توبہ-اور کب تک؟۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

توبہ اس وقت تک جاری رہنی چاہیےٗ جب تک قبول نہ ہو جائے۔ اہل اللہ نے توبہ قبول ہو جانے کی نشانی یہ بتائی ہے کہ جب توبہ قبول ہو جاتی ہے تو وہ گناہ دوبارہ سرزد نہیں ہوتا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ جب توبہ قبول ہو جاتی ہےتو یادِ گناہ بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس قول کی تفہیم کے لیے لازم ہے کہ یاد اور یادداشت میں فرق ملحوظ رکھا جائے۔ یاد کا تعلق دل ہوتا ہے اور دل کا تعلق رغبت سے ہے، یاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ دل گناہ کی رغبت سے نکل گیا۔ اس کے برعکس یادداشت کا تعلق دماغ سے ہے، دماغ میں اچھی بری یادداشتیں جمع رہ سکتی ہیں، لازم نہیں کہ جو چیز یادداشت میں ہوٗ انسان اس کی طرف رغبت بھی رکھے۔ کچھ واقعات ایک ڈراونے خواب کی طرح بھی یادداشت کے نہاں خانے میں رہ سکتے ہیں۔ بار بار گناہ اور بار بار توبہ کے ضمن میں حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ اگر گناہ سے شرمندگی نہیں تو توبہ سے شرمندگی کیسی؟

توبہ کرنے والا یہ بتاتا ہے کہ وہ گھر کا رستہ نہیں بھولا۔ اگرچہ شیطان نے مرغوباتِ نفس سے مزین منظر دکھا کر اسے اس کے اصلی گھر سے نکال لیا ہے لیکن وہ اپنے ازلی سعادت والے گھر میں واپس جانا چاہتا ہے۔ شیطان کے ورغلانے سے شجرِ ممنوعہ کا ذایقہ چکھنے کے بعد ہمارے جد امجد کو اگرچہ بہشت سے ہبوط کر دیا گیا لیکن وہ توبہ کے سبب تقرب کی سعادت سے محروم نہیں ہوئے۔ یہاں ایک راز ہے، تقرب فاصلوں کی احتیاج نہیں رکھتا، بلکہ تقرب ایک فیصلہ ہے، جس کے حق میں سنا دیا جاتا ہے اسے کوئی عمل تقرب سے معزول نہیں کرتا۔ اسے غلطی کے بعد توبہ کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے اور وہ پہلے سے بڑھ کر مقبول ہو جاتا ہے۔

توبہ کرنے والا یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نے طاغوتی فکر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، وہ اپنی بشری کمزوریوں کے سبب طاغوت کے بچھائے ہوئے جال میں اگرچہ گرفتار ہے لیکن اس نے رحمانی فکر سے بغاوت نہیں کی۔ وہ طاغوتی نظام میں محبوس ہے، نادم ہے، لیکن طاغوتی فکر کا خادم نہیں۔ وہ عاصی ہے، باغی نہیں۔ وہ یرغمال ہے، غدار نہیں!!

توبہ کا تعلق نیت سے ہے۔ اگر نیت حسنات کی طرف پلٹ آنے کی ہوگی تو انسان ہر حال میں توبہ کرے گا۔ اگر خدانخواستہ نیت ہی مذموم حلقوں میں بسر کرنے کی ہو جائے تو ایسے میں توبہ کا خیال کسی بے ادب کے اعمال کی طرح حبط ہو جاتا ہے۔ سعید لوگوں کی سنگت ہمیں توبہ کی یاد دہانی کرواتی ہے۔ سعید سنگت بالآخر سعادت لے کر آتی ہے۔

باادب انسان توبہ اور ندامت کے قریب ہوتا ہے، بے ادب ندامت سے دُور اور غرور کے قریب ہوتا ہے۔ باادب ہمہ وقت اپنے عمل کی ممکنہ قباحت کی طرف متوجہ رہتا ہے، اسے ندامت دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں اس کا کوئی عمل اسے مجلس اور صاحبِ مجلس سے دُور نہ کر دے، اس لیے وہ اپنی معصیت سے کبھی غفلت کی نہیں رہتا۔ وہ ہر آن اپنی معصیت کو مغفرت میں بدلنے کی تدبیر کرتا ہے۔ یہی تدبیر اسے بابِ توبہ کی طرف لے جاتی ہے۔

اپنے علم وعمل پر بھروسہ کرنے والا ادب سے دُور جا گرتا ہے۔ وہ شخص توبہ کے قریب نہیں آئے گا جسے اپنے اعمالِ کی توجیہات تراشنے کی عادت ہو چکی ہو۔ گناہ کو اپنا معاشی اور معاشرتی حق سمجھنے والا توبہ سے دُور رہے گا۔ جو توبہ سے دُور ہےٗ وہ رحمت سے دُور ہے۔ توبہ کرنے والا اپنے رب کی رحمت کو پکارتا ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے، اِس لیے اُس کے غضب کا حکم جاری ہونے سے پہلے توبہ کرنے والے کے حق میں رحمت کا حکم جاری ہو جاتا ہے۔

باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ توبہ روح کا غسل ہے۔ احادیث مبارکہ میں ہے کہ جمعہ کے روز کا غسل پورے ہفتے کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ ظاہر ہے یہاں غسل سے مراد صرف بدن پر پانی بہانا نہیں بلکہ چہرہ و رخسار پر آنسو بہانا ہے۔ ظاہر پرست صفائی اور طہارت میں فرق ملحوظ نہیں رکھتے۔ عین ممکن ہے ایک شخص اپنے بدن کی صفائی رکھتا ہو، اس کا بدن جراثیم سے پاک ہو،اس کے کپڑے یوڈی کلون سے معطر ہوں لیکن وہ طہارت سے دُور ہو۔ اس کے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ ایک محنتی مزدور پیسینے سے شرابور ہو، گرد سے اٹے ہوئے لباس میں ملبوس ہو لیکن وہ باوضو ہو کر طہارت حاصل کر چکا ہو۔ لباسوں میں جس لباس کی تعریف کی گئی ہے وہ تقویٰ کا لباسِ ہے۔ تقویٰ، طہارت اور توبہ ایک ہی پاکیزہ مثلت کے تین زاویے ہیں۔ توبہ کرنے والا طہارت چاہتا ہے اور طاہر شخص کسی مطہر و متقی ذات کا قرب چاہتا ہے، وہ کسی بارگاہِ ادب میں زاویہ نشین ہوتا ہے اور انجامِ کار خیر سے ہمکنار ہوتا ہے۔

دنیائے ظاہر میں جب ہم اپنے سے امیر لوگوں میں بیٹھتے ہیں تو ہمیں اپنی غربت کا احساس ہوتا ہےٗ اسی طرح اپنے سے زیادہ متقی اور مطہر لوگوں میں بیٹھنے سے ہمیں اپنی روحانی غربت کا اندازہ ہوتا ہے۔ متقی لوگوں کی سنگت ہمیں تقویٰ کے سنگ کرتی ہے۔ طاہر لوگوں کی صحبت ہمیں اپنے رجس سے مطلع کرتی ہے اور ہم توبہ اور طہارت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

توبہ شکنی دراصل ایک عہد شکنی ہے۔ عہد شکن کسی کی نظر سے گرنے سے پہلے اپنی نظروں سے گر جاتا ہے۔ عہد شکن جس کے ساتھ عہد شکنی کا مرتکب ہوتا ہے ٗ اس سے بھاگتا ہے، لیکن عاقل شخص اس کی طرف بھاگتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کوئی راہ فرار ممکن نہیں، اس کی مملکت میں کوئ جائے فرار نہیں، وہ ظالموں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ پہلے وقتوں میں سالک لوگ کسی کے ہاتھ پر توبہ کرتے تھے تاکہ دنیائے ظاہر میں گوشت پوست کا کوئی انسان ان کی توبہ کا شاہد ٹھہرے۔ “کشف المحجوب” میں اس ضمن میں ایک واقعہ درج ہے۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے اصحاب میں جناب عمرواسماعیلؒ بن نجید نیشاپوری اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے شروع میں حضرت ابوعثمان حیریؒ کی مجلس میں توبہ کی، لیکن کچھ ہی عرصہ اس توبہ پر قائم رہ سکا۔ ایک دن اچانک پھر دل میں گناہ کا خیال آیا اور مجھ سے گناہ سرزد ہوگیا، چنانچہ میں نے شیخ کی مجلس سے بھی منہ پھیر لیا یہاں تک کہ انہیں دُور سے دیکھتا تو شرمندگی کی وجہ سے بھاگ کھڑا ہوتا تاکہ اُن کی نگاہ مجھ پر نہ پڑے۔ ایک دن اچانک ان کا سامنا ہوگیا، مجھ سے شیخ فرمانے لگےٗ بیٹا! اس وقت تک اپنے دشمن کے پاس نہ بیٹھ جب تک تیرے اندر اس سے بچنے کی طاقت نہ پیدا ہو جائے کیونکہ دشمن تیرے عیب دیکھتے ہیں، اگر تیرے اندر عیب ہوں گے تو دشمن خوش ہوں گے، اگر تو پاک ہو گا تو دشمن غمگین ہوں گے، اگر گناہ کرنے ہی کو تیرا جی چاہتا ہے تو میرے پاس آ، تاکہ تیرا بوجھ میں اٹھا لوں اور تو دشمن کا مقصد پورا نہ کرے۔ ابو عمر و اسماعیلؒ کا بیان ہے کہ شیخ کے یہ الفاظ سنتے ہی گناہ سے میرا دل بھر گیا اور مجھے توبہ پر استقامت حاصل ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ گناہ کے بعد یہ سوچ کر بارگاہِ ادب سے روگرداں ہونا کہ ہم اس قابل کہاں، یہ طرزِ فکر و عمل قابلِ قبول نہیں۔ یہاں غالب کی فکر مغلوب ہے، معلوم نہیں غالب نے شرمساری کے کس تناظر میں کہا تھا کہ کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب۔ مجلس میں مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ یہ شعر پڑھ کر کہتے ٗ تم یہی منہ لے کر ٗ اسی منہ سے ہی جاؤ گے۔

حاصلِ کلام یہ ٹھہرا کہ توبہ شکنی کے بعد بھی توبہ کے لیے اسی در پر سر بسجود ہونا حاصلِ بندگی ہے، کیونکہ عالمِ امکان اور کون و مکان میں محبوبؐ کے در کے علاوہ کوئی در نہیں ہوتا۔ مسجدِ نبویؐ میں ریاض الجںہ کی صفوں کے عین سامنے حدیث مبارکہ کے یہ امید افزا الفاظ منقش ہیں” شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي” (میری شفاعت میری اُمّت کے کبائر کے مرتکب لوگوں کے لیے ہے)۔ سبحان اللہ العظیم!! کبائر کے مرتکب اُمّتی بھی درِ رحمت سے مایوس نہیں ہوں گے۔ جب رحمت یوں آواز دے کر بلا رہی ہو تو پھر توبہ کرنے میں دیر کاہے کو؟

Advertisements
julia rana solicitors

توبہ واپس آنے کو کہتے ہیں۔ واپس آنے میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ اس باب میں ابوسعید ابوالخیرؒ کی دل ربا رباعی دامنِ خیال کو کھینچ لیتی ہے۔
باز آ باز آ هر آنچہ هستی باز آ
گر کافر و گبر و بت‌پرستی باز آ
این درگاہِ ما ،درگۂ نَومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
واپس آ جاؤ، واپس آ جاؤ۔۔۔۔۔ تم جو بھی ہو، واپس آ جاؤ؛ تم چاہے کافر ہو، مجوسی ہو یا بت پرست ہو، واپس آجاؤ؛ یہ ہماری درگاہ ناامیدی کی درگاہ نہیں ہے؛ اگر سو بار توبہ توڑ چکے ہو تو بھی واپس آ جاؤ!!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply