قانون اتمام حجت

مشرکینِ مکہ سے معاہدے ختم کرنا اور انہیں چُن چُن کر قتل کرنا، ان پر اتمام حجت کا عذاب ہی تھا۔ نبی محمدﷺ جو معبوث ہوئے پوری دینا کے لیے یہ ان کےمشن کی پہلی سٹیج کی تکمیل کا اعلان تھا جو علاقائی درجے تک دین کے غالب ہونے پر مکمل ہو گیا- پھر انکار کرنے والے مشرکین کو کوئی آپشن نہیں دی گئی، ایمان لے آئیں تو ٹھیک۔۔ نہیں تو انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارو، جیسا کہ عذاب اتمام حجت کے عذابوں کی صورت میں باقی قوموں کے ساتھ ہوتا رہا ہے- اس سٹیج میں اہل کتاب کو البتہ چھوڑ دیا گیا، رہی بات ذمی بنانے کی تو اس کا تعلق اسلامی ریاست کے انتظامی امور کی پالیسی سے ہے نہ کہ عذاب اتمام حجت سے تب ہی یہ پالیسی کے طور پر بعد میں بھی جاری رہا لیکن جہاں پاؤ قتل کرو والا معاملہ اس کے بعد کسی کے ساتھ نہیں ہوا-
اتمام حجت کا اگلا سٹیپ اسکی فائنل سٹیج ہے – نبیﷺ چونکہ گلوبل نبی ہیں اور اس اتمام حجت کے گلوبل پہلو کی تکمیل کے بنا آپ کا مشن پورا نہیں ہوتا اور ساتھ ہی ساتھ اس میں یہودیوں پر اتمام حجت کا جو عذاب پینڈنگ ہے اس نے بھی پورا ہونا ہے اور اس سٹیج کی یہ صورت ہو گی کہ صلیب توڑ دی جائے گی اور جزیہ ختم ہو جائے گا ، جو تقریباً جہاں پاؤ قتل کرو کی گلوبل صورت کی طرف اشارہ ہے اور یہ نبیﷺ کے نبوت کے مشن کی مکمل تکمیل کا اعلان ہو گا۔ اس سے یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ع کا انکار کیا ،انہیں ذلت کے ساتھ قتل(اپنے خیال میں ) تک کر دیا تو وہ قوم عذاب اتمام حجت سے بچ کیسے گئی الٹا سپر پاور بنی بیٹھی ہے تو یہ صرف وقتی ڈھیل ہے وہ عذاب بھی یہودیوں پر پینڈنگ ہے اور حضرت عیسیٰ ع نے اسی کام کو پورا کرنے آنا ہے اور ان کے سامنے یہودیوں کو عذاب دیا جائے گا جیسا کہ باقی نبیوں کے انکار کرنے والوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ ان کی جڑ کاٹ دی جاتی ہے کیونکہ اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی –
پھر اس کے بعد دنیا میں صرف نبیﷺ کی امت ہی بچے گی اور آگے وہ کیا کرے گی یہ ہمیں معلوم نہیں-

Facebook Comments

اسرار
سوشل میڈیا ایکٹوسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply