا گیا، جوان لڑکوں کو قتل کردیا گیا، یہاں تک کہ گلی میں جہاں خاک تھی، وہاں اب صرف خون ہی خون تھا۔

مسلمانوں کی نوجوان لڑکیوں کو البتہ قتل نہیں کیا گیا۔۔

ان لڑکیوں کو احمد صاحب کی لاش کے سامنے انہی کی حویلی میں دھکیل لیا جاتا ہے، اب سب درندے لائن بنالیتے ہیں اور باری باری ان جوان لڑکیوں کی بارہا عصمت دری کی جاتی ہے۔ احمد صاحب کی بڑی بیٹی کی جانب ایک جنسی درندہ بڑھتا ہے تو اس کا 5 سالہ بیٹا ماں کے دفاع میں سامنے آتا ہے مگر آن کی آن میں اس پر کلہاڑی کا وار کرکے گردن دھڑ سے الگ کردی جاتی ہے۔
یہ لمحہ اس ماں کے لیے کس کرب کا ہوگا، میں تو اسے کرب بھی نہ کہہ سکوں۔۔
اللہ اکبر!

اس کے بعد جنسی درندہ بیٹے کا تڑپتا لاشہ دیکھتی ہوئی ماں پر جھپٹا اور جنسی ہوس کا نشانہ بنا دیا۔ جب سب نے اپنی ہوس پوری کرلی تو سب لڑکیوں کی چھاتیوں کو کاٹ کر انہیں مرنے کے لیے ریل گاڑی کی پٹڑی کے قریب پھینک دیا گیا۔ جن میں سب مرگئیں مگر ایک کسی طرح یہ واقعہ بتانے کو زندہ بچ گئی۔

ایک فیملی جو پاس سے گزر رہی تھی پاکستان آنے کے لیے انہوں نے یہ منظر دیکھا کہ 100 سے زائد نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی لاشیں کٹی پھٹی پڑی ہیں مگر اس میں سے کسی کے کراہنے کی بھی آواز ہے۔ وہ رکتے ہیں مرہم پٹی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ خاتون یہ کہتے ہوئے جان اپنی جان آفرین کے سپرد کردیتی ہے کہ شکر ہے کہ میری یہ عصمت اور جان اس راہ میں لٹی ہے جو راہ ایک آزاد اسلامی فلاحی مملکت کو جاتی ہے۔

جس ملک کا نام پاکستان ہے اور اس کا مطلب لا الہ الا اللہ ہے۔
اور کان سے ایک بچی ہوئی آخری بالی اتار کر اس مرہم پٹی کرنے والی خاتون کے ہاتھ میں رکھ دیتی ہے کہ قائد اعظم کو جاکر دے دیجیے گا، یہ خالص سونے کی ہے۔ شاید پاکستان کے کسی کام آجائے۔
آہ! کیا کیا لکھ دوں۔۔اب یہاں؛

نجانے میں نے یہ واقعہ کس کتاب یا میگزین میں پڑھا مگر ہر یوم آزادی پر میری آنکھوں کے سامنے معلوم ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہجرت کرنے والوں میں لاکھوں لوگ جو شہید ہوئے ان میں اکثریت خواتین کی تھی جو بیچاری مر تو گئیں مگر اپنی عصمت و عزت لٹانے کے بعد۔ اور مردوں کی تعداد جو شجاعت سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے بھی کم نہیں، بلکہ ان بچوں کو میں کیسے بھول سکتا ہوں جن کو نیزوں پر اچھالا گیا، کلہاڑے کے وار سے دو ٹکڑے کردیے گئے۔

اور میں ٹرین کے اس ڈبے کو کیسے بھول سکتا ہوں جو قصور اسٹیشن پر رکا تو دیکھنے والے نے دیکھا کہ ایک ڈںے سے صرف بچوں کے بلکنے کی آواز آرہی ہے، وہ جیسے ہی اس ڈبے میں جھانکتا ہے تو مارے خوف کے چلانے لگتا ہے، کیونکہ اس بوگی میں صرف 1 سے 5 سال کے بچے تھے جن کے بازو اور ٹانگیں کاٹ کر بھیجا گیا تھا۔
آہ !میں کیسے برداشت کروں یہ سب۔۔

میں کیسے سمجھاؤں آج کی اس نوجوان نسل کو کہ تمہارے اجداد نے یہ ملک پاں پاں یا ٹھا ٹھا کے لیے نہیں لیا، کیک کاٹنے کی تقریبات کے لیے نہیں لیا۔ یہ تو تم خدا کا شکر کرو کہ ایک آزاد مملکت میں پیدا ہوئے ورنہ کیا کیا دیکھنا پڑتا تمہاری سوچ بھی نہیں۔

آزادی کا مطلب سمجھ نہیں آتا تو ایک بار مقبوضہ کشمیر، فلسطین، شام، عراق اور برما کا مطالعہ کرلو۔ تمہیں لگ پتے جائیں گے کہ ہوکیا رہا ہے۔

یہاں یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ آخر 14 اگست کو کیا کریں؟
ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنے کو ملتا ہے اس متعلق،
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب مدینہ گئے تو وہاں کے یہودی 10 محرم کا روزہ رکھتے تھے، تو آپ نے ان سے دریافت کیا کہ یہ روزہ کیوں رکھتے ہو، تو یہودیوں نے جواب دیا کہ آج کے دن ہمیں یعنی موسیٰ علیہ السلام کو اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے اللہ پاک نے آزادی دی تھی اور فرعون کو غرق کردیا تھا۔ تو اسی خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں۔

یہ سن کر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ہم تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تم سے زیادہ نسبت رکھتے ہیں اور آپ نے ہر سال 10 محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کی تلقین کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ نمونہ سامنے رکھتے ہوئے تو ہمیں واضح معلوم ہوجاتا ہے کہ ہمیں بھی آزادی کے دن رب کریم کا شکر بجا لانا چاہیے، اور اس دن خصوصاً عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اور اللہ کے شکر گزار لوگوں میں شامل ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ شکر گزار لوگوں کو ہی پسند کرتا ہے، ورنہ یہ جو خرافات سال بہ سال اس دن کی نسبت سے جڑتی جارہی ہیں وہ آزادی کی اصل کو ختم کردیں گی۔
اور آخر میں میری دعا ہے کہ،
خدا کرے کہ  میری ارض پاک پہ اُترے
وہ فصل گل، جسے اندیشہ زوال نہ ہو!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply