• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ٹرانس جینڈر [پروٹیکشن آف رائٹس] ایکٹ 2018 : قانون اور اعتراضات/تحریر- نسرین غوری

ٹرانس جینڈر [پروٹیکشن آف رائٹس] ایکٹ 2018 : قانون اور اعتراضات/تحریر- نسرین غوری

آج کل سوشل میڈیا پر ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف ایک طوفان برپا ہے۔ مذہبی رحجان رکھنے والی سیاسی پارٹیاں اور ان سے متاثر افراد دھڑا دھڑ جینڈر ایکٹ کے خلاف پوسٹیں کر رہے ہیں لہذا میں نے ضروری سمجھا کہ میں پہلے ٹرانس جینڈرایکٹ کو پڑھ ڈالوں کہ ایسا اس میں کیا ہے جس پر اتنا شور و غوغا ہے۔ جماعت اسلامی اس ایکٹ میں ترمیم کی خواہاں ہے۔ اس پوسٹ کے آخر میں اس ایکٹ کا اردو میں خلاصہ بھی دیا گیا ہے ،جو چاہے وہ  قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے اس ایکٹ کا پورا متن ڈاؤنلوڈ کر کے خود پڑھ سکتا ہے۔

جس بات پر سب سے زیادہ شور ہے وہ ایک لائن یہ ہے کہ ۔* ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق صنفی شناخت اختیار کرنے کا حق رکھتا ہے*۔ میری ناقص رائے میں یہ لائن اس ایکٹ میں شامل کرنے کی وجہ تسمیہ یہ ہوگی کہ ہمارے معاشرے میں مخنث یا خواجہ سرا پیدا ہونے والے بچے کو زبردستی لڑکا یا لڑکی کی شناخت دی جاتی ہے۔ انہیں ان کی اصل شناخت یا صنف ظاہر کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ خود ہماری برادری یا خاندان میں دو پیڑھیاں پیچھے ایک ٹرانس جینڈر پیدا ہوا تھا/تھی۔ اسے اس کی فیملی نے ساری عمر بطور لڑکی ٹریٹ کیا اور بطور لڑکی ہی اس نے ساری زندگی گزاری ، ساری عمر تنہا گزارنے کے بعد اس کا انتقال ہوا تو اسے بطور خاتون دفن کیا گیا۔ ابا اماں نے اسے دیکھا ہوا ہے۔ ان ہی سے یہ تذکرہ سنا تھا۔ یہ بہرحال ایک باعزت شناخت تھی خواہ زبردستی کی تھی۔ لیکن ایسے کیسوں میں اکثریت کو بچپن میں ہی خاندان سے ہی الگ کردیا جاتا ہے ایسے بچے خواجہ سراؤں کے گروہوں کےساتھ ہی پلتے اور جوان ہوتے ہیں۔ لہذا اس قانون کے ذریعے شاید ایسے بچوں کو سپورٹ کرنے کی غرض سے یہ جملہ شامل کیا گیا ہوگا کہ اگر آپ کے خاندان میں ایسا کوئی بچہ ہے تو اسے وہی رہنے دیں جو وہ ہے، اس پر شرمندہ نہ ہوں اس پر زندگی کے، تعلیم کے، روزگار کے دروازے محض اس لیے بند نہ کریں کہ وہ خاتون یا مرد نہیں ہے۔

اب یہ بھی دیکھ لیں کہ اس ایکٹ پر دیگر اعتراضات کیا ہیں
“ٹرانس جینڈر امریکی ٹرم ہے” اور یہ پروپیگنڈہ وہ جس فورم پر کررہے ہیں وہ بھی امریکی ہی ہے۔ لیکن ان پر حلال ہے۔ ارے بھیا کوئی لوکل نام دے لو لیکن ان مظلوموں کو جینے کا حق تو دے دو ۔

کچھ لوگ اسے جینڈر ری اسائنمنٹ لاء کہہ رہے ہیں غالباً طنزیہ طور پر جبکہ اس کا نام ٹرانس جیندڑ ایکٹ [پروٹیکشن آف رائٹس] 2018ہے۔

ایک اعتراض یہ ہے کہ ” کوئی بھی مرد نادرا جا کر یہ کہہ دے کہ وہ عورتوں کی طرح فیل کرتا ہے تو  نادرا اسے بطور عورت رجسٹر کرلے گا” اور اس طرح وہ خواتین کے واش رومز میں داخل ہوسکے گا۔ کسی دوسرے مرد سے شادی کرسکے گا وغیرہ وغیرہ ۔[ مطلب یہ لوگ اتنی دور کی کوڑی کہاں سے لے آتے ہیں۔ جن باتوں کا خیال بھی کسی عام آدمی کو نہیں آسکتا وہ آپشن بھی یہ لوگ اس کے سامنے پیش کردیتے ہیں وللہ تباہی ۔]

واضح رہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں کہیں بھی ٹرانس جینڈرز کی شادی کی اجازت یا نکاح کے معاملات پر کوئی شق نہیں ہے ۔ اور پاکستان کے قانون کے مطابق ابھی تک پاکستان میں نکاح یا شادی مردو عورت کے درمیان ہی ہوسکتی ہے۔ ٹرانس جینڈرز کو شادی کی اجازت یا ان کی شادی رجسٹر کرنے کا کوئی قانون پاکستان میں نہیں ہے۔

مزید یہ کہ “یہ ہم جنس پرستی کو پروموٹ کرنے کی سازش ہے”
ہر ایکٹ / لاء یا قانون کی مخصوص آڈینس ہوتی ہے۔ یہ قانون ٹرانس جینڈرز اور ان سے متعلق حکومتی اداروں کے لیے تھا۔ اس کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ ٹرانس جینڈرز کے حقوق کا تعین کرنا، ان حقوق کی آئینی حفاظت اور پاسداری کے لیے تمام اداروں کو تیار کرنا ، تاکہ ٹرانس جینڈرز نارمل انسانوں والی زندگی گزار سکیں تعلیم حاصل کرسکیں، ملازمت کرسکیں، انہیں علاج معالجے میں کسی قسم کے صنفی امتیاز سے بچایا جاسکے اور اگر کسی ٹرانس جینڈر کو زندگی کے کسی بھی شعبے میں کسی صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑے تو وہ قانون کا سہارا لے سکے، اس کی کہیں داد رسی ہوسکے ۔ یہ عام آدمی کے لیے تھا ہی نہیں ۔ عام آدمی تک اس کے نفاذ کے بعد صرف آگاہی پہنچنی تھی کہ ٹرانس جینڈرز کو انسان سمجھیں ، اوران سے انسانوں والا سلوک کریں۔

لیکن تھینکس ٹو جماعت اسلامی اور اوریا مقبول جان اب پاکستان کے عام مرد و خواتین کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ وہ جب چاہیں نادرا کے سامنے ایک بیان دے کر مرد سے عورت اور  عورت سے مرد بن سکتے ہیں ،ساتھ ہی دوسری جینڈر کے واش رومز استعمال کرسکتے ہیں اور اپنی ہی جینڈر کے افراد سے شادی کی خواہش کرسکتے ہیں۔ یہ وہ آئیڈیاز ہیں جو کسی عام آدمی کو شاید ہی کبھی دماغ میں آتے ، یہ” ہم جنس پرستی کی اجازت” آپ نے اس قانون میں سے برآمد کر کے عوام تک پہنچائی ہے۔ شکریہ جماعت اسلامی آپ کی وساطت سے جتنے لوگ بھی اب جینڈر تبدیل کریں گے ان سب کا “ثواب دارین” آپ کو ضرور پہنچے گا۔

پلس اس اعتراض کے حامیوں کو میڈیکل سائنس تھوڑی بہت پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی انٹر سیکس، ٹرانس جینڈر اور ہم جنس پرستی کی اصطلاحات پر تھوڑی سی گوگل ریسرچ ہی کرلیں تو انہیں معلوم ہو کہ ہم جنس پرست جوڑوں میں دونوں مرد ہوتے ہیں یا دونوں خواتین ہوتی ہیں ان میں سے کوئی بھی اپنی صنفی شناخت سے دستبردار نہیں ہوتا۔ کوئی بھی “گے “یہ نہیں کہتا کہ میں عورت ہوں اس لیے مجھے دوسرے مرد میں دلچسپی ہے ۔ بلکہ ان کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ انہیں خواتین میں کشش فیل نہیں ہوتی انہیں دوسرا مرد بطور پارٹنر زیادہ اٹریکٹ کرتا ہے، نہ ہی کوئی گے خواتین کی طرح کا حلیہ بناتا ہے، نہ میک اپ یا زیور پہنتا ہے۔ یہی حال لیزبئینز کا ہے۔ ٹرانس جینڈرز نہ تو گے ہوتے ہیں نہ ہی لیزبئینز۔ اس قانون میں ہم جنس پرستوں کا کوئی تذکرہ نہیں دور دور تک۔

اب اس پوائنٹ پر آجائیں کہ کون مائی کا لال ہے جو اس ایک لائن سے فائدہ اٹھا کر اپنی مرضی سے خواجہ سرا بن جائے گا اور معاشرے میں فحاشی پھیلائے گا۔ بھائی جان دیکھیں ایلیٹ کلاس کو تو اس قانون کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، بیگم نوازش علی کی مثال سب کے سامنے ہے۔غریب ترین کلاس کو بھی چھوڑ دیں وہاں تو خواتین اور بچیاں بھی جسم فروشی کررہی ہوتی ہیں کیونکہ پیٹ تو کھانا مانگتا ہے۔ آپ ان کو تو جسم فروشی سے روک نہیں سکتے ان کے لیے روزگار یا آمدن کا بندو بست کر نہیں سکتے کہ وہ دن کو بھیک مانگنا اور رات کو جسم بیچنا بند کردیں تو لڑکوں کو آپ کیسے روکیں گے ۔ آپ قانون میں ترمیم کروا کر بھی نہیں روک سکتے ۔

رہ گئی مڈل کلاس ، تو ساری شرم حیا اور اسلام کا بوجھ اسی کلاس نے اٹھا یا ہوا ہے اس کی مجال کہ کوئی مڈل کلاس مرد جان بوجھ کر خواجہ سرا ہوجائے۔ دنیا کیا کہے گی، زمانہ کیا کہے گا، رشتہ دار، دوست کیا کہیں گے اورپھر ایسا کر کے ڈائریکٹ اس نے جہنم کا ٹکٹ خرید لینا ہے ، نہ بابا نہ کوئی مڈل کلاس مرد یہ ہمت نہیں کرسکتا۔

لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھ لیں کہ اس ایکٹ کی سب سے زیادہ مخالفت کر کون رہا ہے۔جماعت اسلامی، اوریا مقبول جان اور اسی قبیل کے دیگر افراد ۔ یاد رہے یہ وہی لوگ ہیں جو خواتین کے حقوق دینےکی بھی مخالفت کرتے ہیں اور خواتین کے حقوق کے وہ وہ معنی بتاتے ہیں جو خود ان خواتین کو بھی نہیں پتا ،جو ان حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے خیال میں اگر خواتین کو بنیادی انسانی حقوق دے دیے گئے تو وہ سڑکوں پر برہنہ رقص کرتی نظر آئیں گی۔ یہ دراصل ان کی اپنے ذہن کی گندگی ہے جسے وہ اس بہانے سے باہر نکال رہے ہوتے ہیں۔

اور اب آخر میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کا اردو خلاصہ:

ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کے سات حصے ہیں۔
پہلے حصے میں مختلف اصطلاحات کی وضاحت ہے ۔ بشمول کہ کون ٹرانس جینڈر کہلائے گا
1۔ جو پیدائشی طور پر دونوں اصناف کے جنسی اعضاء کے ساتھ پیدا ہوا ہو
2۔ مخنث جو بطور لڑکا پیدا ہوئے ہوں لیکن بعد میں سرجری کے ذریعے اعضاء کی قطع و برید کروا چکے ہوں
3۔ ٹرانس جینڈر مرد، ٹرانس جینڈر خواتین ، خواجہ سرا جن کی پیدائش کے وقت دی گئی صنفی شناخت سے موجودہ صنفی شناخت میل نہ کھاتی ہو۔

دوسرے حصے میں ٹرانس جینڈر کی قانونی و شناختی دستاویزات کی تفصیل ہے ۔* ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق صنفی شناخت اختیار کرنے کا حق رکھتا ہے*۔ لہٰذا کوئی بھی شخص جو خود کو ٹرانس جینڈر کہتا ہے نادرا سمیت ہر حکومتی ادارے میں اپنی مرضی کی جینڈر میں یا بطور ٹرانس جینڈر رجسٹر کروا سکتا ہے۔ اور اٹھارہ سال کو پہنچنے پر اسی شناخت کے مطابق شناختی کارڈ،پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، ب فارم اور دیگر قانونی دستاویزات حاصل کرسکتا ہے۔
جن ٹرانس جینڈرز کو پہلے سے شناختی کارڈ جاری ہوچکے ہیں وہ ان میں تبدیلی کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

تیسرے حصے میں ٹرانس جینڈر کو حاصل آئینی حقوق کا تفصیلی ذکر ہے۔ جو وہی حقوق ہیں جو آئین میں ایک عام مرد یا خاتون شہری کو حاصل ہونے کی گارنٹی دی گئی ہے۔ جان ، مال کا تحفظ، تعلیم،صحت، ملازمت کے یکساں مواقع اور ان میں جینڈر کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی نا انصافی یا انکار سے تحفظ مثلاً
کسی ٹرانس جینڈر کو اس کی صنف کی بنیاد پر کسی تعلیمی ادارے سے خارج نہیں کیا جاسکتا، اس کے علاج سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اسے ملازمت دینے سے منع نہیں کیا جاسکتا۔ اسے کسی طور ہراساں نہیں کیا جاسکتا ویسے ہی جیسے کسی بھی خاتون یا مرد کو ہراساں نہیں کیا جاسکتا ایسا ہونے کی صورت میں ٹرانس جینڈر اس سلوک کی شکایت کرسکتا ہے اس ادارے یا شخص کے خلاف۔

چوتھے حصّے میں اس ضمن میں گورنمنٹ کی ذمہ داریوں کی تفصیل درج ہے۔ کہ حکومت ٹرانس جینڈرز کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کرے۔ جیسے کہ پروٹیکشن سینٹرز، سیف ہاوس بنانا، ان کی تعلیم ، صحت اور تربیت کے مراکز قائم کرنا۔
ان کے لیے علیحدہ جیل اور حوالات بنانا ۔ سرکاری اداروں کے اہلکاروں خاص کر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عملے کی تربیت اور ان کو اس ضمن میں احساس دلانا کہ ٹرانس جینڈرز کے ساتھ کیسے ڈیل کیا جائے۔

پانچویں حصّے میں حکومت کو ٹرانس جینڈر ز کے حقوق کی حفاظت کا ذمہ دیا گیا ہے کہ وراثت میں ا ن کے حصے کو یقینی بنایا جائے 18 سال سے زائد عمر کے ٹرانس جینڈر مرد / خاتون کا وراثت میں حصہ بقدر مرد /خاتون ہوگا، جن کی صنف کا تعین بطور مرد یا خاتون ممکن نہیں ان کا حصہ ان کی اختیار کردہ شناخت کے مطابق ہوگا ۔ اگر وہ خود کو مرد کہتے ہیں تو مرد کا حصہ اور اگر بطور خاتون شناخت ہے تو خاتون کا حصہ ملے گا اگر شناخت درمیانی ہے تو حصہ دونوں کے اوسط حصے کے مطابق ہوگا۔ 18 سال سے کم عمر کے ٹرانس جینڈر کے حصے کا تعین میڈیکل آفیسر کی رپورٹ میں درج جینڈر کے مطابق ہوگا۔
وراثت کے علاوہ حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ٹرانس جینڈرز کے لیے تعلیم کا حق، ملازمت کا حق، ووٹ کا حق ، سرکاری ملازمت کا حق، صحت کا حق، سماجی میل ملاپ کا حق، عوامی مقامات پر موجود ہونے کا حق، جائداد خریدنے، بیچنے، کرائے پر لینے کا حق کی فراہمی کے بندو بست کرے۔ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرے۔ ٹرانس جینڈرز سے بھیک منگوانے کی سزا چھ ماہ جیل ، پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہیں۔

چھٹے حصّے میں بتایا گیاہے کہ ان سارے حقوق کا تحفظ کیسے ہوگا ، پاکستان پینل کوڈ، کرمنل کوڈ کے علاوہ شکایت کنندہ ٹرانس جینڈر وفاقی محتسب کو بھی ڈائریکٹ شکایت کرسکتا ہے۔

ساتویں حصّے میں مختلف پروسیجرل معاملات بیان کیے گئے ہیں جو اوپرکسی اور حصّے میں فٹ نہیں آتے ۔
مکمل متن قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے ڈاونلوڈ کیا جاسکتا ہے۔

https://na.gov.pk/uploads/documents/1526547582_234.pd

Advertisements
julia rana solicitors

حرف آخر: اگر آپ وہ نہیں ہیں جن کی زندگی آسان کرنے کے لیے یہ قانون بنایا گیا تھا تو شکر ادا کیجیے اور ان کی زندگی مزید مشکل کرنے میں حصّے دار نہ بنیے ۔ساتھ ہی دعا کیجیے کہ آپ کے گھر میں کوئی بچہ ایسی شناخت کے ساتھ پیدا نہ ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply