پروجیکٹ”عمران”جاری ہے۔۔محمد اسد شاہ

جمہوریت اور آئین کے بعض پاس داروں کو چند ماہ سے یہ وہم ہے کہ نادیدہ ہاتھ نیوٹرل ہو چکے ، یا “پروجیکٹ عمران” بند ہو چکا ہے – لیکن انھیں اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ انھیں بے وقوف بنایا گیا ہے – اب بھی وقت ہے کہ وہ خود کو اس بے بنیاد وہم سے نجات دلوائیں- آخر وہ مزید کتنا عرصہ بے وقوف بنے رہیں گے ۔ جب کہ زیر عتاب آئے ہوئے سیاست دانوں جیسی کوئی بھی نشانی عمران یا اس کی جماعت میں نہیں پائی جاتی ۔

گزشتہ چار دہائیاں گواہ ہیں کہ جب بھی کوئی سیاست دان یا جماعت خلائی عتاب کے نیچے آئے ، سب سے پہلے جماعت اسلامی نے اس کے خلاف بیان بازی اور احتجاج کے سلسلے شروع کیے ۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم کرنے کا جب فیصلہ ہوا ، سب سے پہلے جماعت اسلامی نے ہی اس کے خلاف جلسے شروع کیے ۔ اسلامی جمہوری اتحاد میں جماعت اسلامی دوسری اہم ترین جماعت سمجھی جاتی تھی ،لیکن وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی پہلی حکومت اپنے عروج پر تھی جب اچانک جماعت اسلامی نے حکومتی اتحاد چھوڑ کر اس کے خلاف جلسے شروع کیے ، اور پھر چند ہی ماہ میں میاں صاحب فارغ ، مقدمات اور پیشیاں شروع ۔

بے نظیر کی دوسری حکومت میں اچانک جماعت اسلامی نے احتجاجی تحریک شروع کر دی ۔یہی وہ وقت تھا جب جماعت اسلامی نے “دھرنا” ایجاد کیا ، خرابیوں سے بھرپور پاکستانی سیاست میں دھرنا نامی خرابی اسی دور میں شامل ہوئی ۔ پھر تھوڑے ہی عرصے میں بے نظیر حکومت ختم کر دی گئی اور امیر جماعت قاضی حسین احمد مرحوم نے فخریہ یہ اعلان فرمایا کہ بے نظیر کی “کرپٹ” حکومت ان کے دھرنے کی وجہ سے ختم ہوئی ۔

میاں محمد نواز شریف کی دوسری حکومت ختم ہونے سے پہلے بھی جماعت اسلامی ان کے خلاف سخت بیانات اور تقاریر کا آغاز کر چکی تھی ۔ان کے خلاف جو الزامات بند کمروں میں بیٹھ کر گھڑے گئے وہ سب سے پہلے جماعت اسلامی ہی کے ذریعے عام کیے گئے ۔ یعنی جب بھی کسی حکومت یا سیاسی لیڈر کو شکنجے میں لانے کا فیصلہ ہوتا ہے ، سب سے پہلے جماعت اسلامی کے ذریعے اس کے خلاف “ماحول” بنایا جاتا ہے ، تا کہ زیر عتاب شخص کو مظلوم یا مقبول بننے کا موقع نہ ملے ۔

چنانچہ جماعت اسلامی کو پاکستان کے سیاسی حالات میں ایک “انڈیکیٹر” کی حیثیت حاصل ہے ۔آپ کسی چوک سے سڑک عبور کرنا چاہیں تو پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ دور سے آنے والی گاڑی کا انڈیکیٹر کیا کہہ رہا ہے ، بالکل اسی طرح پاکستانی سیاست میں جماعت اسلامی کے رویے سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ خلائی مخلوق مستقبل قریب میں سیاست کو کہاں رکھنا چاہتی ہے -۔

“پروجیکٹ عمران” جب لانچ کیا گیا تو اس معاملے میں بھی سب سے پہلے جماعت اسلامی معاون ہوئی ۔2013 میں جب مولانا فضل الرحمٰن کے مشورے کو پس پشت ڈال کر میاں صاحب نے خیبرپختونخوا  میں عمران پارٹی کو حکومت بنانے کی اجازت دی (اور میاں صاحب کی یہ شرافت ، ان کی بہت بڑی سیاسی غلطی ثابت ہوئی) ، تب پی ٹی آئی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے جو واحد جماعت کھڑی تھی وہ جماعت اسلامی تھی ۔

کوئی اہل دل ہی بتا سکتا ہے کہاں سید مودودی مرحوم اور سید منور حسن مرحوم جیسے متقی لوگوں کے مصفیٰ و پاکیزہ کردار کی وارث جماعت اسلامی ، اور کہاں عمران خان جیسے کردار کے رنگین جلسوں سے مزین پی ٹی آئی ! اس پہ طرّہ یہ کہ سید مودودی مرحوم کے پیروکار ، عمران خان جیسے شخص کے “جونیئر پارٹنرز” بن کر بھی مطمئن اور خوش ہیں ۔علامہ نے کہا تھا؛

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق “پروجیکٹ عمران” کے ساتھ اس قدر وابستہ ہیں کہ پانامہ لیکس کی آڑ میں صرف شریف فیملی کا “رگڑا” لگوانے میں جو تین افراد استعمال ہوئے ، ان میں عمران اور شیخ رشید کے ساتھ سراج الحق بھی شامل ہیں ۔

دوسری طرف پانامہ لیکس میں جن 446 پاکستانیوں کے نام شامل ہیں ، ان کے خلاف تو آج تک کبھی کوئی کارروائی ہی نہیں ہوئی ، لیکن یہ تینوں  قائدین اس پر مطمئن اور شاداں و فرحاں ہیں ۔ثابت ہوا کہ ان تینوں کا مقصد احتساب قطعاً نہیں تھا ۔

“پروجیکٹ عمران” کے لیے محمد نواز شریف اور مریم نواز کو “ٹیکنیکل ناک آؤٹ” کروانا از حد لازمی تھا، کیوں کہ سیاسی میدان میں تو انھیں شکست دینا ممکن ہی نہیں تھا – سراج الحق امیر تو جماعت اسلامی کے ہیں ، لیکن وہ خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سینیٹر ہیں ۔ ملک بھر میں جماعت اسلامی کے نوے فی صد کارکنان اور سوشل میڈیا رضا کار اپنی نجی محافل ، فیس بک ، واٹس ایپ اور ٹوئٹر پر عمران کا دفاع کرنے میں بہت جذباتی ہیں اور “پروجیکٹ عمران” سے ان کی وابستگی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے ۔حتیٰ کہ گزشتہ جولائی کے ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی کے ایک ریٹائرڈ میجر باقاعدہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ اور بلے کے نشان پر پنجاب اسمبلی کے امیدوار تھے ، اور جماعت اسلامی کے ہی کارکنان نے پی ٹی آئی کی انتخابی مہم چلائی ،پھر بھی اگر آئین پسندوں کو یہ وہم ہے کہ “پروجیکٹ عمران” بند ہو گیا ، یا کوئی نیوٹرل ہو گیا ، تو یہ بہت بڑا وہم اور دھوکا ہے ۔

یاد کیجیے کہ حالیہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے جماعت اسلامی کے ذریعے عمران کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلوائی گئی ، یعنی عمران کو ہٹانا مقتدر قوتوں کا اصل ایجنڈہ قطعاً نہیں تھا ۔

یہی وجہ ہے کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران کو مظلوم اور مقبول بننے کا کھلا موقع دیا گیا ۔ دوسری طرف چند انفرادی کردار بھی ایسے ہیں جو خلائی گاڑی کے انڈیکیٹرز ہیں ۔ پرویز الٰہی جو کبھی خلائی مخلوق کے اشارہ ابرو کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، آج عمران کا سپاہی بن کر وزیر اعلیٰ کے منصب پر براجمان ہے ۔ جب اس نے مسلم لیگ نواز کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بننا چاہا تو اس کا فیصلہ اچانک تبدیل کروا دیا گیا ۔حمزہ شہباز کو دو بار وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے باوجود تسلیم نہیں کیا گیا اور آخر کار خلائی گاڑی کے انڈیکیٹر پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ قرار دیئے گئے اور یوں عمران خان کو مزید توانائی ملی ۔

پرویز الٰہی کی طرح شیخ رشید احمد اور فواد چودھری کی حیثیت بھی خلائی انڈیکیٹرز کی سی ہے ۔ یہ تینوں افراد کبھی ڈوبتی کشتی کے مسافر نہیں رہتے ۔ خلاؤں میں جب بھی کسی کشتی کو ڈبونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، تو جماعت اسلامی اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیتی ہے ۔پرویز الٰہی اس کے خلاف تند و تیز بیانات جاری کرتے ہیں ۔ شیخ رشید اور فواد چودھری فوراً سیاسی راستے تبدیل کر لیتے ہیں ، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ شیخ رشید اپنی عوامی لیگ کو پس پشت رکھ کر دن رات عمران کا انتہائی متشدد کارکن بنا ہوا ہے ۔ فواد چودھری بھی اب تک عمران ہی کا ترجمان ہے ۔ ان دونو کے بیانات عمران کے مخالفین کے لیے اتنے شدید ہیں کہ “مدعی سست ، گواہ چست” والی حالت ہے ۔

تو صاحبو ! اگر جماعت اسلامی عمران کے خلاف میدان میں نہیں اتری ، شیخ رشید ، پرویز الٰہی اور فواد چودھری ابھی تک عمران کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں تو آپ کی عقلیں کہاں گھاس چرنے چلی گئیں کہ آپ کسی کو نیوٹرل سمجھ بیٹھے؟ سیاست کو اپنے اشاروں پر چلانے والے تمام دیدہ و نادیدہ عناصر دن رات عمران کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں “سہولت کار” بنے ہوئے ہیں اور آپ “پروجیکٹ عمران” بند ہونے کے دھوکے میں مبتلا ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری طرف حالت آپ کی یہ ہے کہ آپ کے پاس تو ابھی سرکاری افسران کے تبادلے کرنے ، یا عمران کی لائیو تقریر بند کروانے کا بھی اختیار نہیں !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply